بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار کی تاجپوشی کی
تقریب پٹنہ کے گاندھی میدان میں بڑے ہی تزک احتشام کے ساتھ منائی گئی۔گورنر
رام ناتھ نے انھیں حلف دلوایا۔مرکز کی طرف سے وینکائیا نائیڈو اور راجیو
پرتاپ نے نمائندگی کی۔ اس تقریب میں کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی‘ دہلی
کے وزیر اعلی اروند کیجریوال‘جموں وکشمیر کے وزیر اعلی فاروق عبداﷲ‘ مغربی
بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی‘ سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیو گوڑا‘ ین سی پی
کے سربراہ شرد پوار ‘ اے آئی یو ڈی ایف کے سربراہ مولانا بدرالدین اجمل اور
دوسرے بہت سے اہم لیڈران نے شرکت کی۔ اس تقریب میں کم وبیش بارہ پارٹیوں کی
نمائندگی رہی۔نتیش کمار نے ریاست بہار کے چوتیسویں وزیر اعلی کے طور پر حلف
لیا اور وہ پانچویں بار بہار کی باگ ڈور سنبھال رہے ہیں۔ ان کے حلف برداری
کے ساتھ ریاست کے ۲۸ وزیروں کو بھی حلف دلایا گیا۔ وزارت کی ۷ نشستیں ہنوز
محفوظ ہیں۔دستوری لحاظ سے اسمبلی کے ۱۵ فیصد اراکین وزارت میں رہ سکتے ہیں۔
بہار اسمبلی کی کل ۲۴۳ نشستیں ہیں اور اس کی رو سے وزیروں کی تعداد ۳۶ ہو
سکتی ہے۔ وزارت میں نتیش کمار کے زیر قیادت پارٹی جنتادل یونائیٹیڈ (جے ڈی
یو) کے اراکین کی تعداد ۱۲ ہے جب کہ ان کی نشستیں اسمبلی میں ۷۱ ہیں۔لالو
یادو کے زیر قیادت پارٹی راشٹریہ جتنادل(آر جے ڈی) کے بھی ۱۲ اراکین کو
وزاتی کونسل میں شمولیت ملی ہے حالاں کہ ان کی اراکین کی تعداد اسمبلی میں
۸۰ ہے۔ کانگریس کو بہار انتحابات میں ۲۷ نشستوں پر کامیابی ملی ہے اور ان
کے ۴ اراکین کو وزات سونپی گئی ہے۔
بہار کی سیاست چونکہ مذہب اور ذات برادری کی سیاست ہے اس لئے بہار کے اس
نئی وزارت میں اس توازن کو برقرار رکھنے کے حتی المقدور کوشش کی گئی ہے۔
البتہ قلمدانوں کی اس تقسیم میں یادووں کا پلڑا بھاری لگ رہا ہے۔ سب سے
ذیادہ وزارتیں یادووں کو ملی ہیں ۔ وزارتی کونسل میں ان کی کل تعداد ۷ ہے۔
مہادلت وزراء کے تعداد ۴ ہے اور مسلم وزراء بھی ۴ ہیں۔انتہائی پسماندہ
برادری کے ۳ اراکین کو جگہ ملی ہے۔ کشواہا کے ۳‘ کرمی کے ۲‘ راجپوت کے ۲‘
برہمن و بھومیہار کے علاوہ دلت طبقے کے ایک ایک رکن کو وزارتی کونسل میں
شمولیت کا درجہ ملا ہے۔ کہا یہ گیا کہ پانچ اراکین اسمبلی پر ایک وزیر کا
فارمولااختیار کیا گیا ہے لیکن جہاں خواتین کے بات آئی وہاں اس فارمولے کو
یکسر نظر انداز کر دیا گیا کیوں کہ وزاتی کونسل میں صرف ۲ خاتون کو ہی
شمولیت ملی ہے ‘ ایک انیتا دیوی آرجے ڈے سے جنھیں سیاحت کا محکمہ دیا گیا
ہے اور دوسری کماری منجوورما جے ڈی یو سے جنھیں سماجی بہبود کا محکمہ ملا
ہے۔ بہار اسمبلی میں کل خواتین کے تعداد ۲۷ ہے اور جن میں مہا گٹھ بندھن کی
۲۲ خواتین ہیں۔
قلمدانوں کی اس تقسیم میں جو بات سماجی انصاف کے آڑے آ رہی ہے وہ لالو یادو
کے فرزند تیجسوی یادو کا نائب وزیراعلی کے طور پر حلف لینا ہے۔ قیاس
آرائیاں یہ ہو رہی تھیں کہ آر جے ڈی کے سینئر رکن عبدالباری صدیقی کو نائب
وزیر اعلی کا عہدہ سونپا جائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا‘ اس کے وجہ چاہے
جو بھی ہو ‘ اقرباء پروری ہو یا دوسرے سماج کی مخالف کا خوف۔ سیاست اور
وراثت کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے لالو یادو نے اپنی پارٹی کی تخت نشینی
کا عندیہ بھی دے ہی دیا اور بہار کی سیاست کے مشہور سیاست داں اور آرجے ڈی
کے سابق رکن پپو یادو کا بیان بھی عملی طور سے لالو یادو نے سچ کر دکھایا۔
پپو یادو کو لالو یادو نے پارٹی سے نکال دیا تھا کیوں کہ انھوں نے لالو پر
الزام عائد کیا تھاکہ یہ پارٹی کو اپنے گھر کا سمجھتے ہیں اور اپنے بیٹے کو
اپنا نائب بنانا چاہتے ہیں۔ تیجسوی یادو جنھوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز کرکٹ
کے میدان سے کیا اب سیاست کے پچ پر بیٹنگ کرنے آئے ہیں۔ تیجسوی یادو کے
حمایت جے ڈی یو کے طرف سے ہوئی ہے۔ جیسے جے ڈی یو کے ایک لیڈر سے تیاگی نے
کہا کہ اپنا کام کرنے کے لئے تیجسوی یادو کو کم ازکم چھ مہینے کا وقت ملنا
چاہیئے تب جاکر میڈیا یا اپوزیشن ان کے خلاف آواز اٹھائے۔ نائب وزارت اعلی
کے علاوہ تیجسوی یادو کے پاس تعمیرات شاہراہ وعمارت اور پس ماندہ وانتہائی
پس ماندہ کی فلاح وبہبود کا محکمہ بھی ہے۔ سیاست میں اقرباء پروری کوئی
معیوب بات نہیں کیوں کہ بڑی بڑی برائیوں اور گھوٹالوں کے سامنے یہ بہت بونی
نظر آتی ہے۔ اسی اقرباء پروری کا دوسرا نمونہ لالو پرساد یادو کے دوسرے
فرزند تیج پرتاب یادو ہیں ۔ انھیں بھی صحت‘ چھوٹی آب پاشی اور ماحولیات کے
محکموں کا قلم دان سونپا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جے ڈی یو کے حوالے بہت سے
دوسرے اہم محکمے کئے گئے ہیں‘ جن میں بہت ہے حساس اور اہم محکمہ مالیات ہے
جو عبدالباری صدیقی کے سپرد کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے اہم محکموں میں
چندریکا رائے کو ٹرانسپورٹ دیا گیا ہے‘ رام وچار رائے کو زراعت کا محکمہ
دیا گیا ہے‘ آلوک کمار مہتا کو محکمہ امداد باہمی ملا ہے‘ وجے کمار کو محنت
وسائل کا محکمہ دیا گیا ہے‘مونیشور چودھری کو معدنیات وکانکنی کا محکمہ
سپرد کیا گیا ہے نیز انیتا دیوی کو سیاحت کا محکمہ ملا ہے۔
دوسری طرف نتیش کمار نے داخلہ‘ جنرل ایڈمنسٹریشن اور اطلاعات وتعلقات عامہ
جیسے اہم محکمے اپنے پاس رکھے ہیں۔ دوسرے اہم محکموں میں ان کے پارٹی کے
پاس صناعت اور سائنس ٹیکنالوجی کا محکمہ ہے جو جے کمار سنگھ کے سپرد کیا
گیا ہے۔ وجندرپرساد یادو کے ذمہ محکمہء توانائی ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے
محکمے میں راجیو رنجن عرف للن سنگھ کو آبی وسائل‘ شرون کمار کو دیہی ترقیات‘
مہیشوری ہزارے کو شہری ترقیات اور مدن سہنی کو خوراک ورسد کے محکمے دیئے
گئے ہیں۔ تعلیم اور آئی ٹی کا اہم ترین محکمہ کانگریس کے کھاتے میں آیا ہے۔
اگر وزارتوں اور محکموں کا موازنہ کیا جائے تو یہاں بھی یادووں کا پلڑا
بھاری نظر آتا ہے گرچہ کہ نتیش کمار وزیر اعلی ہیں اور ان کے پاس داخلہ ‘
جنرل ایڈمنسٹریشن اور اطلاعات وتعلقات عامہ جیسے بڑے محکمے ہیں لیکن محکموں
کے اس تقسیم میں بھی طاقت کا عدم توازن صاف نظر آ رہا ہے‘ شاید اس کی ایک
معقول وجہ یہ ہو کہ بہار انتخابات میں آر جے ڈی ۸۰ نشستوں پر فتح حاصل کرنے
کے بعدیہ بہار کے سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے۔
ان سب عدم توازن اور خامیوں کے بعد بھی یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ اپنے
دیرینہ شدید اختلافات کے باوجود سب سیکولر پارٹیاں انتہاپسند اور فاشسٹ
طاقتوں کے خلاف ہندوستان کے سیکولزم کی بقا کے متحد ہو گئیں اور دوستانہ
ماحول میں سارے امور سرانجام پاگئے۔ ایک خاص بات یہ بھی رہی کہ ملک کے
تقریبا سارے ہی سیکولر چوٹی کے لیڈران اور سربراہان ایک اسٹیج پر جمع ہوئے
شاید یہ اپنے آپ میں مستقبل کی سیاست کا ایک نیا موڑ ہو۔ البتہ ایک سوال
باقی رہ جاتا ہے کہ بہار جیسیی ریاست جہاں ذات برادری اور طبقات کی سیاست
نے بہار کو اور بھی پیجیدہ بنا دیا ہے اور جہاں قلمدانوں کی تقسیم‘ کچھ
خامیوں اور اقرباء پروری سے قطع نظر اسی طبقاتی اختلافات کو مد نظر رکھ کے
کی گئی ہے کیا سماجی انصاف کے سلوگن تلے سبھی طبقوں کو انصاف مل پاتا ہے……؟ |