(شمائلہ جاوید بھٹی۔ کالم)
مشرقی پاکستان میں پاک فوج بے سرو سامانی سپلائی لائن کے کٹ جانے کے باوجود
ہزاروں میل کے فاصلے پر بڑی جرأت و بہادری سے لڑی جس کا اعتراف پاک فوج کے
دشمن جرنیلوں نے بھی کیا۔ فیلڈ مارشل جنرل مانک شاہ فاتح مشرقی پاکستان نے
بی بی سی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کا کھلے دل سے اعتراف کیا کہ
’’پاکستانی فوج مشرقی پاکستان میں بہادری سے لڑی۔وہ اپنے بیس سے ہزاروں میل
کے فاصلے پر تھی۔بھارتی فوج کو تیاری کے لئے نو مہینے ملے تھے۔ بھارت کو
پندرہ کے مقابلے میں ایک پاکستانی فوجی پر برتری حاصل تھی۔ ‘‘
معرکہ ہلی مشرقی پاکستان کے ہیرومیجر محمد اکرم شہید نشانِ حیدر نے بہادری
کی نئی تاریخ رقم کی۔5 دسمبر 1971 کو پاکستان آرمی کے میجر محمد اکرم نے
ہلی ضلع دیناج پور مشرقی پاکستان کے محاذ پر جام شہادت نوش کیا۔ میجر محمد
اکرم 4 اپریل 1938 کو ڈنگہ ضلع گجرات میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدا میں وہ نان
کمیشنڈ عہدے کے لئے منتخب ہوئے مگر پھر خصوصی امتحانات پاس کرنے اور ملٹری
اکیڈمی کاکول سے تربیت حاصل کرنے کے بعد 13 اکتوبر 1963 کو بحیثیت سیکنڈ
لیفٹیننٹ پاکستان آرمی کی فرنٹیئر فورس رجمنٹ سے وابستہ ہوئے۔ 1965 میں
انہیں کیپٹن اور 1970 میں میجر کے عہدے پر ترقی ملی۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ
میں انہوں نے ظفر وال سیکٹر میں خدمات انجام دیں۔7 جولائی 1968 کو انہیں
مشرقی پاکستان میں متعین کیا گیا۔1971 کی جنگ کے آغاز کے وقت وہ ہلی ضلع
دیناج پور میں فرینٹیر فورس رجمنٹ کی ایک کمپنی کی قیادت کررہے تھے۔ انہوں
نے دشمن کی فضائیہ توپ خانے اور بکتربند دستوں کی لگاتار یلغار کی زد میں
رہتے ہوئے دشمن کے ہر حملے کو روکے رکھا۔ انہوں نے دو ہفتے تک دشمن کو
پاکستان کی سرزمین پر ایک انچ بھی آگے نہ بڑھنے دیا اور بے مثال جرأت و
استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آخردم تک لڑتے رہے۔ اس یادگار معرکے میں انہوں
نے اپنے فرض کی تکمیل کے لیے جس انداز میں جان کا نذرانہ پیش کیا وہ ایک
لازوال روایت کی حیثیت رکھتی ہے۔
میجر محمد اکرم کی جرأت کو سراہتے ہوئے حکومت پاکستان نے انہیں ملک کا سب
سے بڑا عسکری اعزاز نشان حیدر عطا کیا۔ وہ بنگلہ دیش میں بوگرا کے مقام پر
آسودہ خاک ہیں۔
میجر محمد اکرام شہید کا نشان حیدر کا اعزاز 31 جنوری 1977 کو ایوان صدر
اسلام آباد میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں ان کی والدہ مسما احسان بی بی
نے حاصل کیا۔
مشرقی پاکستان میں سپلائی لائن سے محروم صرف 42 پاکستانی فوجیوں نے جرأت و
بہادری کی زبردست مثال قائم کی اور حملہ آور بھارتی فوج کے 540 جوانوں کو
موت کی نیند سُلا دیا۔ مغربی پاکستان میں اس واقعہ کے بعد ریڈیو پاکستان پر
جنگی ترانہ لگایا گیا جس کے بول تھے
ساڈے صرف 42 شیراں 540 مارے نیں
رب دے رنگ نیارے نیں
باریسال مکتی باہنی کا آخری مضبوط کنٹرول تھا۔ باریسال آپریشن میں نے میجر
کی حیثیت سے لیڈ کیا۔ اس آپریشن میں سارے آرمی یونٹس شامل تھے۔ ایئرفورس،
نیوی کی کشتیاں اور کمانڈو یونٹ سبھی تھے۔ باری سال کے مقام پر تین سو سے
چار سو بہاری فیملیز کو سکول کی بلڈنگ میں قید رکھاگیاتھا اور بکتی باہنی
کا پروگرام تھا کہ انہیں نکال کر مارنا شروع کردیں گے۔ ہم نے ان کو وہاں
جاکر چھڑواناتھا میجر راجہ نادر پرویز ستارہ جرأت کی قیادت میں پاک فوج کا
دستہ رات تین بجے باری سال کے مقام پر پہنچا اور ابھی لینڈ کیا ہی تھا کہ
ان پر فائر کھول دیئے گئے۔ نیوی کے افسران اس دوران زخمی ہو گئے۔ ایئرفورس
آئی تاہم باری سال کے مقام پر شروع میں مزاحمت تھی بعد ازاں نہ ہوئی۔ پاک
فوج نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے سکول میں پہنچ کر ان لوگوں کو آزاد کروایا
تو اﷲ اکبر کے نعرے بلند ہونا شروع ہو گئے۔ |