بول کے لب خاموش کیوں ہیں!!!

سعودی عرب میں اسلامی کتابوں پر پابندی ‘ علماء ابھی بھی خاموش

سعودی فرماں روا عبداﷲ کی وفات کے بعد جب23 جنوری 2015 کو سلمان بن عبدالعزیز کی تاج پوشی ہوئی تو وہ دنیائے اسلام کی توجہ اور امیدوں کا مرکز ومحور بن گئے۔ مسلمانوں نے ان سے یہ امیدیں وابستہ کر لیں کہ اب سعودی عرب کی پالیسیوں میں تبدیلی آئے گی۔ اسلام اور مسلمانوں کے تئیں جو بھیانک غلطیاں شاہ عبداﷲ نے اپنے دور حکومت میں کی ہیں ان کا استدراک کیا جائے گا۔ لیکن ہمیشہ کی طرح سادہ لوح مسلمانوں کے خواب چکنا چور ہوگئے۔ سارا معاملہ جیسا کا تیسا ہی رہا۔ اسلام مخالف اور امریکی وصہیونی نواز پالیسیاں جوں کی توں رہیں۔سعودی عرب کے تئیں مسلمانوں کی بے چینی اس لئے بھی بڑھی کہ گزشتہ سالوں میں سعودی حکومت کی اسلام مخالف امریکہ نواز پالیسیاں اور بھی اجاگر ہوکر سامنے آئیں۔ انھوں نے اپنے قول وعمل سے یہ ثابت کردیا کہ ان کی حکومت خالص قومیت ‘ خاندانیت اور مسلکیت پر مبنی حکومت ہے اور وہ اپنی ذاتی مملکت کے دفاع اور اس کے تحفظ کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ سعودی حکومت کی کھلم کھلا اسلام دشمنی کا سلسلہ اسی وقت سے شروع ہو جاتا ہے جب انھوں نے مصر میں قانونی وجمہوری طریقے سے منتخب مصری صدر ڈاکٹر مرسی کے خلاف ملعون زمانہ سیسی کے حمایت کا اعلان کیا تھا ۔ نہ صرف یہ کہ یہ زبانی خرچ تھا بلکہ انھوں نے اخوان المسلمین کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے بے تحاشا پیسے بھی خرچ کئے۔ امریکہ و اسرئیل کی دلداری کے لئے انھوں نے عوامی مقبولیت کی حامل اور اعتدال پسند اسلامی جماعت اخوان المسلمین کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا۔ شاہ عبداﷲ کے کچھ خواب ادھورے رہ گئے تھے اب اس میں رنگ بھرنے کا کام شاہ سلمان کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ سعودی عرب کی وزارت تعلیم نے اپنے زیر انتظام تمام تعلیمی اداروں کو نوٹس جاری کیا جس میں 80 کتابوں کے ضبطی کا حکم دیا گیا ہے ۔ اس میں اخوان المسلمون کے بانی حسن البناء شہید، مولانا مودودی ‘ سید قطب شہید‘ انور الجندی‘ عبدالقادر عودہ‘ مالک بن نبی‘ مصطفی سباعی اور حسن ترابی سمیت دیگر علماء کرام کی تصنیفات شامل ہیں۔ العربیہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اعلی ٰ تعلیم کی وزارت کی جانب سے اپنے ماتحت تعلیمی اداروں اور جامعات کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ہاں قائم کردہ کتب خانوں میں موجودمذکور مصنفین کی تمام کتب دو ہفتوں کے کے اندر ہٹا کر متعلقہ حکام کے حوالے کر دیں۔ جن کتاب کی ضبطی کا حکم دیا گیا ہے ان میں حسن البنا ء کی "اﷲ فی العقیدہ اسلامیہ"، "الوصایا العشر"، یوسف القرضاوی کی "الحلال والحرام"، "شبہات حول الاسلام" اور "مستقبل لھذا الدین" اور سید قطب کی "معالم فی الطریق" اور" تفسیر فی ظلال القرآن " جیسے اہم کتابیں بھی شامل ہیں۔

یہ وہی سعودی حکومت ہے جس نے نوبل پرائز کے مقابلے میں شاہ فیصل فاؤنڈیشن کا متبادل پیش کیا اور ایوارڈوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا۔ سب سے پہلے اسلام کی گراں قدر خدمات کے لئے اس فاؤنڈیشن کا نظر انتخاب مولانا مودودی پر پڑا۔ مولانا مودودی کو امام العصر کا خطاب بھی سعودی عرب نے ہی دیا۔ مولانا مودودی نے جب ختم نبوت نامی ایک کتابچہ لکھا تو جنرل ایوب کے زمانے میں انھیں پھانسی کی سزا سنائی گئی ۔ سعودی عرب کی مداخلت ہی کی وجہ سے ان کی پھانسی کو رد کیا گیا۔ جب سید قطب شہید کی شہادت کے بعد مصر میں ان کے اہل خانہ کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا تو سعودی عرب نے ان کے بھائی اور اسلام کے مشہور ومعروف اسکالر محمد قطب سمیت ان کے کئی افراد خانہ اور اخوانی رہنماؤں کو اپنے یہاں پناہ دی۔ لیکن افسوس یہ سلسلہ دراز نہ ہوسکا۔ امریکہ سے سعودی عرب کی پینگیں بڑھنے لگیں۔ امریکہ سے فوجی معاہدہ کرکے سعودی عرب نے اسلام کے سینے میں خنجر گھونپنے کا کام کیا۔ معاہدہ تو ختم ہوگیا لیکن دوستی اور بھی گہری ہوتی جارہی ہے۔ جب 25نومبر 2015کو امریکی حکومت نے امریکی صدر باراک اوباما کو2014میں ملے تحائف کی فہرست جاری کی تو اس میں سعودی عرب سرفہرست تھا۔ اس فہرست کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما کو سب سے قیمتی تحفے سعودی عرب کی جانب سے دیئے گئے جس کی کل مالیت 13لاکھ امریکی ڈالر ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب امریکی اسلحوں کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکی محکمہ خارجہ نے سعودی کو 1.29ارب ڈالر مالیت کے بم فروخت کرنے کی منظور دی ہے۔ یہ اسلحے ظاہر ہیں اپنی قومی مفاد کے لئے خود مسلمانوں کے خلاف ہی استعمال ہونے ہیں۔ خالص قومی مفاد کے خاطر لڑی جانے والی جنگ کو مذہبی رنگ دینا سعودی حکومت کی پرانی روایت رہی ہے۔ اس مقصد برآری کے لئے دنیا کے ہر حصے میں انھوں نے اپنے نمک خوار علماء کی کھیپ تیار کر لی ہے جو سعودی عرب کی ہر جائز و ناجائز اقدامات کو اپنے زور قلم اور بلند بانگ تقریروں کے ذریعے مذہبی لبادہ اوڑھا دیتے ہیں اور نمک حلالی کا ثبوت دیتے ہیں۔ یہ وہی علماء کرام ہیں جن کے ہاتھ ان معصوموں کے خون سے سنے ہیں جن پر صبح کے اندھیرے میں جمہوری اقدار کی پاسداری کے خاطر پر امن مظاہرہ کرتے وقت سیسی نے گولیوں کی بوچھار کر دی تھی۔ انھیں سعودی عرب میں کتابوں پر پابندی اظہار رائے کی حق سلبی نہیں لگ رہی ہے۔ لیکن اگر یہی اظہار رائے کی آزادی ان سے ہندوستان میں چھین لی جائے تو یہی ضمیر فروش مہر بہ لب علماء و مفکرین آسمان سرپر اٹھا لیں گے۔۔۔
Khalid Saifullah Asari
About the Author: Khalid Saifullah Asari Read More Articles by Khalid Saifullah Asari: 12 Articles with 10616 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.