پی ایم ایل (ن)کو ہمیشہ سے تاجر دوست حکومت
کہا جاتا ہے۔ کیونکہ نواز شریف خود تجارت کے پیشہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ان سے
انکی قربت ، تعلق ایک یقینی امر ہے۔ پاکستان کا اکثریتی تاجر طبقے نے ہمیشہ
پی ایم ایل (ن) کی حکومت کو الیکشن اور حکومت دونوں میں سپورٹ بھی کیا ہے۔
لیکن اب حکومتی تاجر اور عوام کش پالیسیوں کے باعث یہ سپورٹ ختم ہوتی جارہی
ہے۔ اور آئندہ آنے والے کسی بھی الیکشن میں تاجر طبقہ حکومت مخالف سمت میں
ہوگا ۔ حکومت اور تاجر طبقہ میں خلیج کی سب سے بڑی وجہ جو موجود ہ حکومت کے
پہلے سالوں میں بنی وہ بجلی ، گیس کے نرخوں میں انتہائی تیزی سے اضافہ تھا۔
جس کے باعث بجلی فی یونٹ 20روپے میں مل رہی ہے اور وہ بھی ما سوائے پنجاب
کے کے چند گھنٹوں کے لئے بجلی ، گیس کے نرخ میں اضافہ کے باعث اشیاء ضرورت
کی پیداواری لاگت بہت بڑھ گئی جسکے باعث اشیاء ضرورت کی قیمتیں آسمان سے
باتیں کرنے لگیں ۔ ہماری اشیاء مہنگی ہونے کے باعث چائینہ، کوریا، ملائشیاء
، انڈیا ، تائیوان و دیگرممالک نے ہماری مارکیٹ کو کور کر لیا ہے۔ خاص کر
کپڑے کی مارکیٹ یعنی ٹیکسٹائل انڈسٹر ی زبو حالی کا شکار ہوگئی ہے۔ جسکے
باعث انکی تنظیم Aptama مسلسل احتجاج پر ہے۔ لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی
۔ ابھی یہ بحران حل نہیں ہوا تھا کہ حکومت نے بینکنگ کی لین دین پر 0.6% ود
ہولڈنگ ٹیکس کا نفاذ کر دیا ۔ جسے عارضی طور پر0 3دسمبر 2015تک 0.3%کیا گیا
ہے اس ٹیکس جسکی مثال دنیا بھر میں کہیں نہیں ملتی حکومت کے خلاف تاجر طبقہ
کو مزید سیخ پا کر دیا ہے۔ ملک کا چھوٹا تاجر طبقہ ود ہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ
کے دن سے سراپا احتجاج ہے۔ حکومت اور تاجر برادری کے درمیان کئی اجلاس ہو
چکے ہیں۔ لیکن تاجر اور حکومت دونوں اپنے اپنے مؤقف پہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ تاجر
مجوزہ ٹیکس کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں لیکن حکومت نہیں مان رہی۔ جس کے باعث
ڈیڈ لاک برقرار ہے۔ انکم ٹیکس ریٹرنز میں بہت زیادہ پیچیدگیاں ہونے کے باعث
ریٹرنز جمع نہیں ہو رہے۔ نومبر کی 30تاریخ تک 10لاکھ کا حکومتی ٹارگٹ تھا
لیکن صرف 4لاکھ ریٹرن فائل ہوئیں ۔ حکومت تین مرتبہ تاریخ انکم ٹیکس ریٹرن
بڑھا چکی ہے لیکن مذکورہ خرابیوں کے علاوہ FBRکا سسٹم بھی کام نہیں کر ہا۔
اور نہ ہی FBR میں موجود کرپشن اور بے قاعدگیوں کو حکومت کنٹرول کر سکی
ہے۔مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کے لئے حکومت قرض پہ قرض لے رہی ہے۔ نہ صرف
ائی ایم ایف، ورلڈ بینک جبکہ اندرون ملک بینکوں سے بھی رواں مالی سال کے
پہلے 5ماہ میں حکومت نے 6کھرب قرض لیا۔ جو پچھلے سال کے مقابلے میں 2کھرب
زیادہ ہے۔ جبکہ ادائیگی کی شرح کم ہونے کے باعث پرائیویٹ سیکٹر کو نقصان ہو
رہا ہے۔ بیرون ملک قرضوں کا بوجھ 68بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ جس کے باعث
ہر پاکستانی 92ہزار کا مقروض ہو چکا ہے۔ قرضوں کی ادائیگی اورمالی اہداف ،
خسارہ پورا کرنے کے لئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے عوام اور تاجر دشمنی کا
ثبوت دیتے ہوئے 40ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کا نفاذ 350اشیاء پر کر دیا ہے ۔۔
جس کے بارے میں وزیر خزانہ نے پہلے جواز دیا کہ ان ٹیکسوں سے عام آدمی پر
کوئی حرج نہیں آئے گا یہ ٹیکس صرف امیروں پر لاگو ہوگا۔ لیکن جب اشیاء کی
فہرست سامنے آئیں تو پتہ چلا کہ40ارب کے ٹیکس سے عام آدمی بھی متا ثر ہوگا۔
اور مہنگائی کا طوفان آئے گا تو انہوں نے جواز پیش کیا کہ ضرب عضب اور
متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو کیلئے نئے ٹیکس نا گزیر تھے۔ افسوس کے ساتھ
لکھنا پڑ رہا ہے کہ حکومت نہ تو اپنے غیر ضروری اخراجات اور وزیروں مشیروں
کی فوج کو کم کرنے کو تیا ر ہے اور نہ ہی محکموں میں پائی جانے والی کرپشن
کو صرف واپڈا کراچی میں سالانہ 45ارب کی بجلی چوری کی جاتی ہے۔پورے ملک میں
گیس بجلی کی کھربوں روپوں کی چوری محکمہ جات کے اپنے کرپٹ افسران و عملے کی
مدد سے ہوتی ہے۔ لیکن FIAاحتساب اکاؤنٹ کمیٹیاں ، کرپشن کو کنٹرول کرنے میں
مکمل ناکام ہیں بار بار کے ٹیکس کے نفاذ اور قرضوں کے حصول سے نہ تو کوئی
معیشت سدھری ہے اور نہ ہی سدھرے گی۔ پاکستان بیورو آف شماریات جو ہر ماہ
عام استعمال کی 481اشیاء کی قیمتوں میں ہونے والی تبدیلیوں کا جا ئزہ پیش
کرتی ہے کے مطابق نومبر 2015 میں افراط ذر میں 2.7% اضافہ جبکہ اشیاء کی
قیمتوں میں گزشتہ ماہ کی نثبت 3.7%اضافہ ہوا ہے۔ 40ارب کے نئے ٹیکسوں کے
باعث مہنگائی مزید بڑھے گی ۔ کیونکہ ٹیکس کے ظالمانہ نظام کے باعث اثرات
ہمیشہ عام آدمی کو ہی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔حکومتین واویلا اور پراپیگینڈہ
کہ ذر مبادلہ کے ذخائر 21ارب ڈالر ہو چکے ہیں۔عوام پر کوئی اثر نہیں ڈالتے
جب تک ذخائر میں اضافہ کے مثبت اثرا ت عوام تک نہ پہنچیں اسحاق ڈار کے منی
بجٹ کو ہر طبقہ فکر کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ قومی
اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے علاوہ جماعت اسلامی کے امیر سراج
الحق نے اسے عوام کے خلاف جنگ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلی میں پیش
کئے بغیر ٹیکس لگانا اسمبلی کی توہین ہے۔ پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر
مرتضی نے مذکورہ ٹیکس کو بلا جواز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے غربت اور
سمگلنگ میں اضا فہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ SOR کلچر کو ختم کرنے کے دعویدار
خود اسمبلی کو بائی پاس کرکے SOR کے ذریعے پہلے سے لاغر اور بیمار معیشت
اور مظوم عوام کو مزید تباہ و برباد کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ تیل پر
ریکارڈ ٹیکس وصولی کے با وجود منی بجٹ بلا جواز ہے پاکستان بھر کی تاجر
برادری ، عوام اور معاشی اقتصادی ماہرین 40ارب روپے کے منی بجٹ کو یکسر
مسترد کرتے ہوئے اسے عام آدمی کی پہلے سے خالی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنا قرار
دیا ہے۔ انکے مطابق ٹیکس آمدن کے ہدف کے اصول میں ناکامی کی سزا FBRکی
بجائے عوام کو دی جارہی ہے ۔ وکلاء برادری نے بھی حکومتی پالیسیوں کا شدید
تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے 40ارب کے منی بجٹ کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے
۔ ملک بھر کے چھوٹے تاجروں کی تنظیموں نے اپنے مطالبات کے حق اور ظالمانہ
ٹیکسوں کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کی دھمکی دے ڈالی ہے۔ اب دیکھیں اونٹ
کس کروٹ بیٹھتا ہے۔حکومت کی گزشتہ تین سالوں سے ایک ہی رٹ ہے کہ معیشت
استحکام پکڑ رہی ہے۔ ذر مبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں۔ ٹیکس وصولی میں اضافہ
ہو رہا ہے۔ یورپ کی اقتصادی منڈیوں تک رسائی ممکن ہو رہی ہے۔ سرمایہ کاروں
کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ پاک چائینہ اکنامک کو ریڈور کے جیسے اہم منصوبے
کے ذریعے 46ارب روپے کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ حکومتی پالیسی
اور کامیابی کے اثرات جب تک پاکستان کی عوام تک نہیں پہنچتے۔ حکومت اور
اسکی پالیسیاں ناکام ہی کہلائیں گی۔ پاکستان کا عام شہری آئے دن مہنگائی کے
بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث بد دلی اور مایوسی کا شکار ہورہا ہے۔ اوپر سے
تاجر کش حکومتی پالیسیوں نے بھی تاجروں کا حکومت سے بندھن ختم کر دیا ہے
اگر حکومت وقت نے جلد از جلد اپنے پالیسیوں پر نظر ثانی نہ کی، کرپشن کو
کنٹرول کرنے کے لئے ٹھوس اقدام نہ کیے تو 20کروڑ عوام کے اندر جو لاوا پک
رہا ہے وہ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے جو نواز شریف حکومت کے 5سال کے آئینی
مدت پورا کرنے کے خواب کو بہا لے جا سکتا ہے جس کے ذمہ دار ماضی کی طرح آمر
نہیں بلکہ خود موجودہ حکمران ہوں گے۔ |