حدیث قدسی: اے ابن آدم میں بھوکا تھامگر تم نے مجھے کھانا نہیں کھلایا؟
(Muhammad Rafique Etesame, Ahmedpureast)
حضرت ابو ہریرہؓسے روایت ہے
فرمایا نبی پاکﷺ نے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ روز قیامت ارشاد فرمائیں گے اے
ابن آدم میں بیمار تھا تو نے میری مزاج پرسی نہ کی؟ وہ عرض کرے گا باری
تعالیٰ! میں بھلا کیسے آپکی مزاج پرسی کرتا آپ تو ربّ العٰلمین ہیں(بیمار
ہونے سے منزّہ ہیں بیمار ہونا تو مخلوق کی صفت ہے)۔اللہ تعالیٰ فرمائیں گے
کیا تمھیں معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا تو نے اسکی مزاج پرسی
نہیں کی، اگر تم اسکی عیادت کرتے تو اسکو( اسکے اجر کو) میرے پاس پاتے۔
اے ابن آدم میں نے تم سے کھانا مانگا تھا مگر تم نے انکار کر دیا؟بندہ عرض
کرے گا باری تعالیٰ! میں بھلا کیسے آپ کو کھانا کھلاتا آپ تو خود ربّ
العٰلمین ہیں (کائنات میں موجود لا تعداد مخلوقات کو اکیلے ہی کھانا کھلانے
اور پالنے والے ہیں)، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا تمہیں نہیں معلوم کہ میرے
فلاں بندے نے تم سے کھانے کا سوال کیا تھا مگر تم نے انکار کر دیااگر تم
اسے کھانا کھلا دیتے تو اسے (اسکا اجر) میرے پاس پاتے۔
(پھر سوال ہوگا)اے ابن آدم میں پیاسا تھا اور میں نے تم سے پانی طلب کیا
مگر تم نے نہ پلایا؟ بندہ عرض کرے گاباری تعالیٰ میں کیسے آپکو پانی
پلاتاآپ تو ربّ العٰلمین ہیں( تمام انسانوں کو پانی پلانے والے ہیں اورروئے
پانی کے خزانے آپکے پاس ہیں) اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ کیا تمھیں معلوم
نہیں کہ میرا فلاں بندہ پیاسا تھا اور اس نے تم سے پانی طلب کیا تھا مگر تم
نے نہ پلایا ، اگر تم اس کو پانی پلاتے تو اسے(اجر) میرے پاس پاتے۔(صحیح
مسلم شریف)
اس حدیث شریف سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ر وز محشر ایک
ایسے ثخص سے جو مریض کی عیادت نہیں کرتا تھا،بھوکے کو کھانا نہیں کھلاتا
تھا اور پیاسے کو پانی نہیں پلاتا تھا حساب لینے کا ایسا انداز اختیار کریں
گے کہ جس سے شفقت بھی جھلکتی ہوگی اور عتاب کا اظہار بھی ہوگا، یعنی اس
سائل کے سوال کو خو د اپنا سوال ظاہر کرکے اس سے باز پرس فرمائیں گے۔
چونکہ مریض کی عیادت،بھوکے کو کھانا کھلانا اور پیاسے کو پانی پلانا اللہ
تعالیٰ کے احکامات ہیں لہٰذا اس شخص نے ان پر عمل نہ کر کے گویا براہ راست
اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور اس سوال کو پورا نہیں کیا جو وہ بندوں سے
چاہتے ہیں۔اور وہ شخص سائل کے سوال کو رد نہ کرتا تو اسکا اجر عظیم وہ اپنے
رب ہاں موجود پاتا۔
بہر حال اس حدیث شریف سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ ہم سائل کے سوال کو رد نہ
کریں اور حسب توفیق اس کی مدد کریں اور اگر بالفرض کسی وقت گنجائش نہ ہو تو
نرمی سے جواب دے دیں، اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو اس حدیث پر عمل کرنے کی
توفیق عطا فرمائے آمین۔ |
|