بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم
اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی
النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
نکاح ۔ نعمت: نکاح اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے، جب یہ رشتہ قائم کیا جاتا ہے
تو اس میں پائیداری ودوام مقصود ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نکاح کے مقصد کو اس
طرح بیان فرماتا ہے: اور اسی کی نشانیوں میں ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری
ہی جنس کی بیویاں بنائیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو، اور اس نے تمہارے (یعنی
میاں بیوی کے درمیان)محبت وہمدردی پیدا کردی۔ (سورۃ الروم ۲۱) اللہ تعالیٰ
نے بہت سی حکمتوں اور مصلحتوں کے پیش نظر نکاح کو جائز قرار دیا، من جملہ
ان مصالح وحکم کے ایک حکمت ومصلحت یہ بھی ہے کہ اس روئے زمین پر نوعِ
انسانی، اصلاح ارض اور اقامت شرائع کے لئے اس کی نائب بن کر قیامت تک باقی
رہے اور یہ مصلحتیں اسی وقت متحقق ہوسکتی ہیں جبکہ ان کی بنیاد مضبوط اور
مستحکم ستونوں پر ہوں ، اور وہ ہے نکاح۔ویسے تو نسل انسانی کا وجود مرد
وعورت کے ملاپ سے ممکن تھا، خواہ وہ ملاپ کسی بھی طرح کا ہوتا، لیکن اس
ملاپ سے جو نسل وجود میں آتی وہ اصلاح ارض اور اقامت شرائع کے لئے موزوں
اور مناسب نہ ہوتی، نیک نسل نکاح سے ہی وجود میں آسکتی ہے۔
اسلامی تعلیمات کا تقاضہ ہے کہ نکاح کا معاملہ عمر بھر کے لئے کیا جائے اور
اس کو توڑنے اور ختم کرنے کی نوبت ہی نہ آئے کیونکہ اس معاملہ کے ٹوٹنے کا
اثر نہ صرف میاں بیوی پر ہی پڑتا ہے، بلکہ اولاد کی بربادی اور بعض اوقات
خاندانوں میں جھگڑے کا سبب بنتا ہے۔ جس سے پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔ اس
لئے شریعت اسلامیہ نے دونوں میاں بیوی کو وہ ہدایات دی ہیں جن پر عمل پیرا
ہونے سے یہ رشتہ زیادہ سے زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوتا۔
اگر میاں بیوی کے درمیان اختلاف رونما ہوں تو سب سے پہلے دونوں کومل کر
اختلاف دور کرنے چاہئیں۔ اگر بیوی کی طرف سے کوئی ایسی صورت پیش آئے جو
شوہر کے مزاج کے خلاف ہوتو شوہر کو حکم دیا گیا کہ افہام وتفہیم اور زجر
وتنبیہ سے کام لے۔دوسری طرف شوہر سے بھی کہا گیا کہ بیوی کو محض نوکرانی
اور خادمہ نہ سمجھے بلکہ اس کے بھی کچھ حقوق ہیں جن کی پاس داری شریعت میں
ضروری ہے۔ ان حقوق میں جہاں نان ونفقہ اور رہائش کا انتظام شامل ہے وہیں اس
کی دل داری اور راحت رسانی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ اسی لئے رسول اللہ
ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو اپنے گھر والوں (یعنی
بیوی بچوں) کی نظر میں اچھا ہو۔ اور ظاہر ہے کہ ان کی نظر میں اچھا وہی
ہوگا جو اُن کے حقوق کی ادائیگی کرنے والا ہو۔
طلاق ۔ ضرورت: اگر میاں بیوی کے درمیان اختلاف دور نہ ہوں تو دونوں خاندان
کے چند افراد کو حکم بناکر معاملہ طے کرنا چاہئے۔ غرضیکہ ہر ممکن کوشش کی
جانی چاہئے کہ ازدواجی رشتہ ٹوٹنے نہ پائے، لیکن بعض اوقات میاں بیوی میں
صلح مشکل ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے دونوں کا مل کر رہنا ایک عذاب بن جاتا ہے،
تو ایسی صورت میں ازدواجی تعلق کو ختم کرنا ہی طرفین کے لئے مناسب معلوم
ہوتا ہے۔ اسی لئے شریعت اسلامیہ نے طلاق کو جائز قرار دیا ہے۔ طلاق میاں
بیوی کے درمیان نکاح کے معاہدہ کو توڑنے کا نام ہے ۔جس کے لئے سب سے بہتر
طریقہ یہ ہے کہ دو اہم شرائط کے ساتھ صرف ایک طلاق دے دی جائے: (۱)عورت
پاکی کی حالت میں ہو۔ (۲) شوہر عورت کی ایسی پاکی کی حالت میں طلاق دے رہا
ہو کہ اس نے بیوی سے ہم بستری نہ کی ہو۔ صرف ایک طلاق دینے پر عدت کے دوران
رجعت بھی کی جاسکتی ہے، یعنی میاں بیوی والے تعلقات کسی نکاح کے بغیر
دوبارہ بحال کئے جاسکتے ہیں۔عدت گزرنے کے بعد اگر میاں بیوی دوبارہ نکاح
کرنا چاہیں تو نکاح بھی ہوسکتا ہے۔نیز عورت عدت کے بعد کسی دوسرے شخص سے
نکاح بھی کرسکتی ہے۔ غرضیکہ اس طرح طلاق واقع ہونے کے بعد بھی ازدواجی
سلسلہ کو بحال کرنا ممکن ہے اور عورت عدت کے بعد دوسرے شخص سے نکاح کرنے کا
مکمل اختیار بھی رکھتی ہے۔
طلاق کا اختیار مرد کو:مرد میں عادتاً وطبعاً عورت کی بہ نسبت فکروتدبر اور
برداشت وتحمل کی قوت زیادہ ہوتی ہے، نیز انسانی خلقت ، فطرت، قوت اور
صلاحیت کے لحاظ سے اور عقل کے ذریعہ انسان غوروخوض کرے تو یہی نظر آئے گا
کہ اللہ تعالیٰ نے جو قوت مرد کو عطا کی ہے ، بڑے بڑے کام کرنے کی جو
صلاحیت مرد کو عطا فرمائی ہے، وہ عورت کو نہیں دی گئی۔ لہذا امارت اور
سربراہی کا کام صحیح طور پر مرد ہی انجام دے سکتا ہے۔ اس مسئلہ کے لئے اپنی
عقل سے فیصلہ کرنے کے بجائے اس ذات سے پوچھیں جس نے اِن دونوں کو پیدا کیا
ہے۔ چنانچہ خالق کائنات نے قرآن کریم میں واضح الفاظ کے ساتھ اس مسئلہ کا
حل پیش کردیا ہے: (وَلِلرِّجَالِ عَلَےْہِنَّ دَرَجَۃ) (سورۂ البقرۃ ۲۲۸) (الرِّجَالُ
قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَاءِ) (سورۂ النساء ۳۴) ان آیات میں اللہ تعالیٰ
نے واضح الفاظ میں ذکر فرمادیا کہ مرد ہی زندگی کے سفر کا سربراہ رہے گا
اور فیصلہ کرنے کا حق مرد ہی کو حاصل ہے، اگرچہ مرد کو چاہئے کہ عورت کو
اپنے فیصلوں میں شامل کرے۔ اسی وجہ سے شریعت اسلامیہ نے طلاق دینے کا
اختیار مرد کو دیا ہے۔
خُلَع:لیکن عورت کو مجبور محض نہیں بنایا کہ اگر شوہر بیوی کے حقوق کما حقہ
ادا نہیں کررہا ہے یا بیوی کسی وجہ سے اس کے ساتھ ازدواجی رشتہ کو جاری
نہیں رکھنا چاہتی تو عورت کو شریعت اسلامیہ نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ شوہر
سے طلاق کا مطالبہ کرے۔ اگر عورت واقعی مظلومہ ہے تو شوہر کی شرعی ذمہ داری
ہے کہ اس کے حقوق کی ادائیگی کرے ورنہ عورت کے مطالبہ پر اسے طلاق دیدے
خواہ مال کے عوض یا کسی عوض کے بغیر۔ لیکن اگر شوہر طلاق دینے سے انکار
کررہا ہے تو بیوی کو شرعی عدالت میں جانے کا حق حاصل ہے تاکہ مسئلہ کا حل
نہ ہونے پر قاضی شوہر کو طلاق دینے پر مجبور کرے۔ اس طرح عدالت کے ذریعہ
طلاق واقع ہوجائے گی اور عورت عدت گذارکر دوسری شادی کرسکتی ہے۔ خلع کی شکل
میں طلاق بائن پڑتی ہے یعنی اگر دونوں میاں بیوی دوبارہ ایک ساتھ رہنا
چاہیں تو رجعت نہیں ہوسکتی بلکہ دوبارہ نکاح ہی کرنا ہوگا، جس کے لئے طرفین
کی اجازت ضروری ہے۔
طلاق کی قسمیں: عمومی طور پر طلاق کی تین قسمیں کی جاتی ہیں: طلاق رجعی،
طلاق بائن اور طلاق مغلظہ۔
طلاق رجعی: واضح الفاظ کے ذریعہ بیوی کو ایک یا دو طلاق دے دی جائے۔ مثلاً
شوہر نے بیوی سے کہہ دیا کہ میں نے تجھے طلاق دی۔ یہ وہ طلاق ہے جس سے نکاح
فوراً نہیں ٹوٹتا بلکہ عدت پوری ہونے تک باقی رہتا ہے۔ عدت کے دوران مرد جب
چاہے طلاق سے رجوع کرکے عورت کو پھر سے بغیر کسی نکاح کے بیوی بنا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ شرعاً رجعت کے لئے بیوی کی رضامندی ضروری نہیں ہے۔
طلاق بائن:ایسے الفاظ کے ذریعہ جو صراحتاً طلاق کے معنی پر دلالت کرنے والے
نہ ہوں، جیسے کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو اپنے میکے چلی جا، میں نے
تجھے چھوڑ دیا۔ اس طرح کے الفاظ سے طلاق اسی وقت واقع ہوگی جبکہ شوہر نے ان
الفاظ کے ذریعہ طلاق دینے کا ارادہ کیا ہو ورنہ نہیں۔ ان الفاظ کے ذریعہ
طلاق بائن پڑتی ہے یعنی نکاح فوراً ختم ہوجاتا ہے، اب نکاح کرکے ہی دونوں
میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے حلال ہوسکتے ہیں۔
طلاق مغلظہ: اکٹھا طور پر یا متفرق طور پر تین طلاق دینا طلاق مغلظہ (سخت)
ہے، خواہ ایک ہی مجلس میں ہوں یا ایک ہی پاکی میں دی گئی ہوں۔ ایسی صورت
میں نہ تو مرد کو رجوع کا حق حاصل ہے اور نہ ہی دونوں میاں بیوی نکاح
کرسکتے ہیں ، الاّ یہ کہ عورت اپنی مرضی سے کسی دوسرے شخص سے باقاعدہ نکاح
کرے اور دونوں نے صحبت بھی کی ہو، پھر یا تو دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے
یا دوسرا شوہر اپنی مرضی سے اسے طلاق دیدے تو پھر یہ عورت دوسرے شوہر کی
طلاق یا موت کی عدت کے بعد پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔ اس کو اللہ
تعالیٰ نے اپنے پاک کلام (سورۃ البقرۃ آیت ۲۳۰)میں اس طرح بیان فرمایا ہے:
پھر اگر شوہر (تیسری) طلاق دیدے تو وہ (مطلقہ) عورت اس کے لئے اس وقت تک
حلال نہیں ہوگی جب تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرے۔ ہاں اگر (دوسرا شوہر
بھی ) اسے طلاق دیدے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ایک دوسرے کے پاس
(نیا نکاح کرکے) دوبارہ واپس آجائیں، بشرطیہ کہ انہیں یہ غالب گمان ہو کہ
وہ اب اللہ کی حدود قائم رکھیں گے۔ اسی کو حلالہ کہا جاتا ہے ، جس کا ذکر
قرآن کریم میں ہے۔ اس کے صحیح ہونے کے لئے چند شرطیں ہیں: دوسرا نکاح صحیح
طریقہ سے منعقد ہوا ہو۔ دوسرے شوہر نے ہم بستری بھی کی ہو۔ دوسرا شوہر اپنی
مرضی سے طلاق دے یا وفات پاجائے اور دوسری عدت بھی گزر گئی ہو۔ حلالہ کے
لئے مشروط نکاح کرنا حرام ہے۔
ایک ساتھ تین طلاق: طلاق رجعی اور طلاق بائن کی شکلوں میں عمومی طور پر
اختلاف نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی شخص نے ابغض الحلال طلاق کے صحیح طریقہ کو
چھوڑکر غیر مشروع طور پر طلاق دیدی مثلاً تین طلاقیں عورت کی ناپاکی کے
ایام میں دے دیں، یا ایک ہی طہر میں الگ الگ وقت میں تین طلاقیں دے دیں، یا
الگ الگ تین طلاقیں ایسے تین پاکی کے ایام میں دیں جس میں کوئی صحبت کی ہو،
یا ایک ہی وقت میں تین طلاقین دے دیں،تو مذکورہ بالا تمام صورتوں میں تین
ہی طلاق پڑنے پر پوری امت مسلمہ متفق ہے، سوائے ایک صورت کے، کہ اگر کوئی
شخص ایک مجلس میں تین طلاق دے دے تو کیا ایک واقع ہوگی یا تین۔ جمہور فقہاء
وعلماء کی رائے کے مطابق تین ہی طلاق واقع ہوں گی۔ فقہاء صحابہ کرام حضرت
عمرفاروق، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت عبد اللہ بن
عمر ، حضرت عبداللہ بن عمرو، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین
تین ہی طلاق پڑنے کے قائل تھے۔ نیز چاروں امام (امام ابوحنیفہؒ ، امام
مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ ) کی متفق علیہ رائے بھی یہی
ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے پر تین ہی واقع ہوں گی، ہند، پاکستان،
بنگلادیش اور افغانستان کے علماء کرام کی بھی یہی رائے ہے۔ ۱۳۹۳ھ میں سعودی
عرب کے بڑے بڑے علماء کرام کی اکثریت نے بحث ومباحثہ کے بعد قرآن وحدیث کی
روشنی میں صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے اقوال کو سامنے رکھ کریہی
فیصلہ کیا تھا کہ ایک وقت میں دی گئی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی۔ صرف
علماء کرام کی ایک چھوٹی سی جماعت یعنی اہل حدیث (غیر مقلدین) کی رائے ہے
کہ ایک واقع ہوگی۔ ان حضرات نے جن دلائل کو بنیاد بناکر ایک مجلس میں تین
طلاق دینے پر ایک واقع ہونے کا فیصلہ فرمایا ہے جمہور فقہاء وعلماء ومحدثین
نے ان کو غیر معتبر قرار دیا ہے۔
لہذا معلوم ہوا کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ۱۴۰۰ سال سے امت مسلمہ کی بہت
بڑی تعداد اسی بات پر متفق ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار کی
جائیں گی، لہذا اگر کسی شخص نے ایک مجلس میں تین طلاقیں دیدیں تو اختیار
رجعت ختم ہوجائے گانیز میاں بیوی اگر باہمی رضا مندی سے بھی دوبارہ نکاح
کرنا چاہیں تویہ نکاح درست اور حلال نہیں ہوگا یہاں تک کہ یہ عورت طلاق کی
عدت گذارنے کے بعد دوسرے مرد سے نکاح کرے، دوسرے شوہر کے ساتھ رہے، دونوں
ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوں یعنی صحبت کریں۔ پھر اگر اتفاق سے یہ دوسرا
شوہر بھی طلاق دیدے یا وفات پاجائے تو اس کی عدت پوری کرنے کے بعد پہلے
شوہر سے نکاح ہوسکتا ہے۔ یہی وہ جائز حلالہ ہے، جس کا ذکر قرآن کریم میں
آیا ہے۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ایک
مجلس میں تین طلاقیں دینے پر متعدد مواقع پر باقاعدہ طور پر تین ہی طلاق کا
فیصلہ صادر کیا جاتا رہا ،کسی ایک صحابی کا کوئی اختلاف بھی کتابوں میں
مذکور نہیں ہے۔ لہذا قرآن وحدیث کی روشنی میں جمہور فقہاء کرام خاص کر
(امام ابوحنیفہ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ ) اور
ان کے تمام شاگردوں کی متفق علیہ رائے بھی یہی ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق
دینے پر تین ہی واقع ہوں گی۔ مضمون کی طوالت سے بچنے کے لئے دلائل پر بحث
نہیں کی ہے لیکن میرے دوسرے مضمون (تین طلاق کا مسئلہ)اور سعودی عرب کے
علماء کے فیصلہ میں تمام دلائل پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔
عدت ۔ حکم الٰہی: عدت کے لغوی معنی شمار کرنے کے ہیں، جبکہ شرعی اصطلاح میں
عدت اس معین مدت کو کہتے ہیں جس میں شوہر کی موت یا طلاق یا خلع کی وجہ سے
میاں بیوی کے درمیان علاحدگی ہونے پر عورت کے لئے بعض شرعی احکامات کی
پابندی لازم ہوجاتی ہے۔ عورت کے فطری احوال کے اختلاف کی وجہ سے عدت کی مدت
مختلف ہوتی ہے۔ قرآن وسنت کی روشنی میں امت مسلمہ متفق ہے کہ شوہر کی موت
یا طلاق یا خلع کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان جدائیگی ہونے پر عورت کے لئے
عدت واجب (فرض) ہے۔ عدت دو وجہوں سے واجب ہوتی ہے:
عدت شوہر کی موت کی وجہ سے:اگر شوہر کے انتقال کے وقت بیوی حاملہ ہے تو
Delivery ہونے تک عدت رہے گی، خواہ اس کا وقت چار ماہ اور دس روز سے کم ہو
یا زیادہ۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: حاملہ عورتوں
کی عدت ان کے وضع حمل تک ہے۔ (سورۂ الطلاق ۴) اس آیت کے ظاہر سے یہی معلوم
ہوتا ہے کہ ہر حاملہ عورت کی عدت یہی ہے خواہ وہ مطلقہ ہو یا بیوہ، جیساکہ
احادیث کی کتابوں (کتاب الطلاق)میں وضاحت موجود ہے۔حمل نہ ہونے کی صورت میں
شوہر کے انتقال کی وجہ سے عدت ۴ ماہ اور ۱۰ دن کی ہوگی خواہ عورت کو
ماہواری آتی ہو یا نہیں، خلوت صحیحہ (صحبت) ہوئی ہو یا نہیں جیسا کہ اللہ
تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور
بیویاں چھوڑجائیں تو وہ عورتیں اپنے آپ کو چار ماہ اور دس دن عدت میں
رکھیں۔ (سورۂ البقرۃ ۲۳۴)
عدت طلاق یا خلع کی وجہ سے:اگر طلاق یا خلع کے وقت بیوی حاملہ ہے تو
Delivery ہونے تک عدت رہے گی خواہ تین ماہ سے کم مدت میں ہی ولادت ہوجائے۔
جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: حاملہ عورتوں کی عدت ان
کے وضع حمل تک ہے۔ (سورۂ الطلاق ۴) اگر شوہر کے انتقال یا طلاق کے کچھ دنوں
بعد حمل کا علم ہو تو عدت وضع حمل تک رہے گی خواہ یہ مدت ۹ ماہ کی ہی کیوں
نہ ہو۔اگر طلاق یا خلع کے وقت عورت حاملہ نہیں ہے تو ماہواری آنے والی عورت
کے لئے عدت ۳ حیض (ماہواری) رہے گی۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں
ارشاد فرمایا: مطلقہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں۔ (سورۂ
البقرۃ ۲۲۸) تیسری ماہواری ختم ہونے کے بعد عدت مکمل ہوگی۔ عورتوں کے احوال
کی وجہ سے یہ عدت ۳ ماہ سے زیادہ یا تین ماہ سے کم بھی ہوسکتی ہے۔
جن عورتوں کو عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے حیض آنا بند ہوگیا ہو یا جنہیں حیض
آنا شروع ہی نہ ہوا ہو تو طلاق کی صورت میں ان کی عدت تین مہینے ہوگی۔
جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: تمہاری عورتوں میں سے
جو عورتیں حیض سے ناامید ہوچکی ہیں، اگر تم کو ان کی عدت کی تعیین میں شبہ
ہو رہا ہے تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور اسی طرح جن عورتوں کو حیض آیا ہی
نہیں ہے ، ان کی عدت بھی تین ماہ ہے۔(سورۂ الطلاق ۴)
نکاح کے بعد لیکن خلوت صحیحہ (صحبت) سے قبل اگر کسی عورت کو طلاق دے دی
جائے تو اس عورت کے لئے کوئی عدت نہیں ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم
میں ارشاد فرمایا: اے ایمان والو! جب تم مؤمن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ
لگانے (یعنی صحبت کرنے ) سے قبل ہی طلاق دے دو تو ان عورتوں پر تمہارا کوئی
حق عدت کا نہیں ہے جسے تم شمار کرو۔ (سورۂ الاحزاب ۴۹) یعنی خلوت صحیحہ سے
قبل طلاق کی صورت میں عورت کے لئے عدت نہیں ہے۔ لیکن خلوت صحیحہ (صحبت) سے
قبل شوہر کے انتقال کی صورت میں عورت کے لئے عدت ہے ۔سورۂ البقرۃ کی آیت
نمبر ۲۳۴ کے عموم ودیگر احادیث صحیحہ کی روشنی میں امت مسلمہ اس پر متفق
ہے۔نکاح کے بعد لیکن خلوت صحیحہ سے قبل طلاق دینے کی صورت میں آدھے مہر کی
ادائیگی کرنی ہوگی۔ (سورۂ البقرہ ۲۳۷)
عدت کی مصلحتیں: عدت کی متعدد دنیاوی واخروی مصلحتیں ہیں جن میں سے بعض یہ
ہیں: ۱) عدت سے اللہ تعالیٰ کی رضامندی کا حصول ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ
کے حکم کو بجالانا عبادت ہے اور عبادت سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ ۲) عدت
کو واجب قرار دینے کی اہم مصلحت اس بات کا یقین حاصل کرنا ہے تاکہ پہلے
شوہر کا کوئی بھی اثر بچہ دانی میں نہ رہے اور بچے کے نسب میں کوئی شبہ
باقی نہ رہے۔ ۳) نکاح چونکہ اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، اس لئے اس کے
زوال پر عدت واجب قرار دی گئی۔ ۴) نکاح کے بلند وبالا مقصد کی معرفت کے لئے
عدت واجب قرار دی گئی تاکہ انسان اس کو بچوں کا کھیل نہ بنالے۔ ۵) شوہر کے
انتقال کی وجہ سے گھر /خاندان میں جو ایک خلا پیدا ہوا ہے اس کی یاد کچھ
مدت تک باقی رکھنے کی غرض سے عورت کے لئے عدت ضروری قرار دی گئی۔
متفرق مسائل: شوہر کی وفات یا طلاق دینے کے وقت سے عدت شروع ہوجاتی ہے خواہ
عورت کو شوہر کے انتقال یا طلاق کی خبر بعد میں پہونچی ہو۔ مطلقہ یا بیو ہ
عورت کو عدت کے دوران بلا عذر شرعی گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہئے۔ کسی وجہ
سے شوہر کے گھر عدت گزارنا مشکل ہو تو عورت اپنے میکے یا کسی دوسرے گھر میں
بھی عدت گذار سکتی ہے۔ (سورۂ الطلاق ۱) عورت کے لئے عدت کے دوران دوسری
شادی کرنا جائز نہیں ہے، البتہ رشتہ کا پیغام عورت کو اشارۃًدیا جاسکتا ہے۔
( البقرۃ۲۳۴/ ۲۳۵) جس عورت کے شوہر کا انتقال ہوجائے تو اس کو عدت کے دوران
خوشبو لگانا، سنگھار کرنا، سرمہ اور خوشبو کا تیل بلاضرورت لگانا، مہندی
لگانا اور زیادہ چمک دمک والے کپڑے پہننا درست نہیں ہے۔ اگر چاند کی پہلی
تاریخ کو شوہر کا انتقال ہوا ہے تب تو یہ مہینے خواہ ۳۰کے ہوں یا ۲۹کے ہوں،
چاند کے حساب سے پورے کئے جائیں گے اور ۱۱ تاریخ کو عدت ختم ہوجائے گی۔اگر
پہلی تاریخ کے علاوہ کسی دوسری تاریخ میں شوہر کا انتقال ہوا ہے تو ۱۳۰ دن
عدت رہے گی۔ علماء کی دوسری رائے یہ ہے کہ جس تاریخ میں انتقال ہوا ہے، اس
تاریخ سے چار ماہ کے بعد ۱۰ دن بڑھادئے جائیں مثلاً ۱۵ محرم الحرام کو
انتقال ہوا ہے تو ۲۶ جمادی الاول کو عدت ختم ہوجائے گی۔اگر عورت شوہر کے
انتقال یا طلاق کی صورت میں عدت نہ کرے یا عدت تو شروع کی مگر مکمل نہ کی
تو وہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کو توڑنے والی کہلائے گی جو بڑا
گناہ ہے، لہذا اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرکے ایسی عورت کے لئے عدت کو
مکمل کرنا ضروری ہے۔عدت کے دوران عورت کے مکمل نان ونفقہ کا ذمہ دار شوہر
ہی ہوگا۔
محمد نجیب سنبھلی قاسمی، ریاض
|