گڈ گورننس
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
پا کستان کی فوج دنیا کی پانچویں بڑی فوج
ہے۔ پاکستان دنیا کا ساتویں ایٹمی طاقت ہے اور دنیا کا پہلی اسلامی ایٹمی
ملک کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ اس کے باوجود جہاں پر ملک بھر میں دہشت گردی ،
انتہاپسندی، فرقہ پرستی اور شدت پسندی جاری ہے وہاں پر معاشی بدحالی کی بھی
ابتر صورت حال کا سامناکرنا پڑا رہا ہے۔ حکومت کی ترجیحات میں مہنگائی ، بے
روزگاری ، صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولت دینے کی بجائے میٹرو بسوں اور
میٹرو ٹر ینوں پر کھربوں روپے خرچ ہورہے ہیں۔ملک کے ہسپتالوں کی صورت حال
ہو یا سرکاری اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹی کی بات کی جائے سب کا برا حال
ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ اسلام آباد جیسے کیپٹل میں بھی صورت حال انتہائی
ناگفتہ بہ ہے۔ بدقسمتی یہ بھی ہے کہ حالات بہتری کی طرف نہیں جارہے ہیں
بلکہ دن بدن معاشی صورت حال خراب ہورہی ہے۔ بیرونی سر مایہ کاری نہ ہونے کے
برابر ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے اپنے سر مایہ کار بیرونی ممالک جارہے ہیں ۔
کہا جارہا ہے کہ ملک میں تاجروں کی حکومت ہے جو حساب کتاب اور معاشی منصوبہ
بندیوں اور کاروبار کے ماہر ہے جس میں حقیقت بھی ہے لیکن ان کی ایکسپرٹی
ملک کے لئے نہیں بلکہ اپنے کاروبار کے لئے ہے جس کی مثال ملک کی معاشی صورت
حال کا جائز لینے سے ہو رہاہے کہ ملک کے بہت سے ادارے تباہی پر کھڑے ہیں ۔
بہت سے ادار ے بغیرسر براہوں کے چل رہے ہیں ۔جو ادارے توڑے بہت کام کر رہے
ہیں ،حکومت ان کو بھی پرائیویٹز کر رہی ہے ۔ملک کی معاشی پہیہ گھومنے کے
لیے ادارے فروخت کیے جارہے ہیں ۔نجی کاری کے نام پر اپنوں کو نوازنے کا
سلسلہ جاری ہے۔اب تک کی نجی کاری میں 22فی صد نجی کاری کامیاب رہی جبکہ
78فی صد نجی کاری ناکام رہی ہے۔یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ چین میں 99فی
صد ادارے سرکاری تحویل میں ہے۔آئے روز ہڑ تالوں نے معیشت کا بیڑا غرق کر
دیا ہے ۔ جہاں پر بیرونی سر مایہ کاری روکی ہوئی ہے وہاں گزشتہ 4مہینوں میں
13.50ارب ڈالر جو تقر یباً15سو ارب ڈالر بنتے ہیں درآمدات ہوئی ہے جبکہ
برآمدات میں مجموعی طور ایک ارب 37کروڑ ڈالر کی کمی ہوئی ہے جو تقر یباً
ایک سو پچاس ارب روپے بنتا ہے ،صرف سیمنٹ کی برآمدات میں27فیصد سے زائد کمی
ہوئی ہے۔ برآمدات کاہدف 2014اور2015میں27ارب تھا جس میں کمی واقع ہوئی ہے۔
حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے غربت میں دن بدن اضافہ ہو رہاہے۔ اعداد وشمار کے
مطابق 4کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔بے روزگاروں
کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہاہے۔ اب تک اعداد وشمار کے مطابق بے
روزگاروں کی تعداد53لاکھ ہے جس میں 15لاکھ اضافہ گزشتہ ڈھائی سال میں ہوا
ہے۔
معیشت کو ز بردستی چلنے کے لئے قر ضوں پے قرضے لیے جارہے ہیں۔ خسارا پورا
کرنے کے لئے 40ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جارہے ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی
میں مزید اضا فہ ہو جائے گا ۔ وزیر اعظم اور وفاقی وزرا دوسرے ممالک اور
ادارے کو پا کستان میں انوسٹمنٹ کی تر غیب دیتے ہیں جبکہ خود ان کا پیسہ
باہر ممالک میں پڑا ہے اور بیرونی ممالک میں سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ خود
وزیر اعظم میاں نواز شریف کے بیٹوں کا بر طانیہ میں انواسٹمنٹ ایشیا ممالک
میں سب سے زیادہ ہے جب کہ اپنا کاروبار تو بہتر کر رہے ہیں، اسٹیل ملیں چلا
رہے ہیں اور ملک کے اسٹیل ملز کو بند کرنے کی چکر میں ہے۔ گڈ گورننس کی کئی
مثالیں ہمارے سامنے حکومت کی موجود ہے جس پر صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے جس
میں ایک نیلم جہلم پروجیکٹ بھی شامل ہے جو میاں نواز شریف کے وزیر اعظم
بنتے ہوئے لاگت 272ارب روپے تھی۔اب دوسال کے اندر اندربڑھ کر410ارب تک جا
پہنچی ہے۔جس کے لیے اب چین سے قر ضہ بھی حاصل کیا جارہاہے جبکہ بجلی کے
بلوں میں کئی سال سے نیلم جہلم پروجیکٹ کے نام پر عوام سے ٹیکس وصول کیا
جارہاہے۔
سابق آڈیٹر جنرل رپورٹ کے مطابق دو برسوں میں ایک ہزار ارب کی بے قاعد گیا
ہوئی ہے کوئی پو چھنے والا نہیں ۔ اسحاق ڈار کی آئی پی پیپز کو 480ارب روپے
بغیرآڈٹ کی ادائیگی کی الگ کہانی ہے جس میں 190ار ب روپے زیادہ ادا کیے گئے
ہیں۔ملک کے تاریخ میں مہنگا تر ین ڈیل یورو بانڈز کی خریداری میں کی گئی ہے
۔5سوارب روپے کے لیے دس سال بعد صرف سود 450ارب ادا کیا جائے گاجبکہ ااصل
رقم 500ارب اس کے علاوہ ہوں گے۔دوسری طرف عوام کو بھی لوٹنے کا سلسلہ جاری
ہے ۔ دنیا بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمت تاریخ کے کم تر ین سطح پر آگئی
ہے جس کے مطابق پاکستان میں بھی تیل کی قیمت کم ہو نی چاہیے تھی اور زیادہ
سے زیادہ چالیس اور پچاس روپے مقرر کرنا چاہیے لیکن حکومت سیلز ٹیکس اور
کسٹمز ڈیوٹی لگا کر مہنگی بیج رہی ہے جس میں عوام کے جیبوں سے841ارب روپے
سے زیادہ وصول کیے جا چکے ہیں ۔
ان سب پر حکومت اور پارلیمنٹ خاموش ہے تحر یک انصاف گاہے بگاہے آواز
اٹھارہی ہے لیکن ان کے سامنے دوسرے چیلنجز بھی درپیش ہے اور جیسے کہ تو قع
ہے کہ زیادہ آواز اس معاملے میں اٹھا یا جائے وہ بھی نہیں کیا جاتا ، جس گڈ
گورننس کی آئی روز حکومت دعوے کر رہی ہے یہ اس کی چند ایک مثالیں ہے ۔ باقی
گزشتہ کچھ دنوں میں ڈالر کی قیمت بڑھی ہے ۔ اسٹاک مارکیٹ میں معاشی بد حالی
کی وجہ سے اربوں روپے ڈوب گئے ہیں۔ گڈ گورننس پر اٹھنے والے سوالات جہاں پر
سکیورٹی اداروں اور عدلیہ کے لیے اہم ہے وہاں پر دو قت کی روٹی کھانے والے
سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔ غربت کی وجہ سے ماں باپ اپنے بچوں کو زہر دے
رہے ہیں اور خود خودکشیوں پر مجبور ہے۔ حکومت اپنی گڈ گورننس کو بہتر کرنے
کے لیے قرضوں پر انحصار کرنے کی بجائے بر آمدات میں اضافے پر توجہ دیں تاکہ
ملک کی معیشت حقیقی معنوں میں مستحکم ہو جائے ۔ گڈ گورننس کے خالی نعروں سے
کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
|
|