سقوط ڈھاکہ اور ہم

کل شام بحث ہو رہی تھی کہ سقوط ڈھاکہ کو چار دہائیوں سے زائد عرصہ بیت چکاہے، لیکن ہم ( حکمرانوں اور سیاستدانوں )نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا، فاروق نول کا کہنا ہے کہ سبق تب حاصل کیا جاتا ہے جب ہم تسلیم کریں کہ بنگلہ دیش کے قیام میں یا مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ہماری کوئی کوتاہی کا عمل دخل ہے، لیکن ہم تو اسے عالمی سازشیوں کی کارستانی قرار دیکراپنا دامن بچا لیتے ہیں……کیا عالمی طاقتوں نے ہمیں کہا تھا کہ بنگالیوں کو اپنے سے کم تر سمجھو اور انہیں اہم عہدے نہ دو؟ نہیں انہوں نے ہر گز ایسا کرنے کی ترغیب نہیں دی تھی یہ سب ہمارا اپنا کیا دھرا تھا اور یہ مشق آج بھی جاری ہے…… ہمیں کس نے کہا تھا کہ مشرقی پاکستان کی اکثریت کو مغربی پاکستان کے برابر قرار دیدو ؟ اس طرح ہمارے زرخیز اذہان نے بنگالی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کردیا…… ہم نے اسے اپنے اوپر بوجھ خیال کیا بقول قدرت اﷲ شہاب صدر ایوب خاں کئی بار اس بات کا اظہار کرچکے کہ ہمیں جلد از جلد مشرقی پاکستان سے گلوخلاصی کروا لینی چاہیے جس کسی کو شک ہو وہ آج بھی شہاب نامہ کا مطالعہ کر کے اپنی تسلی کر نے کا حق استعمال کرسکتا ہے۔

کیا بنگالیوں نے 1964 صدارتی انتخاب میں قائد اعظم کی شریک سفر ہمشیرہ فاطمہ جناح کی حمایت نہیں کی تھی اور کیا ہم نے محترمہ فاطمہ جناح کی جیت کو دھاندلی سے شکست میں تبدیل نہیں کیا تھا؟کیا محترمہ فاطمہ جناح کو مشرقی پاکستان کے عوام نے ووٹ دیکر کامیاب نہیں کرایا تھا؟کیا یہ سب کچھ عالمی سازشیوں کا کی کارستانی تھی؟ ، بنگالی عوام میں احساس محرومی پیدا کرنے والے اسباب ہم نے خود پیدا نہیں کیے تھے؟ہم نے بنگالیوں کو ’’کالے‘‘’’ بونے‘‘ اور بدبودار جسم والے نہیں کہا تھا؟کیا ہم نے بنگالیوں کی اکثریت کو مغربی پاکستان کے برابر قرار دینے کے لیے قانون سازی نہیں کی تھی؟ کیا ان سوالات کے جواب مانگنے والوں کو غدار کہا گیا؟

آج مشرقی پاکستان کو ہم سے جد ا ہوئے اور بنگلہ دیش بنے چوالیس سال ہوگئے ہیں ابھی تک ہم عالم اسلام کے اس عظیم سانحہ کے رونما ہونے والے اسباب اور عوامل کا کھوج لگانے میں کامیاب نہیں ہوپائے ،ذوالفقار علی ؓھٹو حکومت نے ایک اس مقصد کے لیے حمود الررحمان کمیشن قائم کیا تھا اور اس نے اپنی فائنڈنگ بھی دیدی تھی لیکن بعض مجبوریوں کے کے باعث حکومت آج تک اسے شائع کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکی ، عوام سے اس روپورٹ کو مخفی رکھنے کی وجوہات میں ایک یہ بتائی جاتی ہے کہ اس رپورٹ میں بعض حساس نوعیت کے مسائل بیان کیے گئے ہیں جن کی اشاعت سے پاک فوج کے مورال کا مسلہ پیدا ہونے کا احتمال اور اندیشہ ہے۔

سقوط ڈھاکہ کی ذمہ داری کسی پر فکس نہیں کی گئی محض الزام تراشیاں کرکے اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرنے پر اکتفا کیا گیا، عوام کو بتایا گیا کہ سقوط مشرقی پاکستان کے تین کردار ذمہ دار ہیں ان میں ذوالفقار علی ؓبھٹو،شیخ مجیب الررحمان اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی شامل ہیں، ہم نے یحیی خان اور جنرل امیر عبداﷲ خان نیازی اور دیگر سول اور فوجی افسران کو چھوا تک نہیں بلکہ انہیں کلین چٹ تھما دی، حد تو یہ ہے کہ ان لوگوں کو پورے فوجی اعزازات کے ساتھ اور قومی پرچم میں لحد میں اتارا گیا اور فوجی سلامی بھی دی گئی…… چاہیے تو یہ تھا کہ جسٹس حمود الررحمان کمیشن کی رپورٹ کو من و عن شائع کیا جاتا اور جن لوگوں پر ذمہ داری عائد کی گئی تھی انہیں قانون کی گرفت میں لاکر اپنا فرض پورا کرتے اور اتنے بڑے سانحہ سے سبق سیکھتے اور مستقبل میں ایسے اقدامات کرنے سے اجتناب برتا جاتا لیکن ہم نے سبق سیکھنے کی بجائے اپنی غیر جمہوری سوچ اور روش کو جاری رکھا مگر ہم نے محض بھٹو صاحب پر ذمہ داری ڈالی اور بس۔اگر بھٹو صاحب ہی مشرقی پاکستان کے سانحہ کے ذمہ دار تھے اور سمجھے گئے تو پھر انہیں ایک نواب کے قتل کے الزام میں پھانسی نہیں دینی چاہیے تھی بلکہ ان پر پاکستان کو توڑنے کے الزام میں مقدمہ چلایا جا تا ۔ایسا نہ کرنے سے بھٹو صاحب پر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی سازش کے الزام کی صداقت مشکوک قرار پاگئی۔

اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ بھارت نے سازش کے تحت مشرقی پاکستانیوں میں مغربی پاکستان کے خلاف موجود نفرت کو مذید ہوا دی اور اسے پودے سے تناور درخت بنانے میں اپنے تمام وسائل صرف کیے جبکہ ہم اور ہمارے حکمران ہوس و حرص کے سمندر میں غوطازن رہے اور مغربی پاکستان کے خلاف پائی جانے والی نفرت اور تعصب کے خاتمے کے لیے کسی قسم کے اقدامات نہ کیے بلکہ الٹا کہا جانے لگا کہ وہاں(مشرقی پاکستان میں) سوائے پٹ سن کے ہوتا کیا ہے،؟ مشرقی پاکستان تو ہمارے اوپر بوجھ بنا ہوا ہے……

چوالیس سال قبل مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستان سے علیحدگی کا جوا ز بننے والے حالات و واقعات سے کہیں زیادہ آج ہمارے حالات خراب ہیں، وطن سے اپنی تاریخ کے سنگین ترین حالات سے گزر رہا ہے، دہشت گردی ،تخریب کاری،ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری ،کرپشن ،لوٹ مار ،چوری ڈکیتی ،خواتین کی عصمت دری اور بدعنوانی کے لرزہ خیز وارداتوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور بے روزگاری اور مہنگائی سے لوگ خودکشیوں سے اپنی زندگیاں ختم کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں،بدعنوانی اپنے عروج پر ہے، سرکاری ملازمین تنخواہوں کے ساتھ عوام کی جیبوں کی صفائی بھی اپنا حق سمجھتے ہیں،میرٹ کی دھجیاں اڑا نے میں ہم اپنا ثانی نہیں رکھتے، اگر یوں کہوں کہ آج ہماری حالت مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے وقت کی حالت سے زیادہ ابتر ہے۔

ہمارا یہ المیہ کم ہے کہ ہم آج بنگلہ دیش میں جبگی جرائم میں مقدمات چلانے اور پاکستان کے ہمدردوں کو موت کی سزائیں دینے پر صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں لیکن بنگلہ دیش میں پاکستان کی محبت کے جرم میں آج بھی جانوروں سے بدتر زندگی بسر کرنے والے پاکستانیوں کو واپس لینے کو تیار نہیں ہیں۔ میں تو بنگلہ دیش میں پھانسی کی سزائیں پانے والوں کے عمل کو پاکستان کے قتل سے تعبیر کرتا ہوں اگر ہم پاکستان سے واقعی محبت کرتے ہیں تو ہمیں بنگلہ دیش میں پھنسے پاکستانیوں کو قبول کرنا ہوگا اور ان تمام عوامل واسباب سے ہاتھ کھیچنا ہوگا جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا باعث بنے تھے۔بلوچستان سندھ سمیت دیگر علاقوں میں عوام کو ان کے حقوق دینے میں تامل نہیں کرنا چاہیے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم کو مقامی حکومتیں بنانے سے روکنے کی کوشش کی جائے گی کیونکہ وہاں آپریشن میں مصروف عمل فورسز ایسا نہیں چاہئیں گی کہ ایم کیو ایم اقتدار کا حصہ بنے ۔ایسا نہیں سوچنا چاہیے -
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 161947 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.