اور کیرتی آزاد کردئیے گئے
(Nazish Huma Qasmi, mumbai)
کل تک بی جے پی کے ترجمان یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ بی جے پی میں سب سے زیادہ جمہوریت ہے،کسی فردواحدیاگروہ کی پارٹی نہیں ہے،اشارہ سونیاراہل کی طرف ہوتاتھا،لیکن ایک مخصوص گروپ کے خلاف بولنے والوں پر جس طرح پارٹی نے ناک بھنوئوں چڑھائی ہے،وہ ڈکٹیٹرشپ اورعدم برداشت کی دلیل ہے ۔چاہے کیرتی آزادہوں،اڈوانی،جوشی ،شتروگھن سنہا،بھولاسنگھ ہوں یاآرکے سنگھ جس نے بھی مودی امت شاہ اورجیٹلی کے مثلث کے خلاف زبان کھولی،اس کی خبرلی گئی۔شکست کی ذمہ داری طے کرنے کی بات ہویابدعنوانی پرلب کشائی کی،اس نظروں سے گرادیاگیا۔بہارمیں توپارٹی نے کسی’’ کرن بیدی ‘‘کوبھی تیارنہیں رکھاتھا،جس کے سرپرشکست کاٹھیکراپھوڑاجاتا،اس لئے اس مثلث کے خلاف آوازاٹھنی فطری تھی ۔اس لئے اب اس جمہوریت کے سوال پراس کے ترجمانوں کی بولتی بندہے۔اورپوراملک دیکھ رہاہے کہ سرکارکون چلارہاہے ،جمہوری حکومت ہے یامخصوص گروہ کی ۔ کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی کسی کا نہیں ہوتا۔ اپنی پارٹی کے وفاداربھی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ ڈی ڈی سی اے الزامات میں جب ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے کیجری وال بنام جیٹلی طعن وتشنیع کا بازار گرم ہے۔ ماحول کچھ اس طرح پراگندہ ہے کہ کیجری وال کو اپنے وزیراعلیٰ ہونے پر بھی افسوس ہورہاہوگا کہ آخر ہماری بھی کوئی اہمیت ہے کہ نہیں ۔ شیلا دکشت خود کو ابھی محفوظ سمجھ رہی ہوں گی کہ میں 15سالوں تک وزیراعلیٰ کے عہدے پر متمکن رہی لیکن کبھی بھی میرا راز سربازار نیلام نہیں ہوا ۔ یہی راز کہ دہلی پولس پروزیراعلیٰ کا اختیار نہیں ہوتا، یہی راز کہ پرسنل دفتر پر سی بی آئی چھاپہ مار سکتی ہے۔ یہی راز کہ عوام جانتی نہیں ہے کہ دہلی کے وزیراعلیٰ کو کچھ بھی اختیارات نہیں ہوتے۔اوراتنے بھی نہیں کہ وہ اپنے دفترجاسکے اوراس پرکچھ دیرکیلئے پابندی لگادی جائے۔ |
|
کل تک بی جے پی کے ترجمان یہ کہتے نہیں
تھکتے تھے کہ بی جے پی میں سب سے زیادہ جمہوریت ہے،کسی فردواحدیاگروہ کی
پارٹی نہیں ہے،اشارہ سونیاراہل کی طرف ہوتاتھا،لیکن ایک مخصوص گروپ کے خلاف
بولنے والوں پر جس طرح پارٹی نے ناک بھنوئوں چڑھائی ہے،وہ ڈکٹیٹرشپ اورعدم
برداشت کی دلیل ہے ۔چاہے کیرتی آزادہوں،اڈوانی،جوشی ،شتروگھن
سنہا،بھولاسنگھ ہوں یاآرکے سنگھ جس نے بھی مودی امت شاہ اورجیٹلی کے مثلث
کے خلاف زبان کھولی،اس کی خبرلی گئی۔شکست کی ذمہ داری طے کرنے کی بات
ہویابدعنوانی پرلب کشائی کی،اس نظروں سے گرادیاگیا۔بہارمیں توپارٹی نے کسی’’
کرن بیدی ‘‘کوبھی تیارنہیں رکھاتھا،جس کے سرپرشکست کاٹھیکراپھوڑاجاتا،اس
لئے اس مثلث کے خلاف آوازاٹھنی فطری تھی ۔اس لئے اب اس جمہوریت کے سوال
پراس کے ترجمانوں کی بولتی بندہے۔اورپوراملک دیکھ رہاہے کہ سرکارکون
چلارہاہے ،جمہوری حکومت ہے یامخصوص گروہ کی ۔ کہا جاتا ہے کہ سیاست میں
کوئی کسی کا نہیں ہوتا۔ اپنی پارٹی کے وفاداربھی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ ڈی ڈی
سی اے الزامات میں جب ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے کیجری وال بنام
جیٹلی طعن وتشنیع کا بازار گرم ہے۔ ماحول کچھ اس طرح پراگندہ ہے کہ کیجری
وال کو اپنے وزیراعلیٰ ہونے پر بھی افسوس ہورہاہوگا کہ آخر ہماری بھی کوئی
اہمیت ہے کہ نہیں ۔ شیلا دکشت خود کو ابھی محفوظ سمجھ رہی ہوں گی کہ میں
15سالوں تک وزیراعلیٰ کے عہدے پر متمکن رہی لیکن کبھی بھی میرا راز سربازار
نیلام نہیں ہوا ۔ یہی راز کہ دہلی پولس پروزیراعلیٰ کا اختیار نہیں ہوتا،
یہی راز کہ پرسنل دفتر پر سی بی آئی چھاپہ مار سکتی ہے۔ یہی راز کہ عوام
جانتی نہیں ہے کہ دہلی کے وزیراعلیٰ کو کچھ بھی اختیارات نہیں ہوتے۔اوراتنے
بھی نہیں کہ وہ اپنے دفترجاسکے اوراس پرکچھ دیرکیلئے پابندی لگادی
جائے۔کیجری وال خود کو شاید کوس رہے ہوں گے میں کیوں اس بحر ظلمات میں کود
پڑا اور کودا بھی تو ایسوں سے کیوں ٹکر لی جوحقائق کو محض چھپانا ہی نہیں
بلکہ بزور بازو دبانا بھی جانتی ہے۔ جبھی تو سی بی آئی پرسنل دفتر پر
چھاپہ مار کر ڈی ڈی سی اے کی فائل کو چیک کرنے آرہی ہے۔ عوام کے ذہنوں میں
یہ بات پیوست تھی کہ سی بی آئی محض ایمانداری سے ہی کام کرتی ہے لیکن
کیجری وال کے دفتر پر چھاپہ اس بات کی طرح اشارہ ہے کہ نہیں الزامات کی
حقیقت کو بھی غائب کرنے کا کام کرنے لگی ہے۔ اور ڈی ڈی سی گھوٹالے کو قوت
کے بل ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ ہمارے ملک میں کرکٹ اور سیاستدانوں ہمیشہ
کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے، وہ لوگ جنہوں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی
بھی کرکٹ کے میدان میں قدم بھی نہیں رکھا لیکن جب وہ سیاست میں آئے اور
کچھ پوزیشن مضبوط ہوئی تو اپنے علاقے کے کرکٹ بورڈ کے صدر بن گئے۔ اس طرح
کی بے شمارمثالیں موجود ہیں، ایسا ہی کچھ معاملہ موجودہ وزیر خزانہ ارون
جیٹلی کا بھی ہے جو اپنے سیاسی اثر و رسوخ کی بنا ddca سے وابستہ ہوگئے،
اور ایک طویل مدت تک اس بورڈ سے جڑے ہوئے تھے، لیکن کرکٹ اورسیاستدانوں کا
جب چولی دامن کاساتھ ہو تو کرپشن کا وجود میں آنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں
ہے، ارون جیٹلی پر کرپشن کے الزامات منظر عام پر آئے تو ان کی پارٹی کے
دیگر افراد ماضی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس پر خاموشی اختیار کرلی،
اپوزیشن کے مطالبات کو پس پشت ڈال کر اپنی بات منوانے کیلئے مرکزی حکومت نے
اپنی طاقت کا استعمال کیا اور اپوزیشن پر ہی الزامات کی بارش کردی، حد تو
اس وقت ہوگئی جب ارون جیٹلی نے دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کے خلاف
ہتک عزت کا مقدمہ درج کروایا، سیاست میں آپسی الزامات عام بات ہے، عموما ً
ایک پارٹی کے لیڈران اپنی حریف پارٹی کے لیڈران پر الزام لگایا کرتے ہیں
لیکن اس کیلئے عدالت کا رخ کیا جائے یہ قیاس از بعید ہے، لیکن کہتے ہیں کہ
اگر کسی کی شامت آتی ہے تو اس کا دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور یہی کچھ
ارون جیٹلی صاحب کے ساتھ ہوا، لیکن ہندوستان میں اب بھی ایمانداری باقی ہے،
اور ایسے لوگ موجود ہیں جو ایمانداری کیلئے ہر طرح کی قربانی دینے کیلئے
تیار رہتے ہیں، ارون جیٹلی کے خلاف اپوزیشن والوں کو اس وقت مزید قوت حاصل
ہوگئی جب بی جے پی کے دربھنگہ کے ممبر آف پارلیمنٹ کیرتی آزاد نے کرپشن
کے خلاف آواز اٹھائی اور اس پر کارروائی کرنے کیلئے ہنگامہ کھڑا کیا،
کیرتی آزاد نے جس طرح جرأت کا مظاہرہ کیا ہے وہ یقینا قابل ستائش ہے،
لیکن اس بات کیلئے ان کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا گیا ہے وہ ہر انصاف پسند
شہری کیلئے لمحہ فکریہ ہے، کیرتی آزادکومحض کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے
کیلئے پارٹی سے معطل کردیا گیا ہے۔ کیا اب ہمارا ہندوستان اس حد تک پہونچ
چکاہے کہ اگر کوئی کرپشن کے خلاف بھی آواز اٹھائے تو اس کی آواز کو ہر
طرح سے دبانے کی کوشش کی جائے گی، کیرتی آزاد نے اپنی زندگی کے 22 سال بی
جے پی کے ساتھ گزارے ہیں، کیا اب سچ بولنے والوں کیلئے ہمارے ملک میں کوئی
جگہ نہیں ہے، کیا اب یہاں صرف کرپشن کا راج رہے گا، لیکن کب تک جھوٹ کے
سہارے عوام کو بیوقوف بنایا جائے گا، جس طرح کی کارروائی کیرتی آزاد کے
خلاف ہوئی ہے اس سے عوام میں بہت ہی غلط پیغام پہونچا ہے، اگر یقینا ارون
جیٹلی بے قصور ہیں تو انہیں جانچ کروانے میں پس و پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے،
یا پھر اس معاملے کو بھی گزشتہ واقعات کی طرح سرد خانے میں ڈال دیا جائے گا،
آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے وزیراعظم کسی بھی معاملے میں اپنی زبان کو حرکت
دینے سے گریز کرتے ہیں،کیا ان کے کابینی وزرائہر طرح کی جانچ پڑتال سے
آزاد ہیں، کیا ان کے خلاف اگر الزامات لگ رہے ہیں تو ان کے تفتیش کی کوئی
ضرورت نہیں ہے، اس طرح کے بے شمار سوالات ہیں جو موجودہ حکومت کو عوام کی
عدالت میں کھڑا کر نے کیلئے کافی ہے لیکن حکومت اپنی طاقت و قوت کے بل بوتے
پر سارے معاملات کو ختم کرنا چاہتی ہے جو نہ تو حکومت کے حق میں بہتر ہوگا
اور نہ ہمارے ملک کیلئے اچھا شگون ہے۔ کیرتی کو پارٹی سے آزاد کرنا اس بات
کی ہی طرف اشارہ ہے کہ ہم پوری قوت سے ایسے عناصر کو ختم کردیناچاہتے ہیں
جو حقائق بیانی سے کام لیں گے۔ کیرتی آزاد نے اپنی پوری زندگی بی جے پی کی
آبیاری کے لیے وقف کردی لیکن اس وفاداری کے صلہ میں انہیں معطل کردینا یہ
بی جے پی کو بھاری پڑسکتا ہے۔کیوں کہ بی جے پی میں ابھی کچھ ایسے لوگ ہیں
جوحقائق پر یقین رکھتے ہیں آج کیرتی آزاد ہوا ہے کل شتروگھن سنہا کو
آزاد کیاجائے گا۔بشن بیدی نے بھی جیٹلی کے خلاف آوازاٹھادی ہے اورایک
اورالزام لگادیاہے خبریہ بھی ہے کہ کیرتی آزاداوربشن بیدی کوڈی ڈی سی اے
سے بھی باہرکاراستہ دکھایاجائے گا۔یعنی بدعنوانی کاالزام جس پرلگے اس
پرکوئی کاروائی نہیں،بدعنوانی کے خلاف آوازاٹھانے والوں پرکاروائی ہوگی۔
لال قلعہ کی فصیل سے بدعنوانی اورکرپشن کوبالکل نہیں برداشت کرنے کا’’جملہ‘‘
بولنے والے وزیراعظم کب تک کرپشن کوچھپاتے رہیں گے۔دراصل وزیراعظم اپوزیشن
سے پاک ’’جمہوریت‘‘چاہتے ہیں،چاہئے وہ اپوزگھرکے اندرہویاکسی اورشکل میں
ہو۔سشماسوراج ،وسندھراراجے ،شیوراج سنگھ چوہان اورپنکجامنڈے پران کی پارٹی
کی مہربانی عوام دیکھ چکی ہے یہی پراسرارچپی بی جے پی کی نیا کو ڈبونے کے
قریب کردے گی کیوں کہ عوام اتنی بھی بیوقوف نہیں ہے جتنا اسے سمجھا جارہا
ہے اگر اتنی ہی بیوقوف ہوتی تو بہار سے ہار کا سہر ا نہ ملتا اور دہلی سے
جھاڑو پھیرنے کاابھیان نہ چلتا۔ |
|