پیرس حملہ کس کے مفاد میں ؟
(Khalid Saifullah Asari, Karachi)
جب نائن الیون کا حملہ ہوا تو
امریکہ نے دہشت گردی کا ایک محاذ کھول دیا تھا۔ اس دہشت گردی کے خلاف خونيں
جنگ میں امریکہ کے ہاتھ پوری طرح سے سنے ہوئے ہیں ۔ ایسے انسانیت کشا حقائق
سامنے آئے کہ انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔لاکھوں معصوم عوام کا خو ن
بہا جن میں بچے ‘بوڑھے اور عورتیں بھی شامل تھیں۔ ابو غریب سے لے کر
غوانتانابوبے کی جیلوں میں کھلے عام حقوق انسانی کی پامالی ہوتی رہی۔ اس
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ اور اس کی ظلم وبربریت کا شکار صرف اور
صرف مسلمان رہے۔افغانستان اور عراق کو کلي طور پر تباہ وبرباد کر دیا گیا۔
دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ امریکہ اور اسرائیل کے استعماری مفاد کے خاطر لڑی
گئی اور جس کا براہ راست فائدہ اسرائیل کو ہوا۔ 2008 میں اسرائیلی وزیر
اعظم بنجامن نیتن یاہو نے بار آئیلان (Bar Ilan) یونیورسٹی میں بڑے فخریہ
انداز میں یہ کہا کہ ولڈ ٹریڈ سینٹر پر جو حملہ القاعدہ کے ذریعے ہوا اس سے
اسرائیل کو بے پناہ فائدہ ہوا۔ اس کی وجہ سے ہمارے حق میں امریکی رائے عامہ
ہموار ہوئی۔ اب جب کہ فرانس کی دارالحکومت پیرس پر دہشت گردانہ حملے ہوئے
ہیں ‘ دہشت گردی خلاف یہ جنگ اور بھی شدید ہوئی جارہی ہے۔جی ٹوئنٹی کانفرنس
میں معاشیات اور ماحولیات جیسے بنیادی مسائل سے ذیادہ انسداد دہشت گردی
جیسے مسئلہ کی رٹ رہی۔
پیرس پر ہوئے ان حملوں کا کون ذمہ دار ہے ؟ مغربی میڈیا کا کہنا ہے کہ داعش
نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی ہے ٹھیک اسی طرح سے جیسے آج سے چودہ سال
پیشتر القاعدہ نائن الیون حملوں کی ذمہ دار تھی۔ ان حملوں کا ذمہ دار چاہے
جو بھی ہو لیکن اسرائیل اس بہتی گنگکا میں ہاتھ دھونے سے نہیں چوک رہا۔ ان
حملوں سے اسرائیلی حکام ویسے ہی امید کی آس لگائے ہوے ہیں جیسا کہ انھیں
نائن الیون کے بعد ہوا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ان حملوں کے بعد
اپنے بیان میں کہا کہ میں کئی سال سے کہہ رہا ہوں کہ اسلامی مسلح دہشت گرد
ہمارے معاشرے پر حملہ آور ہو رہے ہیں کیوں کہ وہ ہماری تہذیب اور قدروں کو
ختم کرنا چاہتے ہیں۔اسرائیل پیرس کے ان حملوں کو اپنے مفاد سے جوڑ کر دنیا
کو یہ باور کرانے کی فکر میں ہے کہ ان کے خلاف اپنی آزادی اور بقاءکی جنگ
لڑنے والے مجاہدین بھی ان دہشت گردوں کی فہرست میں آتے ہیں۔جب اسرائیل کے
زیر قبضہ مغربی کنارے میں دو نو آبادکار کی موت ہو گئی تو نیتن یاہو نے
اپنے کیبنیٹ میں کہا کہ اس میں اور پیرس کے حملے میں کوئی فرق نہیں ہے۔
نائن الیون کے بعد دہشت گردی کی جو جنگ چھیڑی گئی تھی وہ نتیجہ خیز نہ ہونے
کی وجہ سے عالمی تنقید کا نشانہ بن رہی تھی۔ افغانستان ‘ عراق اور شام کی
بربادی کا اصل ذمہ دار امریکہ کو سمجھا جانے لگا تھا۔ امریکی خارجہ پالیسی
کے تئیں دنیا میں بیزاری جنم لے رہی تھی۔ برطانوی وزیر اعظم کیمرون کو 2013
میں شام میں فضائی حملے کے لیے پارلیمنٹ کی منظور ی نہیں مل سکی۔ کناڈا کے
نئے نامزد وزیر اعظم جسٹن ٹروڈیو (Justin Trudeau) نے بھی یہ فیصلہ کیا کہ
وہ امریکہ کی قیادت میں دہشت گردی خلاف اس جنگ میں اپنے لڑاکو طیارے واپس
بلا لیں گے۔ یوروپ میں مسلمانوں کے تئیں رحم دلی کا تأثر پیدا ہونا شروع ہو
گیا تھا۔شامی مہاجرین کے لیے یوروپ اور خاص طور سے جرمنی اور فرانس نے بڑی
دریا دلی کا مظاہرہ کیا۔ان کی حالت زار کو دیکھ کر امریکہ کے خلاف نفرت کا
جذبہ پنپ رہا تھا۔ یوروپ میں اسلام پہلے کی بہ نسبت اور تیزی سے فروغ پا
رہا تھا۔ ان کے معاشرے میں اسلامی تہذیب داخل ہو رہی تھی۔ یوروپ اور
مسلمانوں کے درمیاں قربت بڑھ رہی تھی۔ یہ سب باتیں امریکہ اور اسرائیل
کوکھٹک رہی تھیں۔ اسی لئے ان حملوں کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع موشے یالون
(Moshe Yaalon) کا بیان آتا ہے کہ دہشت گردی سے لڑنے اور مغربی تہذیب کو
اسلامائزیشن سے بچانے کی لئے ہم ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔وائس آف اسرائیل
ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے یالون نے یہ بھی کہا کہ پیرس کے حملے دراصل
جدید عالمی جنگ کا حصہ ہیں جس میں انتہا پسند اسلام‘ روشن خیال مغرب کا اصل
حریف ہے۔ اس نے مزید کہا کہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو سماجی مسئلہ بتا کر
حقائق سے نظریں چراتے ہیں اور کچھ اور بہانے کرتے ہیں۔اصل مسئلہ اسلامی
جہاد ہے جو مغربی تہذیب کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس
نے مہاجرین کو نشانہ بناتے ہوئے یہ بھی کہا کہ فرانس اور دیگر ممالک جو
دہشت گردی کے خلاف لڑ رہے ہیں ان کے پاس سیکورٹی کا طریقہءکار اختیار کرنے
کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ عوامی مقامات کے
داخلے پر پاسپورٹ کی جانچ پڑتال ہونی چاہئے۔ان حملوں کے بعد یوروپ اور
امریکہ کی کئی ریاستوں میں مہاجرین کی آمد پر روک لگا دی گئی ہے۔ ہنگری کے
دائیں بازو کی حکومت جو پہلے ہی سے مہاجرین کے حق میں نہیں تھی‘ وہ اسرائیل
کے پیش کردہ فارمولے کو اپنانا چاہتی ہے۔ ہنگری کے وزیر خارجہ پیٹر سزجارتو
(Peter Szijjarto) نے پیرس حملے کے تیسرے دن دوشنبہ کو اسرائیلی وزیر اعظم
سے ملاقات کی اور سیکوریٹی کے مسائل پر گفتگو کی۔ پیٹر نے پیرس پر حملے کا
اصل سبب نقل مکانی کو ہی بتایا۔
یوروپی یونین میں اسرائیل کے خلاف ایک فضا تیار ہو رہی تھی جس میں فرانس
پیش پیش تھا۔ فرانس کی پارلیمینٹ نے ۲ دسمبر 2012 کو ایک قرارداد پاس کرکے
فلسطین کو بحیثیت ریاست منظوری دی تھی۔ اس وقت اسرائیلی وزیر اعظم نیتن
یاہو کا کہنا تھا کہ یہ ایک سنگین غلطی ہے۔ 7 جنوری کو جب چارلی
ہیبدو(Charlie Hebdo) میگزین کی آفس پر حملہ ہوا تو 8 جنوری کو انٹرنیشل
بیوزنس ٹائمس کی ویب سائٹ پر ایک مضمون شائع ہوتا ہے جس میں یہ دعوی کیا
جاتا ہے کہ ان حملوں کے پیچھے موساد ہے ۔ لیکن پھر چیف ایڈیٹر کی معذرت کے
ساتھ اس مضمون کو وہاں سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ یوروپی یونین نے 1967 کے
اسرائیلی جدید آبادی کے سامان پر کچھ پابندیاں اور ہدایات متعین کی تھیں۔
اس حملے کے ٹھیک دو دن پہلے نیتن یاہو نے یوروپی یونین کے اس فیصلے پر اپنا
اعتراض جتایا تھا کہ وہ مغربی کنارے میں تیار کردہ سامان پر خاص لیبلنگ کے
لئے ہدایات طے کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سویڈن کی وزیر خارجہ مارگوٹ
والسٹرام (Margot Wallstrom) نے بھی اسرائیل کو پیرس کے حملوں کا ذمہ دار
ٹھرایا ہے ۔ انھوں نے سویڈش ٹیلی ویژن نیٹ ورک ایس وی ٹی ٹو ٹی میں ۳۱
نومبر کو کہا کہ اسرائیل کو یوروپی یونین سے خطرہ آتے محسوس ہو رہا ہے۔
یوروپی یونین میں آبادی کی تیار کردہ سامان پر پابندیاں عائد ہو رہی ہیں
اور اسرائیل و فلسطین کے مسئلے کے حل کی بات چیت ہو رہی ہے۔
ان حملو ں کا ذمہ دار چاہے جو بھی ہو لیکن کہیں نہ کہیں شک کی سوئی امریکہ
اور اسرائیل کی طرف بھی اٹھتی ہے جو براہ راست ان حملوں سے فائدہ اٹھا رہے
ہیں اور اپنے استعماری منصوبے کو بڑے ہی چابک دستی سے دنیا کی آنکھوں میں
دھول جھونک کر انجام دے رہے ہیں۔ |
|