عہدِ خلفائے راشدین میں رُونما ہونے والے
محدثات الامور:-
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے فوراً بعد عہدِ خلفائے
راشدین کے زمانہ میں جو بڑے بڑے ’’محدثات‘‘ (دین میں نئے فتنے) پیدا ہوئے۔
جن کو بدعات کہا گیا اور جن کے خلاف جہاد بالسیف کیا گیا۔ درج ذیل ہیں
1۔ فتنہ دعوی نبوت کو اِحداث فی الدین قرار دیا گیا:-
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے فوری بعد جھوٹے مدعیان
نبوت کا فتنہ ظاہر ہوا اور ان کا یہ دعوی نبوت ’’احداث فی الدین‘‘ تھا۔
اَسود بن عنزہ عنسی، طلیحہ اَسدی اور مسیلمہ کذاب جیسے جھوٹی نبوت کے دعوے
داروں کے خلاف حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے لشکر روانہ کیے اور صحابہ کرام
رضی اللہ عنھم نے ان کے خلاف جہاد کیا۔
2۔ فتنہ اِرتداد کو اِحداث فی الدین قرار دیا گیا:-
لشکرِ اُسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی کے بعد سرزمین عرب میں اِحداث کی شکل
میں ایک اور فتنہ رُونما ہوا جسے فتنۂ اِرتداد کہا جاتا ہے۔ عرب کے نومسلم
قبائل اسلام سے پھر گئے اور دوبارہ اپنی پرانی روش پر چل نکلے۔ اس پر حضرت
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس فتنہ کا قلع قمع کیا۔
طبري، تاريخ الأمم والملوک، 2 : 254
3۔ فتنۂ منکرینِ زکوٰۃ کو اِحداث فی الدین قرار دیا گیا:-
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد عرب میں فتنہ
اِرتداد پھیل جانے کے ساتھ ساتھ بعض قبائل نے زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کر
دیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جنگ کا اِرادہ کرتے
ہوئے فرمایا :
واﷲ! لأقاتلن من فرّق بين الصلاة والزکاة، فإن الزکاة حق المال، واﷲ! لو
منعوني عناقاً کانوا يؤدّونها إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم،
لقاتلتهم علي منعها.
’’اللہ کی قسم! میں اس کے خلاف ضرور لڑوں گا جس نے نماز اور زکوٰۃ کے
درمیان فرق کیا، کیوں کہ زکوٰۃ بیت المال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر انہوں
نے مجھے ایک رسی دینے سے بھی انکار کیا جو وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کو ادا کرتے تھے تو اس انکار پر بھی میں ان سے ضرور قتال کروں گا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الزکاة، باب وجوب الزکاة، 2 : 507، رقم : 1335
2. بخاري، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين، باب قتل من أبي قبول الفرائض، 6،
2538، رقم : 6526
3. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب الأمر بقتال الناس حتي يقولوا لا إله
إلا اﷲ محمد رسول اﷲ، 1 : 51، رقم : 20
لہٰذا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو
ان عرب قبائل کی طرف روانہ کیا جنہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تھا۔
4۔ فتنۂ خوارج کو اِحداث فی الدین قرار دیا گیا:-
خوارج کی اِبتداء سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئی۔ جب
صفین کے مقام پر سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ
عنہ میں کئی روز تک لڑائی جاری رہی، جس کے نتیجے میں ہزارہا صحابہ کرام رضی
اللہ عنھم اور تابعین شہید ہوئے۔ بالآخر فیصلہ کیا گیا کہ طرفین میں سے دو
معتمد اشخاص کو حَکَم بنایا جائے جو قرآن و سنت کے مطابق کوئی ایسی تدبیر
نکالیں جس سے لڑائی کا خاتمہ ہو۔ چنانچہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ
کی طرف سے ابو موسیٰ عبد اللہ بن قیس اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ
رضی اللہ عنہ کی طرف سے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ مقرر ہوئے اور عہد نامہ
لکھا گیا جس کے نتیجہ میں لڑائی تھم گئی۔
پھر اَشعث بن قیس نے اس کاغذ کو لے کر ہر ہر قبیلہ کے افراد کو سنانا شروع
کر دیا۔ جب وہ بنی تمیم کے لوگوں کے پاس آئے جن میں ابو بلال کا بھائی عروہ
بن اَدَیہ بھی تھا اور ان کو پڑھ کر سنایا تو عروہ نے کہا :
تحکّمون في أمر اﷲ عزوجل الرجال؟ لاحکم إلا ﷲ.
’’تم اللہ کے اَمر میں انسانوں کو حَکَم بناتے ہو؟ سوائے اللہ کے کسی کا
حکم نہیں۔‘‘
1. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 3 : 104
2. ابن أثير، الکامل في التاريخ، 3 : 196
3. ابن جوزي، المنتظم في تاريخ الملوک والأمم، 5 : 123
اس نے یہ کہہ کر اشعث بن قیس کی سواری کے جانور کو تلوار ماری جس سے آپ رضی
اللہ عنہ نیچے گر پڑے۔ اس پر آپ کے قبیلہ والے اور ان کے لوگ جمع ہوگئے اور
جھگڑا ہوتے ہوتے رہ گیا۔ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ جب صفین سے واپس
کوفہ پہنچے تو ان کو خوارج کے اس عمل سے آگاہی حاصل ہوئی تو آپ نے فرمایا :
اﷲ أکبر! کلمة حق يراد بها باطل، إن سکتوا عممناهم، وإن تکلموا حَجَجْناهم،
وإن خرجوا علينا قاتلناهم.
’’اﷲ ہی بڑا ہے۔ بات تو حق ہے مگر مقصود اس سے باطل ہے۔ اگر وہ خاموش رہے
تو ہم ان پر چھائے رہیں گے اور اگر انہوں نے کلام کیا تو ہم ان پر دلیل
لائیں گے اور اگر وہ ہمارے خلاف نکلے تو ہم ان سے لڑیں گے۔‘‘
1. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 3 : 114
2. ابن أثير، الکامل في التاريخ، 3 : 212، 213
خوارج نے لوگوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف اُکسانا شروع کر دیا اور
لوگوں کو پہاڑوں پر چلے جانے یا دوسرے شہروں کی طرف نکلنے کا مشورہ دیا اور
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عمل کو بدعت ضلالۃ تک کہا گیا۔ آخر کار ان لوگوں
نے آپس کے مشورہ سے ’’الحُکْمُ ﷲ‘‘ کے اِجراء کے لیے نہروان کا مقام چنا
اور سب وہاں جمع ہوگئے۔ نہروان کے مقام پر ان خارجیوں اور حضرت علی رضی
اللہ عنہ کی فوج کے درمیان لڑائی کا آغاز اُس وقت ہوا جب اُنہوں نے صحابی
حضرت عبد اللہ بن خباب رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ ان کی شہادت کے بعد
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
دونکم القوم.
’’اس قوم کو لو (یعنی قتل کرو)۔‘‘
حضرت جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
فقتلت بکفي هذه بعد ما دخلني ما کان دخلني ثمانية قبل أن أصلي الظهر، وما
قتل منا عشرة ولا نجا منهم عشرة.
’’میں نے نمازِ ظہر ادا کرنے سے قبل اپنے ہاتھوں سے آٹھ خوارج کو قتل کیا
اور ہم میں سے دس شہید نہ ہوئے اور ان میں سے دس زندہ نہ بچے۔‘‘
1. طبراني، المعجم الأوسط، 4 : 227، رقم : 4051
2. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 4 : 227
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں یوں فتنہ خوارج اپنے انجام کو پہنچا۔
یہی وہ فتنے تھے جن کی طرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ
کرام رضی اللہ عنھم کے اِجتماع میں اِشارہ فرمایا، جو آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے وصال فرما جانے کے بعد نمودار ہوئے اور جنہیں محدثات الامور
کا نام دیا گیا۔ لہٰذا صحیح روایات کے مطابق یہ چار طبقات (مدعیانِ نبوت،
مرتدینِ اِسلام، منکرینِ زکوٰۃ، خوارج) محدثات کے مرتکب تھے اور احادیث نے
’’اِحداث‘‘ کے معنی کو ’’اِرتداد‘‘ کے ساتھ مختص کر دیا ہے۔ پس اِحداث کا
معنی اِرتداد ہوگا اور یہی بدعتِ ضلالت و بدعتِ سیئہ اور داخلِ دوزخ شمار
ہوگی۔
جاری ہے--- |