کل بھی بھارت نے بنگالیوں کو اپنوں
کے خلاف بڑھکایا تھا، آج بھی وہ بنگالیوں کو آپس میں لڑا رہا ہے۔ 71ء میں
بنگالیوں کے قتل عام کے الزامات من گھڑت اور حقائق سے ماوراء ہیں۔ جس نے
بھی اس بارے میں سوال اٹھایا اسے بنگلہ دیشی حکومت کے ناروا سلوک کا سامنا
کرنا پڑا-
بنگلہ دیش بھارت کے زیر اثر اب بھی پاکستان سے مخاصمت رکھے ہوئے ہے۔ہمارے
ہاں بھی پھر سیاسی رسہ کشی کا دور ہے۔ ہمیں ماضی کے تناظر میں اپنے مستقبل
کی پیش بندی کرنی چاہئے تاکہ دنیا میں ہم ایک باوقار اور خودمختار قوم کی
حیثیت سے اپنا وجود برقرار رکھ سکیں
بھارتی لیفٹیننٹ جنرل جے ایف آر جیکب جنگ 71ء کے دوران میجر جنرل تھے اور
بھارتی فوج کی مشرقی کمانڈ کے چیف آف سٹاف کی حیثیت سے تعینات تھے۔ یہ وہی
کمانڈ ہے جس نے مشرقی پاکستان میں پیش قدمی کی اور بنگلہ دیش کے قیام میں
اہم کردار ادا کیا تھا۔ 1997ء میں جنرل جیکب نے ’’سرینڈر ایٹ ڈھاکہ ، برتھ
آف اے نیشن‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب تحریر کی جس میں اس نے جنگ 71ء کا
بھارتی فوج کے حوالے سے جائزہ لیا ہے اوراس کے سیاسی اور فوجی پہلوؤں پر
خوب بحث کی ہے۔ اس کتاب میں بھارتی فوج کے خلاف کچھ بھی نہیں لکھا گیا بلکہ
مشرقی پاکستان میں بھارتی مداخلت کو ’’تیز اور موثر‘‘ ثابت کیا گیا مگر پھر
بھی اسے بھارت کے فوجی حلقوں میں خوب تنقید کا نشانہ بنایا گیا بلکہ ایک
بھارتی میجر جنرل کلدیپ سنگھ نے تو جواب آں غزل کے طور پر اس کے خلاف ایک
پوری کتاب لکھ دی ہے۔ جس میں اس نے جنرل جیکب کو ’’تاریخ مسخ‘‘کرنے پر کڑی
تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جنرل جیکب نے اپنی کتاب میں جنگ
71ء میں بھارتی کامیابیوں کا سہرا اپنے سر سجانے کی کوشش کی ہے جبکہ اس کا
اصل کریڈٹ فیلڈ مارشل مانک شا اور جنرل اروڑہ کو جاتا ہے اور چونکہ دونوں
بھارتی جرنیل اس کتاب کے شائع ہونے سے قبل مرچکے تھے لہٰذا جنرل جیکب کو
’’حقائق مسخ‘‘ کرکے خود کو ہیرو ثابت کرنے کا خوب موقع ہاتھ آیا۔71ء کی جنگ
کو ختم ہوئے 44سال گزر چکے ہیں مگر بھارتی فوجی حلقوں میں اس کا’’ کریڈٹ ‘‘
لینے کی جنگ ابھی تک جاری ہے اور یہ اتنی شدت اختیار کرچکی ہے کہ ایک ہی
فوج کا حصہ رہنے والے، کورس میٹ اور ایک ہی محاذ پر لڑنے والے سینئر افسر
ایک دوسرے پرکیچڑ اچھال رہے ہیں اور اس مقصد کے لئے وہ اخبارات اور سوشل
میڈیا کو خوب استعمال کررہے ہیں۔ ایک بھارتی فوجی افسر نے جنرل جیکب کو
تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ ’’جیت کے تو ہزاروں باپ ہوتے ہیں مگر
ناکامی کا کوئی نہیں، جیکب جی ذرا بتائیے کہ 1962ء کی جنگ میں آپ کہاں تھے؟
کہیں ماں کی گود میں تو نہیں چھپے بیٹھے تھے!!‘‘
بہرحال یہاں میرا مقصد بھارتی فوج کے جرنیلوں کی اس ’’کریڈٹ‘‘جنگ کے قصے کو
چھیڑنا نہیں بلکہ ان کی کتابوں میں موجود ایسے حقائق کو سامنے لانا ہے جو
یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کے قتل میں
دراصل بھارتی فوج ملوث تھی جو مکتی باہنی کے روپ میں وہاں داخل ہوئی اور
دنیا کی ہمدردی اور حمایت حاصل کرنے کی خاطر انہوں نے بنگالی عوام پر ظلم و
تشدد کے پہاڑ توڑڈالے اوران کا الزام پاک فوج پردھر دیا۔ اس طرح ایک منظم
پراپیگنڈہ کے ذریعے مشرقی پاکستان میں نہ صرف مداخلت کا جواز پید اکیا گیا
بلکہ عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کی گئی۔ بھارتی جنرل جے
ایف آر جیکب نے اپنی کتاب ’’سرینڈر ایٹ ڈھاکہ، برتھ آف اے نیشن‘‘ کے باب
’’اسباق‘‘ (ص 162)میں لکھا ہے کہ : ’’ابتدائی مراحل اورپھر فوجی آپریشن کے
لئے عالمی حمایت کا حصول انتہائی اہم تھا۔ مارچ 1971ء میں بنگلہ دیش کی
آزادی کے لئے عالمی حمایت سرد مہری کا شکار تھی۔ آزاد بنگلہ دیش کے لئے
عالمی حمایت حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری تھا کہ عالمی میڈیا وہاں ہونے والے
مظالم کونمایاں طور پر اجاگر کرے۔ ابتدائی طورپر یہ نمائندے پاکستان کی طرف
سے ڈھائے جانے والے ظلم و تشددپر زیادہ متاثر نظر نہ آتے تھے۔ مگر وقت
گزرنے کے ساتھ ان کی ساری ہمدردیاں بنگلہ دیش کی آزادی کے حق میں ہوگئیں۔
‘‘ بادی النظر میں یہ تحریر قاری کے لئے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی اور وہ
اس عام تاثر کے ساتھ آگے بڑھ جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے ابتدائی
طور پر عالمی رائے عامہ کچھ خاص نہیں تھی مگر غور کیا جائے تو بھارتی جرنیل
کے قلم سے نکلی ان چند سطور میں بنگالیوں پر تشدد اوران کے قتل عام میں
ملوث اصل چہروں کو شناخت کیا جاسکتا ہے کیونکہ بھارت نے ان دونوں مقاصد کے
حصول کیلئے بنگالیوں کا قتل عام کیا۔
ستمبر 1968ء میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے قیام کے ساتھ ہی مشرقی
پاکستان میں اس کی باقاعدہ مداخلت کا عمل شروع ہوگیا تھا۔ ’’را‘‘ نے کثیر
جہتی پالیسی کے ذریعے مشرقی پاکستان میں زبان، رنگ اور قومیت کے بیج بونا
شروع کئے ۔ بھارتی کوششوں سے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان ذہنی اور
نفسیاتی کشمکش کی خلیج گہری ہوتی چلی گئی۔ شیخ مجیب الرحمان کے ذریعے بھارت
کے ناپاک عزائم کو عملی شکل ملنا شروع ہوئی۔ ’’را‘‘ نے مکتی باہنی کے قیام
میں اہم کردار ادا کیا اور اسے باقاعدہ فوجی تربیت کے ساتھ ساتھ اسلحہ اور
گولہ بارود فراہم کیا۔ یہی نہیں بلکہ اس کی تنظیم سازی اور لاجسٹکس میں بھی
کوئی کمی نہیں چھوڑی ۔ بھارتی فوج کے باقاعدہ سپاہی بھی مکتی باہنی کا حصہ
بنے جنہوں نے ابتدائی طور پر غیر بنگالیوں کے خلاف کارروائیاں شروع کیں اور
حکومت پاکستان کی رٹ کو چیلنج کرنا شروع کیا۔ پاک فوج اور مکتی باہنی کی
چپقلش میں بھارتی ایجنٹوں نے خوب فائدہ اٹھایا اور شہری علاقوں میں
بنگالیوں کا قتل شروع کردیا۔ 1971ء کے ابتدائی مہینوں میں یہ صورتحال مزید
خراب ہوئی گئی مگر حالات اتنے نہیں بگڑے تھے کہ عالمی رائے عامہ بھارت کو
ایک آزاد مملکت میں براہ راست مداخلت کوجائز خیال کرتی۔ بہت سے بھارتی
تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ بھارت نے بنگلہ دیش میں مداخلت میں جو
تاخیر کی اس کی بڑی وجہ بھارت کو عالمی رائے عامہ کا حمایت حاصل نہ ہونا
تھا۔ لہٰذا اس مقصد کے لئے بھارت نے بڑی تعداد میں مکتی باہنی کے روپ میں
اپنے باقاعدہ فوجی مشرقی پاکستان کی حدود میں داخل کئے اور انہیں لوٹ
کھسوٹ، قتل و غارت اور خواتین پر تشدد اور آبروریزی کی کھلی چھٹی دے دی
تاکہ صورتحال کو مزید بگاڑ کرعالمی میڈیا توجہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ
عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرے۔
بنگلہ دیش کو وجود میں آئے 44سال ہونے کو آئے ہیں۔ جب مشرقی پاکستان کٹا تو
اسے تسلیم کرنا مشکل مرحلہ تھا، تاہم پاکستان نے اس کڑوے گھونٹ کو بھی پی
لیا اور کوشش کی کہ وہ دوسرے آزاد ملک کی طرح اس سے تعلقات استوار کرے گا۔
مگر افسوس کی بات ہے کہ بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت پاکستان سے مخمصے اور
دشمنی کے بہانے ڈھونڈ رہی ہے۔ حسینہ واجد بھارتی ایما پر ہر وہ اقدام کررہی
ہے جس سے پاکستان کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی جائے۔ پہلے اس نے پاکستان پر
بنگالیوں کے قتل عام کا الزام لگایا، پھر بنگلہ دیش میڈل کے چکر میں ہمارے
زخموں پر نمک چھڑکا اور اب تو حد ہوگئی خود ہی اپنے لوگوں پر پاکستان کی
حمایت کرنے کے الزام میں تختہ دار پر لٹکانا شروع کردیا ہے۔جماعت اسلامی
بنگلہ دیش کے رہنما ؤں کو اسی الزام میں تختہ دار پر لٹکا یا جارہا ہے۔ ۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ مکتی باہنی اور بھارتی فوج نے معاملہ کو
شدت دینے کے لیے بنگالیوں کا قتل عام کیا تھا تاہم انٹرنیشنل ٹریبونل کورٹ
کی طرف سے مکتی باہنی، مجیب باہنی اور دیگر عوامی لیگی جنگجو گروہوں کا ایک
رہنما بھی کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا۔جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس ٹریبونل
کے تمام جج کٹھ پتلی ہیں۔ وسط دسمبر 2012ء میں دی اکنامسٹ نے اپنی تحقیقی
رپورٹ میں ٹریبونل کے چیف جسٹس ،محمد نظام الحق اور بیلجیم میں مقیم بنگلہ
دیشی وکیل ،احمد ضیا الدین کے مابین ہوئی بات چیت کو بے نقاب کیا تھا۔احمد
ضیاالدین بین الاقوامی قانون کا وکیل ہے۔ بیلجیم میں ’’ بنگلہ دیش سینٹر
برائے نسل کشی مطالعہ ‘‘ نامی تنظیم کا سربراہ ہے۔ اس نے طویل عرصے سے یہ
مہم چلارکھی ہے کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما 1971ء میں بنگلہ دیشیوں
کی نسل کشی کرتے رہے لہٰذا ان پر مقدمے چلائے جائیں۔6مئی 2012ء کو ضیاالدین
نے بذریعہ ای میل جسٹس نظام الحق کو ایک دستاویز ’’غلام اعظم چارج شیٹ‘‘
بجھوائی۔ٹریبونل نے جماعت اسلامی کے سابق امیر، پروفیسر غلام اعظم پہ فرد
جرم عائد کردی۔ اس کے الفاظ تقریباً وہی ہیں جو ضیاالدین نے اپنی دستاویز
میں درج کیے۔ سربراہِ ٹریبونل اور ضیاالدین کے باہمی رابطے نے یہ چشم کشا
انکشاف بھی کیا کہ حسینہ واجد حکومت جلد ازجلد فیصلے چاہتی ہے۔ چاہے قانون
وانصاف کی دھجیاں اڑا دی جائیں۔ 14اکتوبر کو ٹیلی فون میں جسٹس نظام الدین
نے ضیاالدین سے کچھ یوں شکایت کی:’’حکومت چاہتی ہے کہ فیصلے جلدازجلد آئیں۔
میں تمہیں بتارہا ہوں وہ پاگل ہوچکی، پاگل! وہ 16دسمبرتک سارے فیصلے چاہتی
ہے۔‘‘ پاکستان فوج پر پر قتل عام کے الزامات کی صداقات کے حوالے سے جو بھی
سوال اٹھاتا ہے تو وہ بھی ان پر ناگوار گزرتا ہے۔ حال ہی میں ایک برطانوی
صحافی کو اسی جرم کی پاداش میں سزا سنا دی گئی ۔ ڈیویڈ برگمین نے اپنے بلاگ
اور مضامین میں اس حوالے سے سوال اٹھائے تھے کہ بنگلہ دیش کی 1971ء کی "جنگ
آزادی " میں لاکھوں افراد ہلاک ہو ئے تھے۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے یف پی
کے مطابق خصوصی ٹربیونل نے اپنے فیصلے میں کہا کہ برگمین کی طرف سے لکھے
گئے ایک بلاگ اور دو مضامین میں انہوں نے "قوم کے احساسات کو ٹھیس پہنچائی"
اس لیے انہیں 5000 ٹکا (65 ڈالر) جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے۔ فیصلے میں
کہا گیا کہ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں برگمین کو ایک ہفتہ قید کی سزا
بھگتنا پڑے گی۔ اس مقدمے سے بنگلہ دیش کے آزادی اظہار سے متعلق عزم کے ایک
امتحان کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے کیونکہ برگمین نے بنگلہ دیش کی تاریخ
کے ایک متنازع معاملہ پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا۔ دوسری طرف برگمین
کے وکلا کا کہنا ہے کہ ان کے بلاگ "صحیح، مناسب اور منطقی" تھے اور ان کے
عدالت سے متعلق بیانات "مناسب تنقید کے جائز دائرے کے اندر آتے ہیں"۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور پاک فوج کو بدنام کرنے کے لئے ایسی
ایسی داستانیں گھڑی گئیں کہ جن کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اس حقیقت سے بھی
انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس وقت کی سیاسی قیادت کی ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ
سے بھی حالات مزید دگرگوں ہوئے اور بنگلہ دیش میں جاری سازشوں کو مزید ہوا
ملی۔ اگر ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ بلند نہ ہوتا تو حالات سدھر سکتے تھے۔
مگر اس وقت کی سیاسی قیادت کی عاقبت نا اندیشی سے پاکستان میں انتشار کی
فضا پیدا ہوئی اور ہمارے دشمنوں نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا۔ آج بھی وہ
طاقتیں اس سانحے کو بنیاد بنا کر پاکستان پر الزام تراشی کررہی ہیں۔ بہرحال
حقائق سب کے سامنے ہیں کہ بنگالیوں کے قتل عام کی کہانیاں محض فرضی ہیں اور
اگر کہیں ایسے واقعات رونما ہوئے تو وہ خود بھارتی فوج محض عالمی میڈیا کی
توجہ حاصل کرنے کے لئے کئے۔ جن کا اعتراف بھارتی جرنیلوں نے خود کیا ہے۔ اس
طرح 1971ء میں مکتی باہنی نے بھارتی ایما پر اپنے لوگوں کا خون بہایا تھا
اور اب حسینہ واجد اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے ہی ملک کو پھر سے آگ
اور خون سے رنگنا چاہتی ہے۔ ظاہر ہے اس کا سخت ردعمل ہوا ہے۔ بنگلہ دیش اس
وقت حسینہ واجد حکومت کی عاقبت نا اندیشیوں کی بدولت آگ اور خون کی وادی
میں تبدیل ہوتا جارہا ہے ۔ مزید پھانسیاں مزید نفرت اور انتشار پیدا کریں
گی۔ اس حوالے سے بھارت کا وہی کردار ہے جو اس نے 1971ء میں نبھایا تھا۔ کل
بھی اس نے بنگالیوں کو اپنوں کے خلاف بڑھکایا تھا، آج بھی وہ بنگالیوں کو
آپس میں لڑا رہا ہے۔ انشاء اﷲ یہ حقیقت جلدآشکار ہوگی اور یہی بھارتی جرنیل
جو اس وقت’’71کی جنگ کا کریڈٹ‘‘ لینے کیلئے ایک دوسرے سے دست و گریبان
ہیں،اسی توں تکرار میں مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کے قتل عام میں بھارتی
فوج کے ملوث ہونے کا سچ بھی اگل دیں گے۔ دوسری طرف ہمارے ہاں پھر سے سیاسی
رسہ کشی کا عالم ہے۔ پھر پاکستان کو بنانے تو توڑنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ آج
کے دن کا تقاضا ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں کے تناظر میں اپنے مستقبل کی پیش
بندی کریں تاکہ پاکستان ایک مضبوط اور خوشحال مملکت کے طور پر دنیا میں
اپنا ایک مقام برقرار رکھ سکے۔ |