پاکستان اور بھارت اب اگلے70سال کا سوچیں
(Faisal Farooq, Gujranwala)
میڈیا کے’’ بازی گر‘‘ ہوں یا پاکستان
اور بھارت کے نامی گرامی سیاسی پنڈت کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ
کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان پر گرجنے والی بھارتی وزیر اعظم یوں اچانک
پاکستان آپہنچیں گے اور پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف کی رہائش جاتی
عمرہ میں دونوں وزرائے اعظم کے درمیان ایک انتہائی خوشگوار ماحول میں
ملاقات ہوگی اور جب سوشل میڈیا پر بھارتی وزیر اعظم کی ٹویٹ کے بعد ٹی وی
پر نریندر مودی کی آمد کی خبریں دی گئیں تو بھارتی میڈیا کی مارے حیرت کے
چیخیں ہی نکل گئیں اور بھارتی اینکرز پر حیرت کے جیسے پہاڑ ہی ٹو ٹ پڑے
جبکہ پاکستا ن میں ایک دو حکومت ’’دشمن‘‘ چینل کے علاوہ دیگر چینلز نے اس
ملاقات پر مثبت رپورٹنگ اور تبصرے نشر کرنے شروع کئے فوری طور پر رد عمل
میں اپوزیشن لیڈروں عمران خان اور شیریں رحمان نے بھی اس ملاقات پر مثبت رد
عمل دکھا یا بعد میں عمران خان نے حسب روایت موقف پر پلٹا بھی کھایا اور
تنقید کے لئے ایک کاروباری شخصیت کے دونوں وزرائے اعظم کے درمیان رابطوں کو
بنیاد بنا لیا ، یوں بھی بدقسمتی سے پاک بھارت تعلقات کی تاریخ ہی ایسی ہے
کہ لڑائی لڑتے رہنے کے لئے ایک سو ایک وجوہات مل سکتی ہیں اور دونوں ممالک
کے درمیان سرحدی کشیدگی بھی معمول کی بات ہے لیکن وزیر اعظم نواز شریف کے
دو ادوار حکومت میں دوبھارتی وزراء اعظم پاکستان تشریف اس بات کی غماز ہے
کہ وہ نہ صرف خطے میں امن قائم کرنے اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی ختم
کرانے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ بھارت میں بھی حکومتی سطح پر ان کی
امن کوششوں کا مثبت رد عمل موجود ہے ، نریند رمودی سے پہلے سابق بھارتی
وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی بھی میاں نواز شریف کے قائل نظر آتے تھے جب وہ
بس پر سوار ہو کر مینار پاکستان آئے تھے اور پہلی بار پاکستان کو باقاعدہ
تسلیم کیا لیکن قسمت نے میاں نواز شریف کو موقع نہ دیا اس وقت کی عسکری
قیادت ان سے خفا ہوئی اور پھرکارگل برپا ہوا جس کے بعدانہوں نے حکومت
گنوائی اور خاندان سمیت جلا وطن ہوئے ۔نریندر مودی حالیہ دورہ ء پاکستان اس
لحاظ سے خوش آئند ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تنازعات اپنی جگہ موجود رہنے
کے باوجود اس سے کشیدگی واضح طور پر کم ہوئی ہے اور امن کی نئی امید پیدا
ہو گئی ہے ۔اب بھی پاک بھارت دوستی کی راہ میں بے شمار رکاوٹیں حائل ہیں
اور ایسے سنگین مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں جو دونوں ملکوں کے قریب آنے میں
رکاوٹ ہیں کشمیر کا مسئلہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا حل70سال پر محیط پاک
بھارت دشمنی کو دوستی نہ سہی لیکن امن اور آشتی میں ضرور بدل سکتا ہے،جو ٹی
وی اینکرز اور دانشور امن مذاکرات کی مخالفت اس بنیاد پر کرتے ہیں کہ دونوں
جانب سے بے شما رجانیں دی اور لی جا چکی ہیں وہ بتائیں کہ کیا ہم پچھلے
70برس کی طرح اگلے 70برس بھی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہی رہیں گے اور
لاشیں گراتے رہیں گے یا یہ کہ اپنے تنازعات ختم کر کے اپنے اپنے ملکوں کے
کروڑوں غریب عوام کوتعلیم ،صحت اور پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی سہولیات
کی فراہمی کو ممکن بنانے کی کوشش کریں؟ بھارت وزیر اعظم کا دورہ تپتی دھوپ
میں یخ بستہ ہوا کی مانند ہے خدا کرے اس اس سے محبت ،بھائی چارے اور امن کی
خوشبو پھوٹے اور دونوں ممالک کے عوام مستقبل میں لڑنے کی بجائے اچھے
ہمسایوں کی طرح ہنسی خوشی زندگی بسر کر سکیں ۔ |
|