پڑوسن فلم دیکھنے کے بعد ہم سمجھتے تھے کہ
ہمارا واسطہ زندگی میں صرف ۔۔ پڑوسن ۔۔سے پڑے گا۔ لیکن ہائے ری قسمت،
اندازہ نہ تھا کہ ہمارا واسطہ ایک پڑوسی سے پڑنے والا ہے۔
اب ایسی بات نہیں تھی کہ ہمارے نصیب میں پڑوسن نہ تھی۔۔ وہ تو تھی ۔۔،
پَرجو بات پڑوسی میں ہے پڑوسن تجھ میں وہ کہاں۔۔۔!
دیوار سے دیوار ملی تھی ۔۔۔ جب کئی پڑوسنوں کو بھگتانے کے بعد ہمارا ربط
ہوا ایک جرمن پڑوسی سے ۔۔!
عام گزرتے شب و روز میں اچانک تبدیلی آ گئی ۔ اس کا نام کافی لمبا اور
مشکل تھا۔ اس لیے ہماری زبان پر کبھی نہ چڑھ سکا۔ کبھی اس کے نام کے پہلے
حصے پہ غور کرتے کبھی آخری پہ۔۔، نک نیم اس نے بتایا نہیں تھا ورنہ اس سے
کام چلا لیتے۔۔(سو اس کی کوئی اور نشانی رکھ لی) پہلی بارجب اس نے دروازہ
کھٹکھٹایا تو ہم کچن میں کام کر رہے تھے۔ بٹر چکن، سبزی پلاؤ، نان، رائتہ،
سلاد۔۔ مینو صبح ہی بن چکا تھا۔ اس لیے ہاتھ تیزی سے کام میں مصروف تھے۔
سالن بنانے کے بعدنان کا آٹا گندھ چکا تھا۔چٹنی پیس لی تھی۔پلاؤ دم پہ
تھا، رائتہ بناکرہاتھ تیزی سے سلاد کاٹنے میں مصروف تھے۔ کبھی کبھی کھڑکی
سےباہر نظر جا رکتی۔دور تک نظر آتے لوگوں کے ذاتی گھر۔۔گاڑیاں،پھولوں بھرے
گارڈن اور ان کے بیچ میںسے گزرتی سڑک۔۔ رات بھربرستی بارش کے بعد ہر چیز
نکھر گئی تھی ۔ درخت، پھول، بوٹے اور بھی ہرے بھرے لگ رہے تھے۔بادل ابھی تک
کہیں کہیں آسمان پہ تیر رہے تھے۔موسم بڑا خوشگوار تھا اور موڈ بھی ،ریڈیو
پر اچھے اچھے گیت بج رہے تھے۔،
میں نے تیرے لیے ہی سات رنگ کے سَپنے چُنے
کچھ ہنستے کچھ غم کے،تیری آنکھوں کے سائے چُرائے
جب ماحول میں پہلا کنکر گرا۔۔!
گھنٹی بجانے کے ساتھ کسی نے ہاتھ سے بھی دستک دی۔ نل کھول کر جلدی سے ہاتھ
دھوئے اور ہپڑ دھپڑ میںکچن تولیے سے صاف کرتے ہوئےباہر کی اور قدم بڑھادیئے۔
دروازہ کھولنے پر اِک انجان حضرت کو سامنے کھڑے پایا۔ ہم نے سَرد اجنبی
سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا۔ شکر ہے پردیس میں مانگنے والے دروازے پر نہیں
آتے ۔البتہ کبھی کبھار چرچ والے پھیرا ڈال لیتے ہیں۔۔ یا ٹیلی فون سروس کی
کمپنیاں نئی پُرکشش پیش کش لے کر آن موجود ہوتی ہیں( ہمار ا ہوم ورک شروع
ہو گیا ۔۔!)
چرچ والا یا ٹیلی فون سروس والا ۔۔۔؟
تصور میں اسے پادری اور سیلزمین کے حلیے میں جانچنے کی کوشش کی۔ تو نہ جانے
کیوں اسکی شکل پادری سے ملتی لگی۔ پھر ہم نےاسکے سر پہ
پادری کے لباس کے ساتھ سفید ٹوپی فٹ کر دی تو کوئی گنجائش باقی نہ رہی۔ سو
اب ہم پادری کا لیکچر سننے کے لیے بالکل تیار تھے۔
تبھی اس نے اپنا نام بتا کر کہا،
"! میں آپ کا نیکسٹ ڈور نیبر۔۔"
(اچھا تو پڑوسی اور وہ بھی مذہبی)
" حال ہی میں یہاں شفٹ ہوا ہوں۔"
(پہلا گھر کیوں چھوڑا ۔۔۔؟
ہمسایوں کو تنگ کرکے تو نہیں آئے ۔۔؟
کہیں انھوں نے تمھارا پتہ صاف تو نہیں کروا دیا۔۔۔؟
غل غپاڑہ تو نہیں مچاتے تھے ۔۔؟)
امکانات کے سارے گھوڑے دوڑا لیے گئے ۔
اس نے پھر کہا،
"میں سنگل(اکیلا) ہوں ۔۔۔!"
(تو پھر۔۔؟)
"میں فلاں کمپنی میں اتنے سالوں سے جاب کررہا ہوں۔"
( کرنی بھی چاہیئے۔۔۔ ویلے رہ کر کیا کرو گے، مفت کی کھاؤ گے)
"میں ایک اچھا پڑوسی ثابت ہوں گا۔"
(ہونا بھی چاہیئے ورنہ ہم تمہارا ناطقہ بند کر دیں گے )
اس دوران ہم اس کا سر سے پاؤں تک جائزہ لیتے رہے۔۔اونچا لمبا چھ فٹ کے
قریب قد، نیلی بنٹے جیسی آنکھیں، سفید گلابی ملی جلی رنگت پٹ سن جیسے بال
اور کچھ بھاری بھر کم جسم۔۔،
( ہوں، تو حضرت کافی موٹے ہیں۔۔ہماری نظر اس کی موٹی توند پہ آ کر رک جاتی
۔۔ اللہ معاف کرے ۔۔ کھانے پینے کے کافی شوقین لگتے ہیں۔۔ اور ورزش سے عاری
۔۔! اس وقت رسمی گفتگو ہوئی۔ اس نے اپنا تعارف زیادہ دیا اور ہمارا کم لیا
(شکر ہے گوسپ، چٹپٹی سننے سے نابلد لگتا ہے) اب اس کے ساتھ کیسی جمے گی یہ
وقت بتائے گا ۔ ہم نے یہ سوچ کر دروازہ بند کردیا ۔ اگلا گانا شروع ہو
چکاتھا،
میرے دوَار کھڑا اِک جوگی( پڑوسی)
جرمن بڑے طریقے سلیقے کے لوگ ہیں۔۔ کم گو، آہستہ آواز میں بات کرنے والے،
کبھی کبھی تو لگتا ہے ان کے گھروں میں کوئی رہتا ہی نہیں ۔ صرف بھوت ناچتے
ہیں۔۔۔ سو اگر ایک اور بھوت کا اضافہ ہو گیا تھا تو زیادہ فرق پڑنے والا
نہیں تھا۔
تقریباایک ہفتہ بعد کی بات ہو گی جب عین دن کے بارہ بجے دروازے پہ دستک
ہوئی۔ دیکھا تو سِخر دوپہر پڑوسی کا دیدار ہوا ۔۔
(آہا پڑوسی ۔۔۔ خیر نال ؟ )
وہ ہاتھ میں ایک کپ لیے کھڑا تھا۔ کبھی ہم اسے دیکھتے اور کبھی کپ کو۔۔ اگر
وہ ہمارے لیے کافی، کاپوچینو بنا کر لایا ہوتا تو کپ بھرا ہوتا۔ لیکن اس کا
خالی پن ہماری نظروں سے سوالیہ نشان بن کر جھلک رہا تھا۔ پتہ چلا جناب لنچ
میں کیک بنا کر کے کھانے لگے تھے۔ دیکھا تو بٹر، گھی ندارد۔ سو وہ پڑوسی
ہونے کا فائدہ اٹھا کرچلے آئے تھے۔ ہم نے مسکراتے ہوئے کپ اسکے ہاتھ سے لے
لیا۔ دل میں پھلجڑی چھوٹ رہی تھی۔ اس نے وہ کام کیا تھا جو آج تک کبھی
دوسرے جرمن پڑوسیوں نے نہ کیا تھا۔
اِک نئے باب کا اضافہ ہو گیا تھا۔۔
اس نے مکھن کی واپسی کا ذکر کیا۔ جسے ہم نے فراخدلی سے یہ کہتے ہوئے رَد کر
دیا ۔
کوئی بات نہیں آپ ہمارے پڑوسی ہیں( ویسے کیک تو کھلاؤ گے نا ۔۔۔؟ اور ہاں
خبردار۔۔! اندر اَلا بَلامت ڈالنا)
(میرے دَوار کھڑا اِک پڑوسی
نہ مانگے سونا چاندی، مانگے بٹر فری
میرے دوار کھڑا ۔۔۔!)
وہ خوشی سے چمکتے چہرے کے ساتھ مکھن لے کر چمپت ہو گیا اور کیک بھی اکیلے
ہی کھا گیا۔۔ہم مفت میں مکھن دے کر کیک میں حصہ ڈال چکے تھے۔ شام کی چائےتک
کیک کا انتظار کیا۔ نہ آنے کی صورت جل کر سوچا۔
(اللہ کرے، کیک جل گیا ہو۔۔ کچا رہ گیا ہو ۔۔۔ تمھیں وہ مزہ نہ آیا ہو۔
سڑے بُسے منہ کے ساتھ اسے ختم کیا ہو۔۔یا تمہاری فرج میں پڑارُل رہا
ہو۔اُمیدِ واثق تو ہے کہ وہ تمہاری موٹی توند میں پہنچ کر اب چربی میں بدل
رہا ہو گا۔۔نِی)
اسکے بعد تو اک نیا سلسلہ چل نکلا۔۔ ایک اتوار کو اسکے گھر نمک ختم ہو گیا۔
بازار بند تو دکان بند۔۔ عذر قابل قبول تھا نمک کافی سستا ، ہم نے مسکراتے
ہوئے نمک کا چھوٹا پیکٹ اسے تحفے میں دے دیا(اللہ تمھارے گھر میں نمک سے
برکت ڈالے ۔۔ آمین ،کیا کرے بیچارہ۔۔۔ سِنگل، اکیلے دُکیلے کے گھر کا یہی
حال ہو تا ہو گا )
ایک اکیلا اس شہر میں رات اور دوپہر میں
آب و دانہ ڈھونڈتا ہے، ڈھونڈتا ہے
سن رائز ریڈیو بر محل گونج رہا تھا۔
اس کے بعد کبھی اس کے گھر میدہ ختم ہو جاتا، کبھی ایک دو پیاز کی ضرورت پڑ
جاتی۔ ہم ماتھے پر شکن ڈالے بغیر اس کے کام آ جاتے۔اب ہم اپنے گھر کے ساتھ
ساتھ اس کا گھر بھی چلا رہے تھے۔ زندگی میں رنگینی آ گئی تھی۔۔۔لین دین کی
۔۔!
کھانے پینے کی چیزوں کی حد تک تو ٹھیک تھالیکن ایک دن اس نے دس یورو بطور
قرض مانگ لیے۔۔ اس دن ہم پہلی بار چوکنے ہوئے(موصوف، کافی کھلے ڈلے لگتے
ہیں۔ کہیں یہ باقاعدہ مانگنے کے عادی تو نہیں۔۔؟)
ہم نے بغور اس کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کی۔ ہمیں اچنبھے کی حالت میں دیکھ کر
اس نے جلد رقم کی واپسی کا کہا،
(تو اور کیا۔۔۔رقم ! وہ تو تمھیں ہر صورت واپس کرنی پڑے گی ورنہ ہم تمھارے
دروازے پر لکھ کر لگا دیں گے، ہمارا قرضدار۔۔، نیچے اپنا نام ہم فخریہ
لکھیں گے)
مطلوبہ رقم انجان پڑوسی کو اللہ بھروسے دے دی۔
(خیر زیادہ بڑی رقم نہیں اگر اس نے واپس نہ بھی کی تو ہم خیر خیرات کے
کھاتے میں ڈال کر دلِ ناتواں کو تسلی پہنچا لیں گے)
(جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا
روکے زمانہ چاہے روکے خدائی
تم کو آنا پڑے گا)
اچھی بات یہ ہوئی کہ اس نے رقم حسبِ وعدہ واپس کر دی۔ ہم خوشی سے نہال تھے
کہ پڑوسی نے وعدہ نبھایا اور کسی برائی سے بچ گیا۔ اس کے بعد تو جیسے اس نے
ہمارے ساتھ بینک والا کھاتہ بھی کھول لیا۔۔ کبھی پانچ، کبھی دس اور ایک بار
بیس یورو تک قرض لے گیا۔۔ کبھی اسکا بنک بند ہوتا، کبھی اسے جلدی ہوتی
۔۔کبھی اس کی ٹرین چھوٹنے والی ہوتی۔ ہم اسکی ضرورت پوری کر کے پڑوسی کے
فرائض بخوبی نبھا رہے تھے۔
ایک دن گھر سے نکل رہے تھے کہ اس نے ہم سےتھوڑی سی ریزگاری مانگی۔۔ ریزگاری
اتنی کم مانگی تھی کہ ہم ندامت سے چُور چُور ہو گئے۔۔اپنا معیار اونچا
رکھتے ہوئے ہم نے ایک ہاتھ پر اسے درکار مطلوبہ رقم پچاس سینٹ(یورو کا
آدھا) اور دوسرے پر پانچ کا نوٹ رکھ کر لولی پاپ کی طرح اسے دکھایا کہ جو
لینا ہے لے لو ۔۔ ہم ہکابکا رہ گئے جب اس نے صرف پچاس سینٹ اٹھائے۔ پانچ
یورو کو نظر انداز کر دیا۔ اب کی بار بے اختیار ہمارے منہ سے خود ہی نکل
گیا کہ اسے واپس کرنے کی ضرورت نہیں۔
( اتنے تو ہم بآسانی شہر میں گانے بجانے والوں کے آگےاچھال دیتے ہیں۔۔
چندے کے ڈبے میں ڈال دیتے ہیں)
لیکن اس کی خودی کو شائد گوارا نہ ہوا۔۔ اگلے روز جب آشیانے کا درکھولاتو
دروازےکے عین بیچوں بیچ ایک سفید پلیٹ پڑی تھی جس کے درمیان میں پچاس سینٹ
کا سِکہ پڑا چمک رہا تھا۔ ہم نے جلدی سے آگے بڑھ کر اِدھر اُدھر دیکھ
کرسِکہ اُچک لیا۔۔ اس کی اس حرکت پہ جزبز ہو کر رہ گئے۔
(اگر کوئی اور دیکھ لیتا تو۔۔! کیا سمجھتا کہ وہ اپنا صدقہ اتار کر پیسے
ہمیں دے رہا ہے)
ہمیں لگا جیسے ڈور میٹ کی جگہ ہم زمین پر کپڑا بچھائے بیٹھے ہیں اور اس کے
آگےہاتھ پھیلا کر اسکی طرف بے بسی بیچارگی کی نظروں سے دیکھ رہےہیں۔
جوابااس نے ہماری حالت پہ ترس کھاتے ہوئے پچاس سینٹ کا سکہ کپڑے پہ اچھال
دیا ہے۔۔
(دل چاہ رہا تھا اسے لیکچردیا جائے کہ تمہارا پلیٹ میں پیسے سجا کر دینے کا
انداز ہمیں پسند آیا۔لیکن کیا تھا اگر دروازہ کھٹکھٹا کر پلیٹ ہاتھ میں دے
دیتے تو کیا ۔۔کیا قیامت آ جاتی!)
ایک روز اس نے کہا،
"ہفتے والے دن میرے گھر پہ رات کو پارٹی ہے۔ شورشرابہ ہو سکتا ہے۔ میوزک
اونچی آواز میں چلے گا۔۔ سوچا پہلے
سے بتا دوں۔۔تا کہ آپ بے آرام نہ ہوں۔"
( صدقے جاؤں۔۔ بے آرام تو تمہارے بتانے پر بھی ہو ں گے۔۔ تم تو مانگنے کے
ساتھ ناچنے گانے والے بھی نکلے، یہ شوق تو کلب جا کر بھی پورا کر سکتے تھے
)
پارٹی زور دار رہی۔ میوزک بھی اونچی آواز میں چلا۔ جرمنوں کے یہ رنگ ڈھنگ
ہم نے گھر بیٹھے دیکھ لیے۔۔(اب یہ اتنے بھی خاموش نہیں۔ صرف خول چڑھائے
رکھتے ہیں شائد) دل چاہ رہا تھا جوابا ہم بھی اونچی آواز میں میوزک چلا
دیں،
ساقیا آج مجھے نیند نہیں آئے گی
سنا ہے تیری محفل میں رتجگا ہے
پھرایک دو مہینے بعداُسے ایسا ہی اُبال اٹھتا اوروہ یونہی اپنی زندگی میں
پارٹی کے رنگ بھرتا ۔۔ ہاؤ ہو کرتا رہتا۔ پہلے سے آگاہ کر دیتا۔
کبھی اس کی سالگرہ ہے۔۔
کبھی دوستوں کو دعوت دی ہے۔۔
کبھی فلاں چیز کی پارٹی ہے کبھی ڈھمکاں کی۔۔!!
سن سن کر ہمارےکان پک گئے(کبھی اس بات کے لیے بھی پارٹی دیا کرو نا،آج
میری آفس میں میٹنگ تھی۔۔ آج دانتوں کے ڈاکٹر نے دانتوں کا معائنہ
کیا۔۔آج ایک نیا بِل آ گیا۔۔)
پارٹی اور میوزک چلتا رہا۔ آگے پیچھے بھی وہ اونچی آواز میں میوزک سنتا
۔۔اورکبھی کبھی خود ایک آدھ ساز (گٹار) بجا کر ایلوس پریسلے بن جاتا ۔۔
گھر میں کوئی مہمان آتے توکہتے،
"آپ کا پڑوسی تو بڑا زندہ دل انسان ہے۔"
( اللہ جانے زندہ دل ہے یا اپنے مردہ دل کو بہلا رہا ہے)
اسی طرح وقت گزرتا گیا۔۔ اس کے شوق ختم ہوئے نہ عادتیں ۔۔!
لین دین یونہی چلتا رہا۔چار پانچ سال گزر گئے۔۔
ایک روز گھر کے باہر مل گیا۔ سامنےبڑے اچھے موڈ میںچلا آ رہا تھا۔۔ہمیں
شرارت سوجھی اسے دیکھ کر بھی اَن دیکھا کر دیا اور اپنا بیگ کھول کر اس میں
جھانکنے لگے۔۔لیکن وہ سیدھا چلا آیا۔رسمی کلمات کے بعدکہنے لگا،
"اس ہفتے کو میرے گھر پر ایک بڑی پارٹی ہے۔۔!"
(ہاں ہاں، شور بھی ہو گا اور ہنگامہ بھی، میوزک بھی چلے گا اور پارٹی لیٹ
نائٹ چلے گی)ہم تیار تھے۔
اچانک وہ ذرا آگے بڑھ کر رازداری سے بولا،
"دراصل اس دن میری شادی کی پارٹی ہے۔۔اور میری شادی۔۔، " چمکتی مسکراتی
نظروں سے بات کا سسپنس بڑھاتے ہوئے ذرا دیر کو وہ رکا۔
"بہت مبارک ہو۔ " ہم نے بیچ میں جواب اچھال دیا، (وَنی، اب تو سنگل سے
دَنگل ہو گا،نِی)
"میری شادی۔۔، میری ایکس وائف سے ہو رہی ہے۔۔!! "اس نے بات پوری کی تواب
چونکنے کی باری ہماری تھی۔
" کیا۔۔؟" حیران نظروں سے اُسے دیکھا جو کسی بَنے کی طرح متوالا بنا کھڑا
تھا۔۔
"کیا تمھیں نئی بیوی نہ ملی۔۔؟ "(جرمن ہو کر)زبان پھسل گئی۔
بات سمجھ کر وہ خجالت سے مسکرایا ۔پھربالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا،
"وہ دراصل میری اپنی بیوی سےپانچ سال پہلے زبردست لڑائی ہو گئی تھی اس لیے
قِصہ تمام ہوا اور میں اس مکان میں اٹھ آیا۔اب ہماری صلح ہو گئی ہے اور ہم
دوبارہ شادی کررہے ہیں۔۔"
"ہمم، تو یہ بات ہے۔ کیا اسی گھر میں رہو گے یا یہاں سےشفٹ کر جاؤ گے۔۔؟"
"ہم ادھر ہی رہیں گے۔"
پارٹی زوردار رہی۔۔ہمارا خیال تھا لین دین کا کاروبار اتنا جم چکا ہے کہ اب
ایک کی بجائے دو کو بھگتانا پڑے گا۔۔شادی کی دعوت ملی لیکن ہم ایک میلاد
میںچلے گئے۔
شادی کو کئی روز ہو چکے ہیں۔۔
پڑوسی دوبارہ نظر نہیں آیا۔ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔ پتہ نہیں آنے والی
بَلاتھی کہ ڈائن، جس نے آتے ہی اُسے اپنے شکنجے میں جکڑ لیا۔۔ یا پھر وہ
اتنی خوبصورت تھی کہ پڑوسی دوبارہ اُس کی زلفوں کا اسیر ہو گیا۔۔
٭٭ ٭٭
|