سانحہ مشرقی پاکستان....تاریخ کا سیاہ ترین باب
(عابد محمود عزام, Karachi)
آج سقوط ڈھاکا کو44 سال مکمل ہوگئے
ہیں۔ یوم سقوط ڈھاکا پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن اور رستا ہوا زخم
ہے جو شاید کبھی مند نہ ہو پائے۔ آج سے 44 سال قبل ملک خدادا پاکستان کو
توڑنے کی بھارتی سازشیں کامیاب ہوئیں اور جنرل اے اے کے نیازی نے بھارتی
جنرل اروڑہ کے سامنے سرنڈر کرکے قومی تاریخ میں سیاہ ترین باب کا اضافہ کیا
تھا۔ اس دن کا سورج ہرسال ہمیں تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی تلقین کرتے ہوئے
نمودار ہوتا ہے۔ اس وقت کی قیادتوں کی بے تدبیری، کج فہمی اور ہٹ دھرمی نے
مشرقی پاکستان کے حالات کو منافرت کی آگ میں اس نہج تک پہنچا دیا تھا کہ
روز اول سے ہی ملک کی سالمیت کے درپے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو
پاکستان کی سالمیت پر کاری ضرب لگانے کا نادر موقع مل گیا، جس نے 3 دسمبر
1971ءکو ہم پر جنگ مسلط کی اور اپنی پروردہ مکتی باہنی کو افواجِ پاکستان
کے مدمقابل لا کر مسلمانوں کے خون کی ارزانی کا اہتمام کرنے کے ساتھ ارضِ
پاک کو دولخت کرنے کے لیے حاصل ہونے والے موقع کو بھی ہاتھ سے نہ جانے دیا۔
جو وطن عزیز اکھنڈ بھارت کے عزائم کو پاش پاش کرتے ہوئے اس خطہ ارضی پر
ابھر کر سامنے آیا تھا، اس کی تعبیر بھارت کی سازشوں اور ہماری قیادتوں کی
عاقبت نااندیشی نے ادھوری بنادی۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بھارت ہمیشہ پاکستان کو دو لخت کرنے کے
لیے کوشاں رہا ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ نے 71ءکی جنگ سے پہلے مشرقی پاکستان کے
علیحدگی پسندوں کی تنظیم مکتی باہنی کی مدد کے لیے ایک قرارداد منظور کی
تھی، جبکہ بھارتی فوج مکتی باہنی کے شدت پسندوں کو ٹریننگ، ہتھیار اور مدد
فراہم کرنے میں پیش پیش رہی۔ سقوط ڈھاکا اگرچہ 1971 میں ہوا، تاہم بھارتی
ایجنٹ اس سے کئی برس پہلے ہی مشرقی پاکستان کے گلی کوچوں میں آکر آباد
ہوگئے تھے۔ ابتدا میں مکتی باہنی کویہ ٹاسک ملا تھا کہ ملک کے مختلف شہروں
میں چھوٹی چھوٹی میٹنگز کرکے پاکستان کے خلاف جس قدر نفرت پھیلاسکتے، وہ
پھیلائی جائے۔ ابتدا میں مکتی باہنی سے تعلق رکھنے والے مشرقی پاکستان کے
مقامی بنگالیوں کو ٹریننگ کے لیے بھارتی سرحد کے قریب واقع کیمپوں میں
بھیجا جاتا تھا، مشرقی پاکستان کے اندر ہی مختلف مقامات پر اس نوعیت کے
کیمپ کھول دیے گئے تھے، جہاں بھارتی فوج مکتی باہنی کے ارکان کو مختلف
اسلحہ چلانے کی ٹریننگ دیا کرتے تھے۔ مکتی باہنی کے ان باغیوں نے 71ءکی جنگ
سے قبل ہی پاک فوج کے خلاف اپنی گوریلا کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا اور
3 دسمبر 1971ءکو جب پاک بھارت جنگ کا آغاز ہوا تو ان باغیوں جن کی تعداد
تقریباً 2 لاکھ بتائی جاتی ہے، نے بھارتی فوج کا بھرپور ساتھ دیا۔ سقوط
ڈھاکا کے بعد بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کا یہ بیان: ”آج ہم نے مسلمانوں
سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے کر پاکستان کا دو قومی نظریہ خلیج
بنگال میں ڈبو دیا ہے۔“ ان کے دل میں مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف چھپی
نفرت کی عکاسی کرتا ہے۔ اندرا گاندھی نجی محفلوں میں اکثر یہ بھی کہا کرتی
تھیں: ”میری زندگی کا حسین ترین لمحہ وہ تھا جب میں نے پاکستان کو دولخت
کرکے بنگلا دیش بنایا۔“ چند ماہ قبل بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی
نے ڈھاکا یونیورسٹی کے بنگلا بندھو انٹرنیشنل کنونشن سینٹر میں خطاب کے
دوران پاکستان کی تقسیم میں بھارت کے کردار کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ
1971میں بھارت نے بنگلا دیش کی لڑائی لڑی۔ بنگلا دیش کے قیام میں بھارتی
فوجیوں کا خون شامل ہے، جب بنگلا دیش کی علیحدگی کے لیے مکتی باہنی والے
اپنا خون بہارہے تھے تو بھارتی بھی ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر جد
وجہد کررہے تھے، اس طرح انھوں نے بنگلا دیش کا خواب پورا کرنے میں مدد کی۔
پاکستان سے بھارت کی نفرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، بھارت آج بھی پاکستان
کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور پاک بھارت سرحد
پر جارحیت کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اندر تخریبی کاروائیاں بھی بھارت
کی پاکستان سے نفرت کو واضح کرتی ہیں۔ دوسری جانب بھارت کے زیر اثر حسینہ
واجد کی حکومت نے71ءکی جنگ میں پاکستان توڑنے پر منتج ہونے والی تحریک مکتی
باہنی کی مزاحمت کرنے والے اس وقت کے پاکستانی بنگالی سیاسی قائدین اور
کارکنوں کے خلاف 44 سال قبل کے اس واقعہ کی بنیاد پر غداری کے مقدمات چلانے
اور ان مقدمات میں سزائے موت دینے کا سلسلہ گزشتہ سال سے شروع کر رکھا ہے۔
بھارت نواز حسینہ واجد یہ سب کچھ بھارت کی شہہ پر کررہی ہے۔ صرف متحدہ
پاکستان سے محبت کے ”جرم“ میں بنگلا دیش کی حکومت علی حسن مجاہد سیکرٹری
جماعت اسلامی بنگلا دیش، صلاح الدین قادر قائد نیشنل پارٹی بنگلا دیش،
جماعت اسلامی کے معمر سربراہ غلام اعظم، جماعت اسلامی کے اہم رہنما
عبدالقادر ملا، جماعت اسلامی کے سینئر رہنما میر قاسم علی اور جماعت اسلامی
بنگلا دیش کے نائب سیکرٹری قمر الزمان سمیت مجموعی طور پر 9 رہنماﺅں کو
تختہ دار پر چڑھاچکی ہے، جبکہ مطیع الرحمن نظامی کو بھی بنگلا دیشی ٹربیونل
کی جانب سے سزائے موت مل چکی ہے اور ان کی اپیل سپریم کورٹ میں زیر سماعت
ہے۔ اس وقت 30 ہزار کے قریب اپوزیشن کے سیاست دان اور کارکنان پاکستان کے
ساتھ وفاداری کے جرم میں جیلوں میں پڑے اپنے خلاف مقدمات بھگت رہے ہیں۔
یہ بات مدنظر رہے کہ اگرچہ بھارت کی مداخلت کے بغیر پاکستان دولخت نہیں
ہوسکتا تھا، لیکن بھارت کی مداخلت کے لیے سازگار حالات ہمارے حکمرانوں نے
خود پیدا کیے۔ کوئی سازش بیرونی لوگوں سے کامیاب نہیں ہوتی، جب تک اپنے لوگ
اس میں حصہ نہ لیں۔ 1971ءکے عام انتخابات میں مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب
الرحمن کی عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں ذوالفقارعلی بھٹو کی پیپلزپارٹی
کو اکثریت حاصل ہوئی۔ ذوالفقارعلی بھٹو اور جنرل محمد یحییٰ خان ڈھاکا
پہنچے اور عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن سے مذاکرات شروع ہوئے،
لیکن” ادھر ہم ،ادھر تم“ جیسی پالیسی کے باعث مذاکرات ناکامی سے دوچار
ہوگئے،یہ ہماری قیادتوں کی ناکام حکمت عملی کا نتیجہ تھا، جس کے بعد مشرقی
پاکستان میں علیحدگی کے جذبات میں مسلسل اضافہ ہونے لگا۔ 23 مارچ 1971ءکو
یوم پاکستان کے موقع پر علیحدگی پسند باغیوں نے ہر جگہ پاکستان کے پرچم
اتار کر بنگلا دیش کے پرچم لہرائے اور تقریبات منعقد کیں۔ اس عرصے میں غیر
بنگالیوں پر تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ 25 مارچ 1971ءکو
مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع ہوا، جس کے نتیجے میں تاریخ نے سقوط
غرناطہ کے بعد وہ اندوہناک منظر دیکھا جس میں16 دسمبر 1971 ءکو پاکستان کے
جنرل امیر عبداللہ نیازی بھارت کے جنرل اروڑا کے سامنے پلٹن میدان میں
ہتھیار ڈال رہے تھے۔
قوموں کی زندگیوں میں کچھ ایسے ایام آیا ہی کرتے ہیں ، جن سے قوموں کی
ناکامیوں کی داستانیں وابستہ ہوتی ہیں ،لیکن ایسے مواقع پر ہمیشہ زندہ
قومیں ان داستانوں کا دوبارہ جائزہ لے کر آیندہ کے لیے ایسی غلطیاں نہ
دہرانے کا عزم کیا کرتی ہیں، جو ایسی ناکامیوں اور نامرادیوں کا باعث بنتی
ہوں۔ 16 دسمبر 1971ءکا سانحہ بدترین المیہ ہے، لیکن اس سے بھی بڑا المیہ ےہ
ہے کہ اس المےے سے کسی نے سبق حاصل کرنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ 44 سال بعد
بھی ہم نے اس بڑے سانحے سے سبق حاصل کرنے پر کبھی غور ہی نہیں کیا اور ہم
نے بحیثیت قوم اپنے اندر اس احساس کو جنم لینے ہی نہےں دیا کہ ہماری
ناکامیوں کا مداوا اور ترقی کا راز ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرنے میں
ہے۔ سقوط ڈھاکا سے متعلق ہماری بے حسی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا
کہ اس عظیم سانحے کے کرداروں کے تعین کے لےے ”حمودالرحمن کمیشن“ کی رپورٹ
اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ آج تک منظرعام پر نہےں آسکی اور قوم کو سرکاری
سطح پر آج تک یہ نہیں بتایا گیا کہ ملک کے مشرقی بازو کے کاٹے جانے کی اصل
وجوہ کیا تھیں؟ اگرچہ باخبر قومی حلقے اس سانحے کے اصل کرداروں اور ان کی
کارستانیوں سے بہت حد تک آگاہ ہیں اور ملک کو دولخت کرنے والے عناصر کے کچھ
سیاہ کرتوت تاریخ کے صفحات پر بھی محفوظ ہیں، لیکن اس سانحے کے اہم کردار
بننے والے افراد اور اداروں میں سے کتنوں نے اپنی غلطیاں تسلیم کیں، کتنوں
کا احتساب ہوا اور کتنوں نے اپنے آپ کو قوم کے سامنے جوابدہی کے لےے پیش
کیا؟
سقوط ڈھاکا کے تناظر میں اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ سقوط
مشرقی پاکستان کی ایک وجہ ملک میں اسلام کا حقیقی طور پر نافذ نہ ہونا بھی
تھا، اگر اسلامی اصولوں پر عمل کیا جاتا تو یہ نوبت نہ آتی۔ پاکستان اسلام
کے نام پروجود میں آیا تھا، لیکن یہاں اسلام کو نافذ نہ کیا گیا۔ مشرقی اور
مغربی بازو کا فاصلہ ایک ہزار میل کے لگ بھگ تھا، لیکن اتنے فاصلوں کے
باوجود دونوں خطوں کے باسی صرف ایک کلمہ کی بنیاد پر پاکستان کے جھنڈے تلے
آجمع ہوئے۔ انہوں نے یہ سوچا کہ انگریزوں اور ہندوﺅں کی متعصبانہ سوچ سے
نجات اسی صورت میں مل سکتی ہے کہ ہم اپنے ہم مذہبوں کا ساتھ دیں اور لاالہ
اللہ محمد رسول اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں۔بانی پاکستان قائداعظم
محمد علی جناح نے الگ خطہ ارضی کے حصول کا مقصد یہ بتایا کہ ہم اس ملک میں
اسلام کے فلاحی نظام کو رائج کریںگے۔ تحریک پاکستان کا سب سے مقبول نعرہ
یہی تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااﷲ، اسی لاالہ اﷲ نے بنگالیوں کو
پاکستان کا حصہ بنایا کہ اس ریاست میں اگر لاالہ الااﷲ کا نظام نافذ ہوا تو
پھر کسی کا بھی استحصال نہیں ہوگا، لیکن قیام پاکستان کے بعد ویسا نہیں ہوا
جو انہوں نے قیام پاکستان سے پہلے سوچا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اسلام اور
اسلامی تشخص کو طاق نسیان میں رکھ دیا گیا۔پاکستان کے قیام کی اساس اسلامی
نظریہ حیات کوہمارے طالع آزماؤں نے دیوار سے لگانا ضروری سمجھا۔ پاکستان کی
اصل طاقت نظریہ تھا مگر ہم نے اسے پس پشت ڈالنے میں اپنی عافیت جانی۔اگر
قیام پاکستان کے مقاصد کو بروئے کار لایا جاتا، لاالہ الااللہ کو محض نعرے
کی بجائے اقتدار کے محلات، عدلیہ کے ایوانوں، عوام کی زندگیوں، ہر محکمے
اور ہر شعبے میں عملاً نافذ کیا جاتا ، اگر پاکستان کا مقدر اسلام سے
وابستہ کر دیا جاتا تو دونوں خطوں میں زبان ولسان کے مسائل پیدا ہوتے، نہ
صوبائی خودمختاری و احساس محرومی کا عفریت جنم لیتا اور نہ بھارت کی
سازشیںکامیاب ہوتیں، کیونکہ اسلام ہر انسان کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ جب
اسلام کے نفاذ سے روگردانی کی گئی تو چھوٹے چھوٹے مسائل پہاڑ بن گئے،
نفرتوں، عداوتوں، مخالفتوں اور دشمنیوں کے بیج پھوٹنے لگے، بھارت کی بوئی
ہوئی نفرت، لسانیت اور صوبائیت کی فصل پک کر تیار ہو گئی اور مشرقی پاکستان
ہم سے جدا ہوگیا۔
|
|