تیری حق گوئی انہیں راس نہ آئی
(Rameez Ahmad Taquee, Delhi)
تیری حق گوئی انہیں راس نہ آئی |
|
آج ملک میں جس طرح کی بے اطمینانی اور بے
چینی کا ماحول ہے،ایسے میں کسی کواپنے مستقبل کے تعلق سے فکرمند ہوناکوئی
غیر فطری بات نہیںہے، بلکہ ان زلزال اورزہر گداز حالات میںایک انسان رات اس
طرح گذارتا ہے کہ اس کو یہ یقین نہیں رہتا کہ صبح کا سورج دیکھنا اس کے
مقدر میں بھی ہوگا یا نہیں اور جب سے ہندوستان میں بی جے پی نے اقتدار کی
کرسی پر قبضہ کیا ہے،یہ ملک معاشی اور معاشرتی دونوں سطح پر بڑی تیزی سے
تنزلی کی طرف بڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے، ملک کے سیاسی رہنماؤں کو ملک کی
معیشت سے کیا سروکار انہیں تو اپنی جیبیں گرم کر نے کی فکر دامن گیر ہے ،
اگر ان کی زندگی میں کوئی ریس ہے، تو اس بات کی ریس ہے کہ کون کتنا زیادہ
دنیا کے حصہ کو اپنے زیرِ نگیں کرتا ہے اور اس ریس میں ہمارے ملک کے وزیر
اعظم ہنوز آگے ہیں اور شاید نصف صدی تک کوئی ان کا یہ رکارڈ نہ توڑ سکے؛ان
حالات میں اگر کوئی ان کے اسفار پر تبصرہ کرے، یاان کی وجہ سے ملک میں
بڑھتی ہوئی عدم رواداری، فرقہ وارانہ کشیدگی،بدعنوانی اور مہنگائی پر اپنی
تشویش کا اظہار کرے، تو ان کے جبینوں پر سلوٹیں پڑناتو فطری بات ہے اور جن
لوگوں کو انہوں نے اپنی طرف داری کے لیے پال رکھا ہے ، اس پران کے کان تو
ضرور کھڑے ہونگے ، بس کیا تھا گذشتہ دنوں میں شارخ خان کے اس بیان پر میڈیا
میںکافی گرما گرمی دیکھی گئی، جب انہوں نے اپنے یوم پیدائش کے موقع پر
میڈیا کے لوگوں سے ملک کے موجودہ صور تِ حال پر گفتگوکرتے ہوئے کچھ اس طرح
اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ آج ہمارے ملک میں مذہبی عدم رواداری سے زیادہ
خطرناک کوئی چیز نہیں ہے، اگر ان حالات پر قدغن نہیں لگائے، تو یہ اس ملک
کو ایک بار پھر سے تاریکی میں ڈبو دیں گے؛تو جن لوگوں نے ملک کو تاریکی میں
ڈبونے کا خواب سجایا تھا، انہیں اس روشنی دکھانے والے کی بات راس نہیں آئی
اور سیاسی اور سماجی سطح پر ان کا بائیکاٹ کرنے کی مانگ کرنے لگے اور ہندو
نوجوانوں کو ان کی فلم بینی سے منع کیا جانے لگا ، ابھی ان کا یہ زخم مندمل
بھی نہیں ہوا تھا کہ فلمی دنیا کی ایک اور نابغۂ روزگار شخصیت اور روشن
ستارہ عامر خان نے پیر کے دن صحافیوں کے اعزاز میں منعقدہ رام ناتھ گوئنکا
تقریب میں ان تمام اہلِ دانش اور اربابِ قلم کی اوارڈ واپسی کی حمایت کی
اورملک کے موجودہ صورتِ حال پر تبصرہ کر تے ہوئے اپنی بیوی کے حوالہ سے یہ
بات کہی کہ ملک میں جس طرح کا میدان ہموار کیا جارہا ہے، اس تناظر میں میری
بیوی اپنے بچوں کو لے کر کافی فکرمند ہے، اسے یہ ڈر لگارہتا ہے کہ نہ معلوم
کل کو کیا ہوجائے ،اس لیے ہمیں ہندوستان چھوڑکر کہیں اور آباد ہوجانا
چاہیے؛ایک بار پھر سے مخالف کے خیمے میں آگ لگ گئی، ٹی وی چینلوں پر زبانی
جنگوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگیا، کچھ لوگ مخالفت پر اتر آئے اور
انہیں ملک کی بے عزتی کرنے والا ثابت کرنے کی ناکام کوششیں کرنے لگے،چاروں
طرف سے فقرے بازی کا بازار گرم ہوگیا ،بلکہ کچھ سیاسی رہنماؤں نے کرایے کے
مظاہرین کے ساتھ عامر خان کے گھر کا گھیراؤ بھی کرلیااور’’ عامر خان مردہ
باد‘‘ کے نعرہ لگانے لگے ۔اگر آپ بالکل غیرجانب دار ہوکر ان باتوں میں غور
کریں، تو آپ کو یہ احساس ہوگا کہ ملک کی بدامنی پر ان جیسی قدآور شخصیتوں
کااظہارِتشویش اگراس قدر فکر انگیز ہے، تو ملک کے لاکھوں مظلوم اقلیتوں کی
نگاہ میں اس عدم رواداری کا تصور کس قدر ہولناک اورڈراونا ہوگا؟
دراصل ان کی باتوں میں ایک حقیقت کا اظہار تھا، ملک کی بقاوسالمیت کی آواز
تھی، ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی عدم رواداری کے خلاف ماتم تھا، ملک کے طول
وعرض میں بسنے والے لاکھوں کروڑوں مظلوم اقلیتوں کے دل کی دھرکن تھی اور سب
سے بڑھ کر اس ملک کی جمہوریت کے دل کی پکار تھی اور اس ملک کے قانون کے
مطابق ہر شخص کو اظہارِ رائے کی مکمل آزادی حاصل ہے اوریہ بات صرف انہی کے
دل کی آواز نہیں ہے ، بلکہ ہر وہ شخص جو ملک کی سالمیت وبقا کا خواہاں ہے
یہ ان سب کے ضمیر کی آواز تھی،ان کی یہ بات تو آج کے حالات پر ایک ناتمام
تبصرہے،جبکہ ان سے بھی پہلے جب ۲۰۱۴ میں بی جے پی نے دہلی میں کمان
سنبھالاتھا، تواسی وقت کچھ تجزیہ نگاروں نے اپنی اسی تشویش کا اظہار کرتے
ہوئے کہا تھا کہ بی جے پی کی جیت دراصل ملک کی بقاوسالمیت اور اس کی
جمہوریت کو چیلینج ہے۔ اور حالیہ چند مہینوں میں ملک میں جگہ جگہ فرقہ
وارانہ تشدد اور بے قصوروں پر ڈھائے گئے ظلم وستم نے یقینا ان کی اس پیشن
گوئی کوسچ ثابت کردیا، یہاں تک کہ ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ کشمکش
اور مودی کی خاموشی پر بیرونِ ملک میںبھی چہ می گوئیاں ہونے لگیں ، چنانچہ
’’یو کے‘‘ کے ایک اخبار میں ایک مضمون شائع ہوا، جس میںمصنف نے ہندوستان
میں مرنے کو بدترین موت سے تعبیر کیا، نیز نیورک پوسٹ میں بیف بین کے حوالہ
سے کہاگیا کہ ملک(ہندوستان) میں مذہبی عدم رواداری کا حل بیف بین نہیں ہے،
یہی نہیں بلکہ جب براک اوباما نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا، تو اس وقت
انہوں نے مودی کو نشانہ بناتے ہوئے واضح انداز میں یہ کہاتھا کہ وہ فرقہ
وارانہ کشیدگی کو روکنے کے لیے چپی نہ سادھیں ، اسی طرح کے مشورے اوربرہمگی
کا اظہار ملک اوربیرونِ ملک کے بیشمار لوگوں نے اپنے اپنے اعتبار سے کیا ہے
،یہ اسی کا اثر تھاکہ گذشتہ چند مہینوں میںپچاس سے زائد ملک کے چوٹی کے
دانشور، اربابِ قلم، سائنس داں اور اداکاروں نے اعلیٰ حکومتی اعزازات
لوٹاکر اپنا احتجاج درج کروایا، اگر ان کے اظہارِ تشویش میں ملک کی بے عزتی
ہے، تو اس ملک کے وزارتِ عظمیٰ کے عظیم عہدہ پر فائز مودی نے سب زیادہ
ہندوستان کو رسواوبدنام کیا ہے، دنیا کے گوشہ گوشہ میں جس طرح انہوں نے خود
کو اورملک کو ذلیل و خوار کیا ہے، اس قدرپوری ہندوستانی تاریخ میں کسی نے
بھی نہیں کیا ہوگا ، جہاں جہاں گئے سیلفی کو لے کر موضوعِ بحث بنے رہے ،
بلکہ کئی ملکو ں میں تو بن بلائے مہمان بن گئے، جن میںآسٹریلیاکادورہ بھی
شامل ہے، ایک خاص ذرائع کے مطابق اس دورے میںانہوں نے دو دنوں تک
آسٹریلیائی وزیر آعظم کو فون کیا مگر اس نے فون اٹھانے کی زحمت نہیں کی
،آخری دن خود انہوں ہی نے ان کو ہوٹل میں کھانے پر مدعو کیا تاکہ ساتھ میں
سیلفی لے سکیں اور آپ کوایک چونکا دینے والی بات بتادوں کہ ان پورے ایام
میں آسٹریلیائی حکومت نے ہندوستانی وزیرآعظم کے قافلہ کو ایک کار تک نہیں
دیا، بلکہ انہیں خود سے اٹھائیس کاریں کیرائے پر لینی پڑیں ،کیا اس سے بھی
زیادہ بے عزتی کوئی کسی ملک اور اس کے وزیر آعظم کے ساتھ کرسکتا ہے؟ اور
اس بے عزتی کا ذمہ دار کون تھا؟ مگرصد افسوس کہ ان سب باتوں پر کسی کو کو
ئی تکلیف نہیں ہوئی، مگر وہیں اگر کسی مسلمان نے ملک کے میں پھیلتی بے
اطمینانی کے تعلق سے اپنی تشویش کا اظہار کیا ،تو ہر طرف سے ان کا محاصرہ
کیا جانے لگا، عوام بے دام اور یوگی جیسے بے لگام تو درکنار انوپم کھیر اور
روینہ ٹنڈن جیسے لوگوں نے بھی ان کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ، حیرت ہوتی
ہے جب اس طرح کے قابل لوگ جاہلیت اور بچکانے والی کی باتیں کرتے ہیں،بلکہ
دل انہیں ایک ذمہ دار شہری بتانے سے بھی گھبراتا ہے،یہ سچ ہے کہ جب
ہندوستان میں انگریزوں کا ناپاک سایہ پڑا ،تواس وقت بھی کچھ دانانے اپنی
اسی تشویش کا اظہار کیاتھا، تو ان بختوں نے ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ دیے
، یقیناوہ مجاہدینِ آزادی بھی انگریزوں کی آنکھوں کے تنکے تھے ، ان کی وہ
جرأت مندی اور حق گوئی ان سے نہ دیکھی گئی ،چونکہ آر ایس ایس اور بی جے
پی بھی انہی انگریزوں کے نمک خوار ہیں، اس لیے وہ بھی ضرور ان لوگوں کو
خاموش کرنے کی کوشش کریں گے، جو ملک میں پھیلتی ہوئی بدامنی اور فرقہ
وارانہ کشیدگی کے خلاف آواز بلند کریں گے، ان نیتاؤوں اور نام نہاد
دانشوروں نے ان سب آواز کے خلاف بیان دے کر اپنا موقف واضح کردیا ہے کہ وہ
ملک وفادارنہیںہوسکتے ، وہ تو ہندوتوا کے اس ایجنڈا کے طرفدار ہیں جو ملک
کو ایک بار پھر غلامی کی دہلیز کی طرف دھکیل رہا ہے ۔ |
|