شاہین اختر
مشرقی پاکستان میں پاک فوج کو بدنام کرنے کے لئے اس پر بنگالیوں کے قتل عام
اور خواتین سے زیادتیوں کے الزام لگائے گئے تاہم اس جھوٹے پراپیگنڈے کی
نفی، زمینی حقائق اور بھارت سمیت دیگر غیر ملکی صحافیوں نے کردی۔ یہ سوال
بھی بڑی شدمد کے ساتھ اٹھایا گیا کہ 16دسمبر کو پاکستانی فوج کے ہتھیار
ڈالنے کے بعد تین چار لاکھ بنگالیوں کا قتل کس نے کیا۔ بہرحال تاریخی
ریکارڈ کی درستگی کے لئے بھارتی صحافی شرمیلا بوس نے اپنی کتاب "Dead
Reckoning The memories of the1971 Bangladesh War میں اہم انکشافات کیے
ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کتاب مشرقی پاکستان میں بھارت کے کردار کے بارے
میں نہیں تاہم مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھارت کا بہت کردار رہا ہے۔
1971ء کی جنگ پر ریسرچ کے دوران بنگالی عوام نے مجھے جنگ کی تفصیلات سے
آگاہ کیا اور مفید معلومات فراہم کیں۔ ایک حیرت انگیز بات یہ تھی کہ باوجود
کوشش کہ مجھے کوئی شہادت نہیں مل سکی کہ پاکستانی فوج نے عورتوں اور بچوں
کو نشانہ بنایا ہو۔ ان تمام شواہد سے مجھے اندازہ ہوا کہ پاکستانی فوج کے
خلاف کتنے وسیع پیمانے پر عورتوں سے زیادتی کا پروپیگنڈہ کیا گیا تاکہ عوام
کے جذبات کو بھڑکایا جاسکے۔
1971 کی جنگ میرے ساتھ تب سے ہے ، جب میں ایک بچی تھی اور کلکتہ میں بڑی ہو
رہی تھی (شرمیلا بوس 1971 میں بارہ سال کی تھیں )میری اپنی یادداشت میں اب
تک وہ تکلیف دہ اور پیچیدہ واقعات موجود ہیں ، جو ہمارے بالکل نزدیکی شہر
میں پیش آئے ۔ میرے خاندان کے کئی افراد مشرقی پاکستان سے آنے والے مہاجرین
کے لئے امدادی سرگرمیوں میں شامل رہے تھے ۔ تو یہ واقعات میرے ساتھ ساتھ اس
وقت سے تھے، جب سے میں نے بین الاقوامی سیاست میں دلچسپی لینی شروع کی ۔
مجھے ہمیشہ لگتا تھا کہ مجھے اس بارے میں کچھ لکھنا چاہئے ۔یہ اور بات کہ
مجھے اس کا موقعہ اس واقعے کے تیس، پینتیس سال بعد جا کر ملا ۔
کتاب کے مندرجات بہت متوازن ہیں ،مگر بنگلہ دیش اور پاکستان دونوں میں ایسے
لوگ ہونگے، جنہیں اس کتاب پر یقین کرنے،اور انہیں سمجھنے میں دشواری پیش
آئے گی ۔ایسا اس لئے ہے کہ 40 برسوں کے دوران دونوں ملکوں اور بھارت میں
بھی اپنے طور پر ایک قوم پرستی پر مبنی دیو مالا تشکیل پا چکی ہے ۔ اس جنگ
کے بارے میں کوئی غیر جذباتی ، غیر جا نبدار اور منظم ریسرچ نہیں ہوئی
۔چونکہ ہم میں سے بیشتر لوگ ایسی کہانیاں سنتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں ، میں خود
بھی اس کہانی کا وہی بیانیہ سن کر بڑی ہوئی، جس پر بھارت اور بنگلہ دیش کی
چھاپ تھی ۔توجب میں نے یہ ریسرچ شروع کی، اس وقت میں خود بھی نہیں جانتی
تھی کہ کیا نتائج سامنے آئیں گے ۔میرا خیال تھا کہ چونکہ71 کے واقعات مکمل
طریقے تحریری شکل میں نہیں لائے گئے ، اس لئے میں ایسی تفصیلات معلوم کروں
گی ، جو کہیں درج نہیں ہوئیں ۔یعنی اس واقعے کے دستاویزی حقائق کا بھی خود
جائزہ لوں گی ۔لیکن جب میں نے تحقیق کے لئے لوگوں سے بات کرنی شروع کی ، تو
جو حقائق میرے سامنے آئے وہ ان کہانیوں سے مختلف تھے ، جنہیں سن کر میں بڑی
ہوئی تھی ۔
عوامی لیگ شیخ مجیب الرحمن اور بھارت کی طرف سے بنگالیوں کے قتل عام کی
کہانیاں جھوٹ کا پلندہ اور بھارتی پراپیگنڈا تھیں جن کی نفی بہت سے غیر
جانبدار صحافیوں اور مصنفین نے اپنی کتابوں میں کی ہیں۔ شرمیلا بوس کے
علاوہ رچرڈ سیشن Richard Sissonاور لیو ای روز Leo E Rose نے اپنی کتاب:
Pakistan, India and the Creation of Bangladesh War and Secession اور گرے
باس Gray Bassنے اپنی کتاب The Blood Telegram میں بنگالیوں کے قتل عام کے
اعدادوشمار کو جھوٹ کا پلندہ اور بھارتی پراپیگنڈا قرار دیا ہے۔ |