جماعت اسلامی کی ناکامی
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
سب سے پہلے یہ عرض کروں کہ میں
نے گزشتہ دنوں ایک کالم ’میڈیا بھی خاموش ہے‘ لکھا تھا جس میں ملک کے زرعی
پیداوار اور حکومتی ترجیحات پر بات کی تھی کہ دوسرے صوبے تو اپنی جگہ ناکام
ہے ، زرعی پیداوار کی طرف توجہ نہیں دے رہی ہے ۔ خیبر پختونخوا کی حکومت نے
بھی کوئی اقدامات نہیں اٹھائیں جس سے کسان کو ریلیف ملے اور زرعی ملک ہونے
کی وجہ سے بیرونی ممالک سے زرعی اجناس کی درآمد بند کر یں اور اپنے ملک میں
پیداوار بڑ ھائیں ۔ تو اس کے بعد خیبر پختونخوا حکومت نے کسانوں کو گندم کی
فری سپلائی شروع کی جس کامقصد یہ تھا کہ کسان اس اجناس سے پیداوار زیادہ
پیدا کر یں،جو ایک اچھا عمل ہے۔ صوبائی حکومت کو مزید زرعی اجناس کی
پیداوار بڑھانے کے لیے ایسے اقدامات اٹھانے چاہیے اور فری گندم’’ دوخم‘‘ کو
زیادہ سے زیادہ زمینداروں کو دینا چاہیے۔بحرحال یہ صوبائی حکومت کا دوسرے
صوبوں سے اچھا اقدام ہے جو قابل تحسین ہے۔
کافی دنوں سے میں یہ سوچ رہا تھا کہ جماعت اسلامی کی ہر جگہ ناکامی کے
اسباب کیا ہے۔ نئے امیر سراج الحق ایک ورکر آدمی ہے۔ پارٹی کی کامیابی کے
لیے وہ دن رات کام کر رہے ہیں۔ جلسے جلوس کر رہے ہیں۔ حکومت کی غلط
پالیسیوں کے خلاف بعض اوقات آواز بھی بلند کر تے ہیں توپھر کیا وجہ بن رہی
ہے کہ جماعت اسلامی کو بلدیاتی اور ضمنی انتخابات میں تو قعات سے 95 فیصد
کم ووٹ یا نشستیں مل رہی ہے ۔ جو قیادت اور کارکنوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی پارٹی تنظیم کسی اور جماعت کا نہیں
ہے۔یہ صرف جماعت اسلامی ہی ہے جن کے امیر تبدیل ہوتے ہیں ۔ ہر پانچ سال بعد
باقا عدہ طور پر شفاف انتخابات کاانعقاد کیا جاتا ہے۔ سراج الحق جیسے غریب
آدمی جماعت اسلامی جیسے بڑی پارٹی کا میرٹ پر امیر بن جانا معمولی بات نہیں
،جو کسی دوسری سیاسی اور مذہبی جماعت میں ممکن نہیں۔ اس کے باوجود جماعت
اسلامی کو عوام کی طرف سے وہ پذیرائی نہیں ملتی جس کی وہ حقدار ہے۔ جماعت
اسلامی کے فلاحی کام پر پوری دنیا کواعتماد ہے اور ان کے فلاحی کام ملک کے
ہر کونے میں جاری وساری رہتے ہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی کے
لوگوں پر اور پارٹی پر کر پشن کے اس طرح الزمات نہیں جس طرح دوسری سیاسی
جماعتوں پر ہے۔ دوسرے سیاسی و مذہبی جماعتوں کے برعکس جماعت اسلامی کے
کارکن اور قیادت زیادہ پرھی لکھی اور محنتی ہے۔ ملک کے دوسری مذہبی جماعتوں
کی طرح ان کا سیاسی ایجنڈا بھی مختلف ہے لیکن اس کے باوجود جماعت اسلامی ہر
جگہ ناکام کیوں ہو ئی ہے۔یہ وہ سوال ہے جس پر مجھ سمیت ہر کوئی سوچ رہا ہے۔
کافی سوچ پیچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ جماعت اسلامی کی قیادت
تذبذب کی شکار ہے یا ان کی جو نئی پالیسی ہے اس کی وجہ سے عوام ان سے متنفر
ہورہی ہے۔جماعت اسلامی کی قیادت نے مولانا ٖضل الرحمن صاحب والی پالیسی
اپنانی شروع کر دی یعنی جہاں سے فائدہ ہووہاں بیٹھ جائے یا ان سے مل
جائے۔دوسرا جماعت اسلامی حد سے زیاد ہ خود اعتمادی کا شکار ہوئی ہے جس کی
وجہ سے جماعت اسلامی کو تاحال نقصان اٹھانا پڑا رہاہے ۔ مثال کے طور پر
2013میں ان کے پاس اچھی آپشن تھی کہ تحریک انصاف کے ساتھ مل کر انتخابات
لڑے لیکن انہوں نے اپناحصہ زیادہ مانگا جس کی وجہ اتحاد ممکن نہ ہوا ۔
دوسرا انہوں نے خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابا ت میں پی ٹی آئی کے بجائے
مختلف ڈسٹر کٹ اور تحصیل میں دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد رکھا۔ یہی
کام انہوں نے پنجاب میں کیا کہ ایک حلقے میں پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد تو
دوسری جگہ پر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ سمجھوتہ کیا ۔ لیاقت بلوچ
اور فر ید پراچہ کے بیٹوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ ایک پی ٹی آئی سے
تودوسرا نون لیگ سے اتحاد پر الیکشن لڑیں ۔اسی طرح کراچی کے ضمنی الیکشن
میں بھی جماعت اسلامی ،پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کے لیے تیار نہ ہوئی جس کا
رزلٹ ہمارے سامنے ہیں ۔ کچھ دن پہلے اسلام آباد میں بلد یاتی انتخابات میں
بھی جماعت اسلامی کی پرواز اکیلی اُڑتی رہی۔ پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد نہیں
ہوا جس کا نقصان کچھ حد پی ٹی آئی کو بھی ہوا لیکن جماعت اسلامی نے ایک سیٹ
بھی حاصل نہیں کی ۔اب کراچی کے بلد یاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کے ساتھ
اتحاد ہوا ہے جس کا نتیجہ امید ہے اچھا آئے گا ۔
سیاست میں بعض اوقات خاموشی ،بائیکاٹ بہتر آپشن ہوتا ہے جس کے لئے جماعت
تیار نہیں تھی۔ دوسرا کام جماعت اسلامی نے جو شروع کیا ہے جس کو تحر یک
انصاف کے چیئر مین عمران خان نے ایک دفعہ کہا تھا کہ جماعت اسلامی وکٹ کی
دونوں طرف کھیلنا بند کر دیں۔ اس پر پارٹی کو غور و فکر کرنا چاہیے تھا
لیکن غور کی کی بجائے پارٹی نے صوبائی حکومت میں شامل ہونے کے باوجود نیچے
سطح پر پی ٹی آئی کے خلاف پروپیگنڈا شروع کیا جس کی وجہ سے وزیر اعلیٰ
پرویز خٹک کو شیرپاؤ گروپ کے ساتھ سمجھوتا کرنا پڑا ۔ حالانکہ امید یہ پیدا
ہوئی تھی کہ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کامنشور اور سیاست کافی ملتی جلتی
ہے ،دونوں جماعتوں کے اتحاد سے آنے والے الیکشن یا وفاقی حکومت کو ٹف ٹائم
دے سکتے ہیں اورایک دوسرے کی مدد گار بھی ہوسکتے تھے۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کو وکٹ کی دونوں طرف کھیلانا بند کرنا ہوگا
۔ پی ٹی آئی اور نون لیگ ایک دوسرے کے متضاد ہے ۔ جماعت کے کارکن کس طرح
دونوں جماعتوں کے ساتھ بیک وقت چل سکتے ہیں۔ اگر قیادت سمجھتی ہے کہ نون
لیگ کے ساتھ ان کی پالیسی ملتی ہے تو ان کی طرح یا ان کی طرف جھکاؤرکھیں۔
اگر پارٹی پی ٹی آئی کی پالیسی کو بہتر سمجھتی ہے تو ہر جگہ پر ان کے ساتھ
اتحاد رکھیں اور وقت یا سپیس سے فائدہ اٹھاکر حکومت کی غلط اور عوام دشمن
پالیسیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کر یں۔خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر میں
دوسری مذہبی پارٹیوں کے ووٹ بنک کو بھی متوجہ کر یں۔ اپنی بہتر منشور اور
کار کردگی کی وجہ سے دوسری مذہبی اور سیاسی پارٹیوں کا ووٹ بنک حاصل کر یں
لیکن اس کے لئے واضح پالیسی آپنانی ہوگی۔ وکٹ کی دونوں طرف کھیل بند کر نا
ہوگا کہ آپ بھی ٹھیک کہتے ہیں اور وہ بھی برا نہیں۔ جماعت کی قیادت پر ذمہ
داری ہے کہ وہ اپنے کارکنوں اور ورکر کو تذبذب سے نکالیں اور واضح حکمت
عملی آپنائیں۔سیاسی تاریخ کا سبق یہ ہے کہ پارٹیاں تب ہی مضبوط یا عوامی
قوت بنتی ہے جب وہ کھل کر اپوزیشن کا کردار ادا کر یں اور عوامی آواز بن کر
حکومت پر تنقید کر یں ۔جماعت اسلامی کو اپنی ناکامیوں پر غور ضرور کرنا
چاہیے۔ |
|