مشرقی پاکستان میں 4آرمی ایوی ایشن سکوارڈرن کا کارنامہ

پاکستان آرمی ایوی ایشن کے بہادر سپوتوں کی داستان جنہوں نے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود ڈھاکہ سے برما تک کا فضائی انخلا کیا۔ بریگیڈیئر(ریٹائرڈ)لیاقت علی بخاری ستارہ جرأت جو 1971 کی جنگ کے دوران لیفٹیننٹ کرنل اور مذکورہ سکواڈرن کے کمانڈنگ آفیسر تھے ۔

6 دسمبر1971 کو ڈھاکہ ہوئی اڈہ کی تباہی کے بعد مشرقی پاکستان میں تمام فوجی نقل و حرکت ہتھیاروں کی سپلائی زخمیوں کی مدد اور جنگی مشن کا واحد ذریعہ 4آرمی ایوی ایشن سکواڈرن ہی رہ گیا تھا۔ جس نے ہنگامی حالت کے آغاز سے چٹا گانگ بیراب بازار فینی با ریسال اور بلونیا میں اپنے صرف چارM1-8ہیلی کاپٹروں اور تین چھوٹے ہیلی کاپٹروں سے861 جنگی مشن بڑی دلیری اور مہارت سے انجام دیئے اورGallant کا خطاب حاصل کیا۔

14 دسمبر کی شام جنرل نیازی نے ایڈمرل شریف ائر مارشل انعام الحق اور جنرل را فرمان کی موجودگی میں آرڈر دیا کہ 16 دسمبر سے پہلے سب جنگی جہاز ٹینک توپیں ہیلی کاپٹر اور بھاری اسلحہ تباہ کردیا جائے اور تمام پاکستانی یونٹس اپنی اپنی جگہ بھارتی فوج کے سامنے 16دسمبر کو ہتھیار ڈال دیں۔
یہ حکم سب کے لئے نہایت مایوس کن تھا۔

کرنل لیاقت بخاری 4 ایوی ایشن سکواڈرن نے جنرل نیازی کومشورہ دیا کہ بجائے ہیلی کاپٹروں کو تباہ کرنے کے ہم ان کو برما کے راستے پاکستان لے جاسکتے ہیں۔ ائر مارشل انعام الحق پی اے ایف کمانڈر مشرقی پاکستان نے ٹیکنیکل وجوہات کی بنا پر اسے ناقابلِ عمل نہایت مشکل خطرناک اور خود کش پلان قرار دیا۔ کیونکہ ہمارے ہیلی کاپٹروں میں ایسے آلات نہ تھے جن سے تاریکی میں کسی زمینی ریڈار کی مدد کے بغیر بحفاظت برما پہنچ سکیں۔ بغیر کسی روشنی کے پرواز کے دوران ہیلی کاپٹروں کا ٹکرانے کا خدشہ بھی تھا۔ چھوٹے ہیلی کاپٹروں میں دو گھنٹے کی پرواز ممکن تھی جبکہ اکیاب برما کا وقت چار گھنٹے کے قریب تھا۔ علاوہ ازیں بھارتی نیوی کا ائر کرافٹ کیرئر و کرانت "Vikrant" شہرCoks بازار کی بندرگاہ پر لنگر انداز تھا تاکہ کوئی پاکستانی جہاز بنگلہ دیش سے نکلنے نہ پائے۔ ریئر ایڈمرل شریف نیول چیف مشرقی پاکستان نے مشورہ دیا کہ آرمی ایوی ایشن سکواڈرن کو اس کے ہیلی کاپٹروں اور پلان کا سب سے زیادہ تجربہ ہے اگر وہ یہ مناسب سمجھتا ہے تو ہمیں مان لینا چاہئے۔ جنرل نیازی نےG H Q میں چیف آف جنرل سٹاف جنرل گل حسن سے فون پر رابطہ کیا تو انہوں نے بغیر کسی جھجک کے فورا ہیلی کاپٹروں کو پاکستان لانے کی اجازت دے دی۔ جنرل نیازی نے لیاقت بخاری کو ہدایت کی وہ میجر جنرل محمدرحیم خان کو جو10 دسمبر کو دشمن کے ہوائی حملے میں شدید زخمی تھے اور کچھ پاکستانی خواتین و بچے بھی ساتھ لے جائیں۔ کیونکہ ہم نے حکومت برما پر یہ ظاہر نہیں ہونے دینا تھا کہ یہ فوجی ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان کی شناخت چھپانے کے لئے گرانڈ سٹاف نے تمام آرمی شناخت اور نمبر تارکول سے ڈھانپ دیئے۔

پرواز کا وقت تین بجے شب مقرر کیا گیا تاکہ مشرقی پاکستان کا تمام علاقہ رات کی تاریکی میں طے ہوجائے اور پو پھٹنے سے پہلی برما کی سرحد میں داخل ہو جائیں۔ چونکہ چھوٹے ہیلی کاپٹروں میں دو گھنٹے کے بعد پٹرول ڈالنے کی ضرورت تھی۔ ان کے ساتھ زائد پٹرول ڈبوں میں بھر کر رکھ دیا تاکہ سفر کے دوران اندھیرے میں کسی محفوظ اور انجان جگہ اتر کر خود پٹرول ڈال سکیں۔

دشمن کی ہوائی برتری اور ڈھاکہ ائر پورٹ تباہ ہونے کی وجہ سے ہم نے سارے ہیلی کاپٹرز ڈھاکہ چھانی کی گالف کورس میں اونچے اونچے درختوں کے نیچے چھپا دیئے تھے جہاں سے ہر شب ان کو نکال کر پائلٹ اپنا اپنا مشن پورا کرتے اور صبح کی روشنی سے پہلے ہی ان کو ڈھانپ دیتے۔ یہ کام سکواڈرن کے گرانڈ سٹاف نے ایسی مہارت سے کیا کہ پوری جنگ میں بھارتی فضائیہ اپنی مکمل برتری اور جدید فضائی کیمروں اور بنگالی جاسوسی نیٹ ورک کے باوجود ایک بھی ہیلی کاپٹر کو نہ ڈھونڈ سکے۔ اندرونی پٹرول ٹینک کی وجہ سے بڑے ہیلی کاپٹروں میں صرف 16 مسافروں کی گنجائش تھی اور چھوٹے ہیلی کاپٹروں میں چونکہ پٹرول کے ڈبے رکھنے تھے کسی مسافر کی جگہ نہ بن سکی۔ جب رات پائلٹ دو بجے کے قریب ہیلی پیڈ پہنچتے تو وہاں ایک ہجوم دیکھ کرپریشان ہو گئے۔ ڈھاکہ چھانی میں اب تک خبر پھیل چکی تھی کہ ہیلی کاپٹرز پاکستان جاررہے ہیں۔
جب بھی ہیلی کاپٹر کسی شہر یا قصبہ کے قریب سے گزرتے نیچے سے دشمن فائرنگ کرتے۔ لیکن ہیلی کاپٹرز بغیر کسی روشنی کے پرواز کرتے اور بچتے رہے۔ اﷲ کے فضل و کرم سے کسی حادثے سے دوچار ہوئے بغیر منزل پر پہنچ گئے۔ دشمن کو اس پرواز آزادی کی بھنک بھی نہ پڑی۔ سب منصوبے کے عین مطابق مشرقی پاکستان کی سرحد پار کر کے برما داخل ہو گئے۔

مردو خواتین اپنے اپنے بچوں اور سامان کے ساتھ ہیلی کاپٹروں میں گھس بیٹھے تھے۔ کوئی پٹرول ٹینک پر بیٹھا تھا تو کوئی دروازے سے لٹکا ہوا تھا۔ ہر ایک کو سمجھانا کہ صرف ایک جہاز میں 16 مسافروں کی جگہ ہے ورنہ ہیلی کاپٹر زیادہ بوجھ کی وجہ سے پرواز نہ کرسکے گا یہ نہایت دشوار مرحلہ بن گیا کوئی بھی اترنے کے لئے تیار نہیں تھا اور پرواز کا وقت تیزی سے گزررہا تھا۔ بہت تگ و دو کے بعد ان کو قائل کیا کہ اگر نظم و ضبط سے کام نہ لیا گیا تو ان کی خواتین و بچے نہ جاسکیں گے۔ مگر پھر بھی16 کی بجائے ہمیں35 کے قریب مسافر بٹھانے پڑے۔ تمام خواتین و بچے سہمے ہوئے تھے۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ اپنے عزیزوں کے بغیر دریارِ غیر میں کن حالات سے دوچار ہوں گے اور پیچھے رہنے والوں پر کیا بیتے گی۔ کچھ خواتین زار و قطار رو رہی تھیں کچھ قرآنی آیات کی تلاوت کررہی تھیں۔

16 کی بجائے 35 مسافروں کو لے کراونچے اونچے درختوں کے بیچ مکمل تاریکی میں پرواز کرنے کے لئے ٹھیک رات ساڑھے تین بجے سے پہلے ہیلی کاپٹر میں کرنل لیاقت بخاری میجر ریاض الحق اور میجر علی قلی خان نے اﷲ کا نام لے کر اس تاریخی پرواز کا آغاز کیا ہیلی کاپٹر16 کی بجائے 35 مسافر لے کر دو گنا وزن سے زیادہ اپنے انجن کی طاقت استعمال کرتے ہوئے آہستہ آہستہ درختوں کو پیچھے چھوڑتا اور بچتاہوا مکمل تاریکی میں فضا میں بلند ہونے لگا اور یہ پرواز کا مشکل ترین آغاز بخیر و عافیت طے پا گیا۔ پانچ منٹ بعد دوسرے ہیلی کاپٹر میں میجر اکرم اور میجر علی جواہر نے اپنی پرواز شروع کی۔ اس کے پانچ منٹ بعد تیسرا ہیلی کاپٹر میجر باجوہ اور میجر ظہور نے ہوا میں بلند کیا۔ تینوں ہیلی کاپٹرز کی بحفاظت پرواز پر سب نے اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔ چھوٹے ہیلی کاپٹرز میں چونکہ وزن اتنا نہ تھا اس لئے ان کی پرواز نسبتا آسان تھی اور ان کے لئے سب سے خطرناک دوگھنٹے کی پرواز کے بعد رات کی مکمل تاریکی میں کسی انجانی جگہ اتر کر پٹرول بھرنا تھا۔ پورے مشرقی پاکستان میں ہر جگہ بھارتی فوج اور مکتی باہنی پھیلے ہوئے تھے۔ ایسے میں دشمن کے علاقے میں اتر کر جہازوں میں پٹرول ڈالنا اور ان کی دیکھ بھال کرنا بڑی دلیری کا کام تھا۔ دونوں چھوٹے ہیلی کاپٹرز میجر نعمان محمود اورمیجر پیٹرک کی قیادت میں پروگرام کے مطابق پرواز کرگئے۔

اس طویل پرواز میں ہیلی کاپٹروں میں وہ ضروری آلات نہ تھے جن سے مکمل تاریکی میں راستہ ڈھونڈنے میں مدد مل سکتی یا تصدیق ہو سکتی کہ وہ ٹھیک سمت پر ہیں کیونکہ زیادہ اونچی پرواز دشمن کے راڈار سے بچنے کے لئے ممکن نہ تھی۔ موسم یا ہوا کی رفتار اور سمت جاننے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ گہرے بادلوں کی وجہ سے ٹھیک راستہ متعین کرنا بہت مشکل تھا۔ پہاڑوں کے بیچ درختوں سے بچتے ہوئے اپنی نہایت نیچی پرواز جاری رکھنا تھی۔ صرف وقت اورسمت پر بھروسہ کرکے منزل تک پہنچنا تھا۔

جب بھی ہیلی کاپٹر کسی شہر یا قصبہ کے قریب سے گزرتے نیچے سے دشمن فائرنگ کرتے۔ لیکن ہیلی کاپٹرز بغیر کسی روشنی کے پرواز کرتے اور بچتے رہے۔ اﷲ کے فضل و کرم سے کسی حادثے سے دوچار ہوئے بغیر منزل پر پہنچ گئے۔ دشمن کو اس پروازِ آزادی کی بھنک بھی نہ پڑی۔ سب منصوبے کے عین مطابق مشرقی پاکستان کی سرحد پار کر کے برما داخل ہو گئے۔

صبح ساڑھے چھ بجے پہلا ہیلی کاپٹر برما کے ہوائی اڈہ اکیاب پر اتر گیا۔ کیونکہ ایئرپورٹ کا عملہ ان کے آنے سے بے خبر تھا اس لئے وہاں کوئی بھی موجود نہ تھا۔ سب کے چہروں پر اطمینان اور خوشی کی لہر چمک اٹھی۔ خواتین دوپٹے اٹھا اٹھا کر اﷲ کا شکر ادا کرتی رہیں اور عملے کو دعائیں دیتی رہیں۔ پانچ منٹ کے وقفہ کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا ہیلی کاپٹر بھی منزل مقصود پر پہنچ گیا۔ اب اکیاب ایئرپورٹ کے سٹاف کو تشویش ہوئی کہ اتنے ہیلی کاپٹر بغیر کسی اطلاع کے کہاں سے آ گئے۔ کچھ ہی دیر بعد ایئرپورٹ سٹاف کا ایک افسر کرنل لیاقت بخاری کے پاس آیا اور آنے کا مقصد پوچھا۔ جس پر انہوں نے اپنا تعارف بحیثیت چیف پائلٹ پلانٹ پروٹیکشن کروایا اور بتایا کہ وہ ڈھاکہ سے پاکستانی خواتین و بچے لائے ہیں اور جلدی ہی بنکاک چلے جائیں گے۔ وہ اس جواب سے مطمئن ہو کر لوٹ گیا۔ چھوٹے ہیلی کاپٹر کم رفتار اور راستے میں رک کر پٹرول بھرنے کی وجہ سے ایک گھنٹہ تاخیر سے پہنچے۔

ادھر ڈھاکہ میں 16دسمبر کی دوپہر جب بھارتی جنرل جیکب اپنے ہیلی کاپٹر میں سقوط ڈھاکہ کے کاغذات لئے ایئرپورٹ پر اتر رہا تھا تومیجر توحید الحق نے جسے جنرل نیازی کے حکم پر انتظامی ضروریات کے لئے چھوڑا گیا تھا فیصلہ کیا کہ چونکہ سرنڈر ہونے والا ہے اور فوجی قواعد و ضوابط کے تحت ہر شخص جنگی قیدی بننے سے فرار کی کوشش کر سکتاہے توکیوں نہ وہ بھی 4سکواڈرن کے پیچھے برما پرواز کر جائیں ۔ میجر توحید الحق نے اس منصوبے کا ذکر میجر ظریف میجر خالد جعفر اور میجر مسعود انور سے کیا جنہوں نے فورا اس پلان کی تائید کی۔ اس طرح باقی ماندہ دونوں چھوٹے ہیلی کاپٹرز دن کی روشنی میں دشمن کی آنکھوں کے سامنے پرواز کرکے برما کی طرف روانہ ہو گئے۔ جب انہوں نے ڈھاکہ سے پرواز کی کسی ہندوستانی یا بنگالی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ پاکستانی پائلٹ اس وقت پرواز کا خطرہ مول لے سکتے ہیں وہ ان کو ہندوستانی سمجھتے رہے۔

شام چھ بجے ان چاروں ہوابازوں کو اچانک اکیاب میں دیکھ کر 4سکواڈرن کے سب پائلٹ خوشی سے پھولے نہ سمائے ۔اور اس طرح 4آرمی ایویشن سکواڈرن کے تمام پائلٹ اور جہاز اﷲ تعالی کے فضل و کرم سے دشمن کی اسیری سے بحفاظت نکل آئے اور 139خواتین اور بچوں نے زندگی اور عزت بچائی۔ 4ایوی ایشن سکواڈرن پاکستان آرمی کی واحد یونٹ ہے جسے اﷲ تعالی نے اتنی ہمت و بصیرت دی کہ وہ پوری جنگ میں نہایت بہادری سے لڑنے کے بعد دشمن کے چنگل سے نکل کر بغیر ہتھیار ڈالے اپنے سارے جہاز اور 139خواتین و بچوں کو عزت و آبرو کے ساتھ پاکستان واپس لے آئے۔ اسی سکواڈرن نے 25مارچ 1971سے 16دسمبر1971تک کرنل لیاقت بخاری کی قیادت میں دن رات 861اہم وخطرناک جنگی معرکوں میں حصہ لیا اور دشمن کی تمام تر ہوائی و زمینی برتری کے باوجود نہتے ہیلی کاپٹروں میں اشد ضروری فضائی و زمینی آلات کی نایابی کے باوجود چٹاگانگ بیراب بازار اور بولینا جیسے تاریخی آپریشن نہایت کامیابی اور کم تر نقصانات سے انجام دیئے۔

4آرمی ایوی ایشن سکواڈرن کو اس کی جنگی مہارت و تیاری اور مشرقی پاکستان میں نہایت عمدہ کارکردگی پر Battle Honour کے ایوارڈ کے لئے چنا گیا اور Gallantsکا خطاب دیا گیا۔
Raja Majid Javed Ali Bhatti
About the Author: Raja Majid Javed Ali Bhatti Read More Articles by Raja Majid Javed Ali Bhatti: 57 Articles with 40069 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.