ڈی ڈی سی اے جیٹلی جی کے گلے کی ہڈی بنتی جار ہی ہے……!

 ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ بی جے پی نے سی بی آئی کے ذریعے اروند کیجریوال کے آفس پر چھاپہ ماری نہیں کی ہو بلکہ کسی شہد کے چھتے کو چھیڑ دیا ہو کیوں کہ اسی دن سے عام آدمی پارٹی کے سربراہان نے ہندوستان کے وزیر مالیات اور بی جے پی کے سینیئر لیڈر ارون جیٹلی کو ڈنک مارنے کا کام شروع کردیا ہے۔ ابتداء ً تو عام آدمی پارٹی کی طرف سے لگائے گئے ان ڈنکوں کا اثر ارون جیٹلی جی کی صحت پر نہیں پڑا لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیاان ڈنکوں کا ڈنکا بجنے لگا اور اب ارون جیٹلی جی خود کو ان کے اثرات سے محفوظ نہیں رکھ پا رہے ہیں۔ بات شروع ہوتی ہے15 دسمبر کی سی بی آئی چھاپہ ماری سے جب اروند کیجریوال نے الزام لگایا کہ سی بی آئی نے ان کے دفتر میں ڈی ڈی سی اے (Delhi & District Cricket Association) کی فائلوں کو کھنگالا ہے جس میں ارون جیٹلی جی پھنس رہے ہیں۔ اس کے بعد17 دسمبر کو عام آدمی پارٹی نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں عام آدمی پارٹی کے آشوتوش کمار‘ کمار وشواش‘ سنجے سنگھ‘ دیپک باجپائی اور پارٹی کے ترجمان راگھو چڈھا نے مل کر ڈی ڈی سی اے میں ہوئے گھوٹالوں اور گھپلوں کی پول کھولی اور واضح طور سے الزام لگایا کہ اس میں وزیر مالیات ارون جیٹلی جی ملوث ہیں کیوں کہ یہ گھپلے ان کے دور میں ہوئے ہیں۔ ارون جیٹلی 1999 سے2013تک ڈی ڈی سی اے کے ذمہ دار رہے ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے یہ الزامات منسٹری آف کارپوریٹ افیئرس کے ماتحت ایس ایف آئی او (Serious Fraud Investigation Office) ‘ ڈی ڈی سی اے کی داخلی تحقیقاتی کمیٹی اور دہلی سرکار کی سہ رکنی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹوں اور دستاویزوں کی بنیاد پر لگائے۔ سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ فیروز شاہ کوٹلہ اسٹیڈیم کی تعمیر کے لئے 24 کروڑ کی منظوری ملی تھی لیکن اس کے کل اخراجات114کڑور ہو گئے۔ ای پی آئی ایل نامی کمپنی کو کل 57کروڑ کی ادائیگی کی گئی۔ باقی کے57 کروڑ کہاں گئے؟ 1.55 کروڑ کی 3کمپنیوں کو دئیے گئے ‘ جب ان کے بارے میں جواب طلب کیا گیا تو چیئرمین اور جنرل سیکریٹری جواب دینے سے قاصر رہے۔ ایسی کمپنیوں کو خطیر رقم کی ادائیگی کی گئی جس نے سرے سے کوئی کام ہی نہیں کیا۔ ایسی9کمپنیوں کو پیسے دیئے گئے جن کے ایمیل ‘ پتے اور ڈائریکٹر گھوم پھر کے ایک ہی ہیں۔ فیروز شاہ کوٹلہ اسٹیڈیم میں پرائیویٹ فرم ٹوینٹی فرسٹ سنچری کو10 کارپوریٹ باکس قائم کرنے کی اجازت دی گئی جس کے مالک جیٹلی کے خاندانی دوست ہیں۔ اس کے علاوہ فرضی بل کے بہت سارے معاملات ہیں۔ یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ جیٹلی جی نے یو این جی سی پر ہاکی انڈیا کو5کروڑ روپئے دینے کے لئے دباؤ ڈالا۔

ان الزامات کو تقویت اس وقت ملی جب خود بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اور سابق کریکیٹر کرتی آزاد نے اس معاملے کو لے کر عام آدمی پارٹی کے سر میں سر ملایا۔ گزشتہ 8سالوں سے کرتی آزاد اپنے دیرینہ دوست اور ہندوستانی کریکٹ ٹیم کے سابق کپتان بشن سنگھ بیدی اور دوسرے سابق کھلاڑی سریندر کھنا کے ساتھ مل کر ڈی ڈی سی اے کے گھپلوں اور بے ضابطگیوں کے خلاف آواز پر آواز اٹھا رہے تھے لیکن ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز سے آگے نہیں بڑھ سکی تھی ۔ گرچہ کہ پارلیمنٹ میں ان کے ذریعے ہی اس مسئلے کو اٹھانے کے بعد یوپی اے حکومت نے ایس ایف آئی او کے ذریعے اس کی تحقیق کرائی تھی اور ہائی کورٹ میں یہ معاملہ زیر سماعت بھی ہے لیکن اس پورے معاملے کو اتنی اہمیت نہیں دی گئی جتنی کہ اب دی جارہی ہے۔ کرتی آزاد اس معاملے کو لے کر پہلے پہل تو بہت پرجوش نظر آئے اور انھوں نے یہ تک کہہ ڈالا کہ عام آدمی پارٹی نے صرف 15فیصد ہی گھپلوں پر روشنی ڈالی ہے باقی کے 85فیصد وہ اپنے پریس کانفرنس میں بتائیں گے۔ یہ کہنا تھا کہ ان کی پارٹی کے بڑوں کے کان کھڑے ہو گئے اور بڑے دربار میں ان کی طلبی بھی ہو گئی ۔ ان کے اور امت شاہ کے مابین کیا گفتگو ہوئی یہ تو وہی جانیں لیکن اس ملاقات کا اثر کرتی آزاد کے پریس کانفرنس پر ضرور دکھا۔ انھوں نے اپنی پریس کانفرنس میں جہاں مودی جی سے اظہار محبت کیا وہیں ارون جیٹلی جی کو نظر انداز بھی کیا۔ انھوں نے ویکی لیکس آف انڈیا کی تیارکردہ سی ڈی کی روشنی میں ڈی ڈی سی اے کے گھپلوں کا جائزہ لیا اور گھپلوں کے متعد پہلؤوں کو اجاگر بھی کیا۔ چاہے جو بھی ہو ا ہو انھوں نے پریس کانفرنس اور این ڈی ٹی وی پر اپنے دئیے گئے ٹیلیفونک گفتگو کے ذریعے تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے کا کام ضرور کر دکھایا۔ ان کے کہنے کے مطابق تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل سی بی آئی نے ڈی ڈی سی اے سے 40 سوالات پوچھے تھے جن میں اس بات کی وضاحت طلب کی گئی ہے کہ17 چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کیسے رکھے گئے ۔ ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کے خلاف تو معاملہ بھی درج ہے اور اسے انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ انڈیا نے نوٹس بھی دے رکھا ہے۔14 کمپنیوں کے پتے غلط تھے یا وہ کمپنیاں تھیں ہی نہیں۔ اس طرح سے ان کے بینک اکاؤنٹ بھی فرضی رہے ہوں گے۔ اس کے علاوہ لیپ ٹاپ کا ایک دن کا کرایہ16900‘ پرنٹر کا کرایہ3000 اور پوجا تھالی کا کرایہ5000جیسے بہت سے فضول اور فرضی اخراجات بھی سامنے آئے۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ12مارچ 2013 کو ایس ایف آئی او نے جو رپورٹ پیش کی ہے اس سے ارون جیٹلی جی کی بے گناہی ثابت ہو جاتی ہے کیوں کہ اس میں کہا گیا ہے کہ ڈی ڈی سی اے میں بے ضابطگیاں تکنیکی نوعیت کی ہیں اس میں گھپلے کی کوئی بات نہیں۔ قابل غور یہ ہے کہ ایس ایف آئی او کی یہ رپورٹ 2008ــ۔2009 اور2011 ۔2012 کی ہیں۔ یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ ڈی ڈی سی اے گھپلوں کے امکانات پر تو متفق ہے لیکن اسے اس بات سے اعتراض ہے کہ اس میں ارون جیٹلی جی کی کوئی غلطی ہے۔ ارون جیٹلی جی کی حمایت میں پہلے سے دوسرے سیاسی لیڈران تو تھے ہی لیکن اب وریندر سہواگ اور گوتم گمبھیر کے علاوہ دوسرے کریکٹر بھی بول پڑے ہیں ۔ گوتم گمبھیر وہی ہیں جو اپریل2014 کے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کے انتخابی مہم کے لئے ارون جیٹلی جی کے ساتھ تھے اور امرتسر بھی ہو آئے تھے۔ بولنے والے صرف حمایت میں ہی بول رہے ہیں ان میں سے کوئی بھی یہ کہنے کی ہمت نہیں جٹا پا رہا ہے کہ اس پورے معاملے کی جانچ ہو یعنی کہیں نہ کہیں انھیں بھی کچھ خدشہ ہے۔ ارون جیٹلی جی کو جب اپنی صاف شفاف زندگی پر مکمل بھروسہ ہے تو وہ کیسے یوپی اے حکومت کی ذریعے کی گئی تحقیقات پر بھروسہ کر رہے ہیں۔ وہ تومعاملات کی تحقیق کی حمایت کرتے ۔ اس سے پہلے وہ صرف لفظی جنگ کر رہے تھے اب اپنی ذات کے لئے قانونی جنگ لڑیں گے۔ انھوں اس الزام کو اپنی ذات کا مسئلہ بنا لیا ہے ‘ اس لئے وہ عام آدمی پارٹی کے پانچ بڑ بولوں کے خلاف مجرمانہ ہتک عزت کا مقدمہ لڑنے کی تیاری میں لگ گئے ہیں جب کہ اروند کیجریوال ایک تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل کا ارادہ ظاہر کر چکے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے سینیئر وکیل اور ملک کے سابق سولیٹر جنرل گوپال سبرامانیم کو ایک مکتوب بھی لکھا ہے جس میں اس کمیٹی کی قیادت سنبھالنے کی درخواست کی گئی ہے۔ اب اس مسئلے کی نوعیت تثلیث کی سی ہے ‘ یہ سیاسی بھی ہے ذاتی بھی اور قومی بھی۔ کرپشن کے خلاف لڑائی اگر اسی طرح سے مثلث کی صورت اختیار کرلے تو کرپشن کے خاتمے کے راستے میں اور نہ معلوم کتنے بریکرس آئیں گے اور کرپشن کے خاتمے کی رفتار اور کتنی دھیمی پڑتی جائے گی۔
Khalid Saifullah Asari
About the Author: Khalid Saifullah Asari Read More Articles by Khalid Saifullah Asari: 12 Articles with 11478 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.