ایّامِ اسیری کی شاہکار تصنیف

اعتقاداتِ اسلامیہ کی عملی غماز و نقیب” فلسفہ عباداتِ اسلامی“

فلسفہ عباداتِ اسلامی تحریک ِپاکستان کے عظیم مجاہد، مسلم لیگ کے رہنما اور جمعیت علمائے پاکستان کے صدر فاتح سرحد حضرت علامہ عبدالحامد بدایونی کی وہ معرکتہ العراء تصنیف ہے جو آپ نے تحریک تحفظ ختم نبوت 1953ء کے دوران جیل میں لکھی، کتاب کے مقدمے میں مولانا خود تحریر فرماتے ہیں کہ”یہ تالیف کسی بنگلہ، کوٹھی، تفریح گاہ میں مرتب نہیں ہوئی بلکہ ایک ایسی جگہ اِس کا سلسلہ شروع ہوکر انجام کو پہنچا، جو شہر میں واقع ہوتے ہوئے بھی اہلیان شہر بلکہ شہری دنیا سے دور ہے، نہ بچے ہیں نہ اہل و عیال، حتیٰ کہ قلم و دوات کاغذ کی بھی نگرانی ہوتی ہے، لکھنے والا جو لکھتا ہے، اُسے بھی جانچا جاتا ہے، یعنی ہم اور ہمارے رفقاء میں حضرت مولانا ابوالحسنات صاحب قادری اور دیگر علماء، کارکنان بسلسلہ تحریک ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت جیلوں میں محصور ہیں اور وہ بھی ایسے خانہ بدوش کی زندگی کہ کبھی کراچی ہیں، تو کبھی حیدرآباد و سکھر، لاہور میں بدلے جاتے ہیں ......خدا کا شکر ہے کہ ہمیں تیسری بار یہ سعادت ناموس مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دین اسلام کو ارتداد و کفر سے بچانے کے سلسلے میں حاصل ہوئی۔“

حضرت علامہ عبدالحامد بدایونی ایسے مجاہد ملت ہیں، جن کی خدمات تحریک خلافت، تحریک ترک موالات، تحریک فلسطین اور تحریک پاکستان سے لے کر قیام پاکستان اور استحکام پاکستان تک پھیلی ہوئی ہیں،1918 میں مسلم لیگ سے وابستہ ہونے کے بعد سے لے کر قیام پاکستان تک مسلم لیگ کا کوئی اجتماع ایسا دکھائی نہیں دیتا، جس میں آپ نے شرکت اور تقریر نہ کی ہو،1940میں لاہور میں قرار داد پاکستان کی منظوری کے حق میں آپ کی ولولہ انگیز تقریر آج بھی تاریخ کا حصہ ہے، آپ نے اپریل 1944میں بنارس سنی کانفرنس میں شرکت کی اور آل انڈیا سنی کانفرنس کے سیکرٹری نشرو اشاعت منتخب ہوئے، آپ اُس تیرہ رکنی کمیٹی کے بھی ممبر رہے جس کی ذمہ داری اسلامی حکومت کیلئے لائحہ عمل تیار کرنا تھی، آپ نے 1946ء کے انتخابات میں کامیابی کیلئے گرانقدر خدمات انجام دیں، سرحد میں مسلم لیگ کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے پر قائد اعظم محمد علی جناح نے آپ کو ” فاتح سرحد“ کے خطاب سے نوازا، الغرض مولانا عبدالحامد بدایونی کی زندگی تحریک پاکستان اور جدوجہد آزادی کا ایک روشن باب ہے۔

علامہ عبدالحامد بدایونی ایک بیدار مغز سیاستدان، صاحب علم و فکر عالم دین، باعمل شیخ طریقت اور ایک سچے عاشق رسول تھے، آپ کی زندگی کا مقصد عقیدہ ختم نبوت کا دفاع اور مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تحفظ تھا، علمائے کرام میں آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ نے سب سے پہلے 30جولائی 1944ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے سالانہ اجلاس لاہور میں مرزائیوں کو مسلم لیگ کی رکنیت سے خارج کرنے کی قراد داد پیش کی، آپ نے تحریک تحفظ ختم نبوت 1953میں نمایاں کردار ادا کیا اور قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں، حضرت مولانا ایک شعلہ بیاں مقرر، بہترین نعت گو شاعر اور صاحب طرز ادیب بھی تھے، آپ نے کئی کتابیں جن میں ”نظام عمل“،”بالشویزم اور اسلام“ ،”مرقع کانگریس“،”خطبہ صدارت پاکستان کانفرنس1941 بمقام لدھیانہ“، ”تاثرات روس“،”ممالک عربیہ اور ایران کا سفر نامہ“،” ہندو حکمرانی کا ہولناک تجربہ”، ”اسلام کا معاشی نظام اور سوشلزم کی مالی تقسیم“ وغیرہ شامل ہیں، بھی لکھیں، جبکہ ”فلسفہ عبادات اسلامی“ تحریک تحفظ ختم نبوت 1953 کے دوران جیل میں تخلیق پانے والی آپ کی شاہکار کتاب ہے۔

فلسفہ عبادات اسلامی مشق ِبندگی اور خدا کے سامنے خشوع و خضوع کا نام ہے، خیال رہے کہ عبادت ہمیں اِس بات کی یاد دہانی کرواتی ہے کہ ہر چیز کا خالق ربّ کریم کی ذات ہے، ہم اللہ کی عبادت کرتے ہیں، کیونکہ وہی معبود حقیقی اور لائق عبادت ہے، جو تمام صفات ِکمالیہ کا جامع ہو، ہر وصف اُس کی صفت ہوکر اپنے کمال کو پہنچ کر اکمل ہو، نہ کوئی اُس کی ذات میں شریک ہو اور نہ صفات میں، وہ ہر عیب سے پاک ہو، اُسی معبود حقیقی کی غایت درجہ تعظیم بجا لانے کو عبادت کہا جاتا ہے، دین اسلام نے ہمیں جس معبود حقیقی کی عبادت بجالانے کا تصور دیا وہ حضور سیّد عالم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس فرمان سے بخوبی واضح ہے کہ” تم اللہ عزوجل کی عبادت اِس طرح کرو کہ اُس کو دیکھ رہے ہو اور اگر (یہ تصور نہیں کرسکتے کہ ) تم اُس کو نہیں دیکھ رہے ہو،(تو یہ تصور کرو کہ) وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے۔“ اِسی تصور پر تمام عبادات، اُس کی تحسین اُس میں رغبت اور اُس کی قبولیت کا دارومدار ہے۔

عبادت انسان کی بندگی کا اظہار،خالق کے قرب کا ذریعہ اورضائے الہٰی کا سامان ہے،حقیقت یہ ہے کہ عبد اور معبود کے درمیان تعلق کا ذریعہ،روحانی سکون،جسمانی ورزش اور انسان کی روحانی و جسمانی تندرستی کی باقاعدہ مشق کا نام عبادات ہے،”فلسفہ عبادات اسلامی“عبد اور معبود کے درمیان تعلق کی انہی پوشیدہ حکمتوں کے اظہار پر مشتمل ہے جو نہایت ہی سادہ آسان اور عام فہم انداز میں فلسفہ عبادات، لباس و ستر، جہت و تکبیر، نماز وجماعت، اوقات کار کی حکمتیں، مساجد کی اہمیت، مذہب و سیاست، شہری آزادی، خدمت خلق، حقوق العباد، فلسفہ زکوٰة و حج اور قربانی اور علماء و مشائخ سمیت عاملین و ملازمین کے فرائض منصبی سمجھاتی ہے۔

پروفیسر شعبہ عربی پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر سید محمد قمر علی کے بقول مولانا کی یہ کتاب” اسلامی عبادات، اسلامی معاشرے اور اعتقادات اسلامیہ کی عملی غماز و نقیب ہے اور وضاحت کرتی ہے کہ اِن کی عقلی وجوہ اور عملی فوائد کیا ہیں، بشری طبیعتیں اِسے کیسے قبول کرتی ہیں، معاشرے پر اِس کے اجتماعی اثرات کیسے مرتب ہوں گے اور ایک ریاست و مملکت کیسے ایک اسلامی فلاحی ریاست کی شکل اختیار کرے گی، فلسفہ عبادات اسلامی میں جذب و ایمان کی روشنی کہاں سے ملے گی، وہ وجود روشن بشکل عملی اُسوہ کون ہے، دنیا کی انفرادی و اجتماعی قیادت کی دائمی ضروریات کیا ہیں، کس نے کیا کیا، کون ناکام رہا اور کون کامیاب ہوا، اِن تمام سوالات کے جوابات” فلسفہ عبادات اسلامی“ ہمیں فراہم کرتی ہے۔“

اِس نادر و نایاب اور تاریخی کتاب کی برسوں بعد دوبارہ اشاعت ممتاز دینی و سماجی شخصیت جناب ظہور الدین امرتسری صاحب کی کوششوں اور کاوشوں کا نتیجہ ہے، ظہورا لدین امرتسری صاحب کی زندگی تحریک پاکستان کے دوران سواد اعظم اہلسنّت سے تعلق رکھنے والے علماء و مشائخ کی شاندار خدمات کو نوجوان نسل کے سامنے لانے میں گزر گئی، اِس مقصد کیلئے انہوں نے اپنی بینک کی نوکری کو بھی خیر آباد کہا، اور اپنی عمر عزیز تاریخ پاکستان کے اُن گمنام گوشوں اور کرداروں کو سامنے لانے میں گزار دی، جنہیں اپنوں کی بے اعتنائی اور اغیار کی سازشوں نے ماضی کے دھندلکوں میں دھکیل دیا تھا۔

وہ دنیاوی لالچ اور مالی منفعت سے بے نیاز اِس مقصد کے حصول کیلئے پوری تندہی کے ساتھ ”ادارہ پاکستان شناشی “ کے پلیٹ فارم سے تحریک پاکستان کے حوالے سے فکری کجیوں اور لاعلمی کے ڈالے گئے گہرے و دبیز پردے اٹھانے میں مصروف ہیں، یہ کہنا قطعاً غلط نہ ہوگا کہ تاریخ پاکستان کے وہ گوشے اور کردار جو آج تک مورخ کی نظر سے اوجھل رہے یا جنہیں جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا، اُن تاریخی حقائق کو بے نقاب کرنے اور سامنے لانے کا سہر اجناب ظہور الدین امرتسری صاحب کے سر جاتا ہے، موصوف اِس قبل” خطبات آل انڈیا سنی کانفرنس، سوانح پروفیسر مولوی حاکم علی، کانگریسی مسلمانوں اور حقائق قرآن، مولانا عبد الحامد بدایونی کی ملی و سیاسی خدمات، اکابر تحریک پاکستان، ابوالکلام آزاد کی تاریخی شکست، علامہ شاہ احمد نورانی کی دینی و معاشرتی خدمات، النور، البلاغ، چودھویں صدی کے مجدد، خطبات آل انڈیا سنی کانفرنس، الرشاد، تحریک پاکستان میں مولانا عبدالحامد بدایونی کا کردار، اعلیٰ حضرت بریلوی کی سیاسی بصیرت، تحریک پاکستان کی ایک اہم دستاویز (1940) وغیرہ جیسی معرکتہ العراء کتابیں چھاپ چکے ہیں، جو آج بھی مسافران ِتاریخ کو روشن اُجالوں کی طرف رہنمائی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ زندہ قومیں کبھی بھی اپنے محسنوں کو فراموش نہیں کرتیں اور اُن کے سیرت و کردار اور جدوجہد کو آنے والی نسلوں کے دل و دماغ میں راسخ کرتی ہیں، یہی وہ بنیادی مقصد ہے، جس نے پیرانہ سالی میں بھی ظہور الدین امرتسری کو بستی بستی، قریہ قریہ مصروف سفر کیا ہوا ہے، امرتسری صاحب کی خواہش ہے کہ نوجوان نسل اپنے اسلاف کے فکرو کردار اور عمل سے واقف ہو اور اُس پر فخر کرتے ہوئے اُسے اپنی زندگی کا نصب العین بنائے، مادیت، تعصب اور تنگ نظری کے اندھیروں میں” فلسفہ عبادات اسلامی“ بھی ظہور الدین امرتسری کے جلائے ہوئے علم کے چراغوں میں سے ایک روشن چراغ ہے، ڈاکٹر سید محمد قمر علی (پروفیسر شعبہ عربی پنجاب یونیورسٹی )کے خوبصورت ابتدائیہ اور خود ظہورالدین امرتسری کے تحقیقی تعارف نے کتاب کے حسن میں چار چاند لگا دیئے ہیں، یہ کتاب ادارہ پاکستان شناسی (فون نمبر 03224005952 ) کے زیر انتظام چھاپی گئی ہے، آفسٹ پیپر پر شاندار مجلد رنگین ٹائٹل سے مزین یہ کتاب ہر صاحب علم اور تعلیمی و علمی لائبریری کی ملکیت ہونا چاہیے۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 314179 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More