نریندر مودی کا دورہ ’’اچانک‘‘ پاکستان۔۔۔ بھارتی اسٹیبلشنٹ کی کامیابی

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا پاکستان کا اچانک دورہ اتنا اچانک بھی معلوم نہیں ہوتا۔ بہت سے معاملات پہلے سے طے شدہ لگتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دو ملکوں کے وزراء اعظم کی ملاقات نہیں بلکہ دو دوستوں کی ملاقات تھی۔اچھی بات ہے کہ دو دوست آپس میں ملے اور اس تپاک سے ملے کہ بعض سفارتی آداب کو بھی پس پشت ڈال دیا۔اس اچانک ملاقات کو سمجھنا ہے تو میاں نواز شریف کی نواسی کی رسم حنا اور خود میاں صاحب کی سالگرہ کو بھی پیش نظر رکھنا ہو گا۔

نریندر مودی کا ایک خاص مزاج ہے کہ جب وہ دیگر ممالک کے وزراء اعظم اور صدور سے ملتے ہیں تو وہ سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھ کر پرانے دوستوں کی طرح گلے ملتے ہیں۔اگرچہ گلے ملنا اچھی بات ہے تاہم اس عمل کو سفارتی حلقے خلاف ضابطہ سمجھتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ گلے ملنے سے جو میڈیا اور عوام پر ملاقات کا تاثر جاتا ہے وہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اس میں ظاہری طور پر بہت زیادہ خلوص اور محبت نظر آتی ہے۔ نریندر مودی کی شخصیت کا ایک تاثر انتہا پسندانہ ہے اور اب ان کی شخصیت کا دوسرا تاثر بہت زیادہ محبت کرنے والے اور خلوص سے ملنے والے کا ابھر رہا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما کے دورہ بھارت کے موقع پر بھی نریندر مودی نے سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھ کر ان سے بغلگیر ہو کر دنیا بھر کو یہ پیغام دیا کہ امریکہ اور بھارت کی دوستی سفارتی آداب اور حدود وقیود سے بالا تر ہے۔دونوں رہنماؤں کے کئی بار گلے ملنے سے ایسا محسو س ہوا کہ شاید بھارت کی نظر میں امریکہ کا مقام و درجہ دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے بہت زیادہ ہے اور دوسری طرف امریکی صدر کی طرف سے یہ پیغام آیا کہ امریکہ کے لئے بھارت کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے۔ جس کا پاکستان ، ایران ، چین اور روس سمیت دنیا کے دیگر اہم ممالک نے نہایت باریک بینی سے جائزہ لیا تاہم یہ بھی سچ ہے کہ بعض معاملات پر امریکہ اور بھارت میں شدید قسم کے اختلافات بھی موجود ہیں۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اچانک یا منصوبے کے تحت لاہور آمد کے موقع پر بھی اپنا وہی رویہ اپنا یا اور اپنے ہم منصب وزیراعظم محمد نواز شریف سے پر تپاک انداز سے گلے ملے۔ وہ یوں بغلگیر ہوئے کہ گویا دونوں ممالک کے درمیان کوئی کشیدگی ہی نہیں، کوئی ناراضگی واختلافات ہی نہیں۔ ابھی کچھ عرصے پہلے تک ایسا محسوس ہوتا تھا کہ نریندر مودی کو پاکستان اور مسلمانوں کے نام ہی سے چڑ ہے لیکن اس ملاقات کے بعد ایسا لگا کہ جیسے مودی صاحب نے پاکستان اور مسلمانو ں کے حوالے سے اپنے عقائد، خیالات اور تفکرات میں بالکل ’’یو ٹرن‘‘ لے لیا ہے۔ ابھی کچھ عرصے پہلے ہی کی تو بات ہے کہ جب بھارتی قلم کار، شاعر، ادیب، سائنسدان اور دیگر اہم شخصیات بھارتی حکمراں جماعت کے ناروا رویوں اور انتہا پسندی کی سوچ و عمل کے پیش نظر اپنے ایوارڈ بھارتی حکومت کو واپس کر رہے تھے۔ پاکستان سے بھارت جانے والے ادکاروں اور کھلاڑیوں کے ساتھ بھارتی انتہا پسند جماعت آر ایس ایس کیا سلوک کر رہی تھی اور یہ تاثر باکل کھل کر سامنے آ رہا تھا کہ انتہا پسندی کے پیچھے بھارتی حکمراں جماعت کا ہاتھ ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری کی کتاب کی بھارت میں تقریب رو نمائی کے موقع پر تقریب کے منتظمین کے کا منہ کالا کر کے بھارتی ہندو انتہا پسندوں نے کیا سلوک کیا تھااور گائے ذبح کرنے کے الزام میں مسلمان نوجوان کو کس بے دردی سے قتل کیا گیا تھا اور سونے پر سہاگہ یہ تھا کہ نریندر مودی نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ آر ایس ایس اور ہندو انتہا پسندوں کی پالیسیوں کی کسی سطح پر بھی مذمت نہیں کریں گے۔ نریندر مودی کی انتہا پسندی کی پالیسوں اور اس کی سپورٹ کی وجہ سے بھارت میں روش خیال طبقہ اور مسلمان سمیت دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے دیگر بھارتی بہت زیادہ پریشان اور بے چین تھے۔ بھارت کا بین الاقوامی سطح پر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور ایک سیکولر ملک ہونے کا امیج بری طرح متاثر ہو رہاتھا۔ بھارت میں غیر ملکی انویسٹمنٹ میں کمی آنے لگی تھی ۔ اس تاثر کو توڑنے کے لئے بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے بین الاقوامی سطح پر بھارت کا امیج بہتر بنانے کیلئے نریندر مودی کو اپنی پوزیشن اور شخصیت کا تاثر بہتر بنانے کی ہدایت کی اور بھارتی ریاست ’’بہار‘‘ میں وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتی جنتا پارٹی کو جان بوجھ کر شکست سے دو چار کروایا گیا تاکہ بین الاقوا می سطح پر بھارت کا یہ تاثر بحال ہو سکے کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا اور نہ ہی ایکشن میں انتہا پسندی کی فکررکھنے والوں کا کامیابی حاصل ہوتی ہے۔مودی نے بھارتی اسٹبلشمنٹ کی ہدایت کے مطابق اپنا رویہ تبدیل کر لیا ۔ اسی تبدیلی کا ایک شاخسانہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کے دورے پر اچانک پہنچ گئے۔ پہلے بھارتی وزیر خارجہ شسما سوراج کا پاکستان آنا اور اب بظاہر اچانک بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا پاکستان آنا بھارتی اسٹبلشمنٹ کی بڑی کامیابی ہے۔ پاکستان بھارت پر ایک طویل عرصے سے مسلسل زور دے رہا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان ’’کمپوزٹ ڈائیلاگ ‘‘شروع کئے جائیں لیکن بھارت مذاکرات شروع کرنے کے حق میں نہیں تھا اس سے عالمی سطح پر اور اقوام متحدہ اور امریکہ کی جانب سے بھارت پر دباؤ میں اضافہ ہو رہا تھا اور بھارت کا چہرہ مسخ ہو کر دنیا کے سامنے آ رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ اور پھر وزیراعظم کا پاکستان آنا بھارت کا بین الاقوامی سطح پر چہرہ بہتر بنانے کی کوشش ہے ۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف کے بغلگیر ہونے سے یہ تاثر لینا غیر حقیقت پسندانہ ہو گا کہ اب برف پگھل رہی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان مسائل حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس قسم کے ’’گڈ ول جسچر‘‘ سے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر صورت حال بہتر ہو گی اور بے گناہ افراد کے ہلاکت کا سلسلہ تھم جانے کا امکان ہے لہذا ملنے جلنے اور مذاکرات کے ان سلسلوں کو جاری رہنا چاہیے۔
Riaz Aajiz
About the Author: Riaz Aajiz Read More Articles by Riaz Aajiz: 95 Articles with 62712 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.