کشمیر سٹیٹ پراپرٹی ،وفاقی وزارت امورکشمیر اور آزاد کشمیر حکومت!

کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی بدانتظامی اور فروخت کے معاملات میں کرپشن ، اقربا پروری اور اختیارات سے تجاوز کی صورتحال نیب کی تفتیش کیلئے ایک بڑا موضوع ہے۔ مناسب یہی ہے کہ کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا انتظام واپس آزاد کشمیر حکومت کو دیا جائے اور اس کی آمدن بھی آزاد کشمیر حکومت کو دی جائے۔ایڈمنسٹریٹر آفس میں ملازمت کا سب سے پہلا حق بھی کشمیریوں کو ہی حاصل ہونا چاہئے۔ کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی اس طرح کی صورتحال کشمیریوں کے پاکستان پر اعتماد کو نقصان پہنچانے کا باعث بھی ہے۔

تین سال پہلے میں نے پاکستان میں موجود کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کے بارے میں ایک رپورٹ تحریر کی تھی جس میں کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی تمام شہری اور زرعی جائیدادوں اور ان کی فروخت کی مکمل تفصیل دی گئی تھی ۔اس رپورٹ کو وسیع پیمانے پر پسند کیا گیا اور اس مو ضوع سے متعلق کئی سوال بھی اٹھائے گئے۔وفاقی حکومت یا کسی ادارے،محکمے نے اس پر ردعمل ظاہر نہیں کیا لیکن حیرت انگیز طور پر آزاد کشمیر حکومت یا آزاد کشمیراسمبلی میں بھی پاکستان میں واقع کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کے اس اہم معاملے کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا اور یوں خاموشی نظر آئی کہ جیسے یہ آزاد کشمیر کی کوئی ذمہ داری ہی نہ ہو۔وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے چند ماہ قبل آزاد کشمیر کے ضلع باغ کا دورہ کیا اور وہاں کشمیر کونسل کے اجلاس میں بھی شرکت کی۔اس موقع پر وزیر اعظم آزاد کشمیر چودھری عبدالمجید کونہ جانے کیا یاد آیا کہ انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف سے کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کے بارے میں کہا کہ آزاد کشمیر حکومت کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ پاکستان میں واقع کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی کیا صورتحال ہے۔ اس پر وزیر اعظم نواز شریف نے وفاقی وزیر امور کشمیر چودھری برجیس طاہر کو ہدایت کی کہ وزیر اعظم آزاد کشمیر کو کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کے بارے میں تفصیلات سے آگا ہ کیا جائے۔15دسمبر کو وفاقی وزیر امور کشمیر نے وزیر اعظم آزاد کشمیر کو کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کے بارے میں بریفنگ دینے کے لئے اجلاس طلب کیا تاہم عین وقت پر یہ اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔

ایڈمنسٹریٹنگ آف کشمیر پراپرٹی آرڈیننس 1961 ء کے تحت متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کی سٹیٹ پراپرٹی کا انتظام و انصرام آزادکشمیر حکومت سے لیکر وفاقی وزارت امور کشمیر کو دیا گیا۔ وزارت امورکشمیر لاہورمیں قائم ایڈمنسٹریٹر جموں کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کے دفتر کے ذریعے اس سٹیٹ پراپرٹی کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ ایڈمنسٹریٹر جموںوکشمیرسٹیٹ پراپرٹی لاہور کے مطابق 1947 ء میں آزادی کے بعد ریاست جموں وکشمیر کی جائیدادیں (یا مہاراجہ آف جموںکشمیر یا مہاراجہ پونچھ) جو ریاست جموںوکشمیر کی علاقائی حدود سے باہر واقع تھیں ، ان کا انتظام آزادحکومت ریاست جموں وکشمیر نے لے لیا اوراس سٹیٹ پراپرٹی کے قیام کیلئے منیجر قائم کیا۔ پنجاب حکومت نے اس کشمیر پراپرٹی کو متروکہ جائیدادتصورکیا۔ ایڈمنسٹریٹر آفس کے مطابق قانونی و انتظامی مشکلات کی وجہ سے آزادکشمیر حکومت نے جون 1955 ء میں حکومت پاکستان سے درخواست کی کہ وہ کشمیر پراپرٹی کا انتظام سنبھال لے۔ حکومت پاکستان ایڈمنسٹریٹنگ آف کشمیر پراپرٹی آرڈیننس 1961ء کے تحت کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ یوں 15 اگست 1947ء سے ریاست جموںوکشمیر ، مہاراجہ کشمیر و مہاراجہ پونچھ کی پاکستان میں واقع جائیدادیں حکومت پاکستان کے زیر انتظام قرار پائیں۔ وزارت امورکشمیر نے کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کے انتظام کیلئے لاہور میں ایڈمنسٹریٹر آفس ، معہ ضروری سٹاف ، ایکوپمنٹ ، ٹرانسپورٹ متعین کیا اور کوالیفائیڈ پروفیشنل منیجر کی خدمات حاصل کرتے ہوئے ایڈمنسٹریٹرکو مزید مضبوط کیا گیا۔

کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا زیادہ حصہ پنجاب اور کچھ خیبر پختونخواہ میں واقع ہے۔ پاکستان میں ریاست جموں وکشمیر کی کل شہری سٹیٹ پراپرٹی 1048 کنال تھی جس میں سے 468 کنال فروخت کردی گئی ہے۔ جبکہ اب 580 کنال پرمبنی جائیداد باقی بچی ہے۔ اسی طرح کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی کل زرعی اراضی تقریباًً 2426 ایکڑ تھی جس میں سے 462 ایکڑ فروخت کردی گئی اور اب 1974 ایکڑ باقی بچی ہے۔ کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی ان 35 جائیدادوں میں سے 14 جائیدادیں 1961 ء سے اب تک وزارت امورکشمیر کے خطوط پر مبنی اجازت کے ذریعے منظور نظر افراد کو فروخت کی جاتی رہی ہیں۔ کشمیرسٹیٹ پراپرٹی کی فروخت کردہ جائیدادوں کی مالیت کیا ہے ؟کس کس کو کتنے کتنے میں فروخت کی گئیں؟ اس بارے میں کوئی تفصیل موجود نہیں ہے۔ تعجب انگیز بات یہ ہے کہ آزادکشمیر حکومت کے پاس پاکستان میں واقع کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی کوئی تفصیل موجود نہیں ہے۔ آفس آف دی ایڈمنسٹریٹر کشمیر سٹیٹ پراپرٹی لاہور کی 2004-5 ء کے مالی سال میں آمدن تقریباًً 6 کروڑ روپے تھی جس میں سے 3 کروڑ روپے اخراجات ظاہر کئے گئے تھے۔ واضح رہے کہ اس کشمیر سٹیٹ پراپرٹی سے متعلق یہ جائیدادیں برائے نام کرایہ پر دی گئی ہیں۔

ایڈمنسٹریٹنگ آف کشمیر پراپرٹی آرڈیننس 1961 ء کا مقصد متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کے حتمی فیصلے تک پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں موجود کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا اچھا انتظام کرنا ہے۔ یوں وزارت امور کشمیر کی طرف سے کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی فروخت کا یہ سلسلہ حاصل مینڈیٹ کی سراسر خلاف ورزی اور قومی و ریاستی خزانے کو نقصان پہنچانے کے علاوہ کرپشن اور اقرباء پروری کے زمرے میں آتاہے۔ کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کے حوالے سے یہ بھی حیران کن امر ہے کہ اس کی آمدن آزادکشمیر یا پاکستان کے خزانے میں نہیں جاتی بلکہ صرف وزارت امور کشمیر کی صوابدید پر ہے۔ جبکہ آزادکشمیر کیلئے حکومت پاکستان کے منظور کردہ عبوری آئین 1974 ء کے تحت پاکستان میں کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا سبجیکٹ کشمیر کونسل کو دیا گیاہے۔ یوں آزادکشمیر کے عبوری آئین 1974 ء میں پاکستان میں واقع کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا سبجیکٹ کشمیر کونسل کو تفویض کئے جانے کی وجہ سے 1961 ء کا ایڈمنسٹریٹنگ آف کشمیر پراپرٹی آرڈیننس منسوخ کر دینا چاہئے (وزیراعظم پاکستان ہی کشمیر کونسل کے بھی سربراہ ہیں)۔وفاقی وزارت امورکشمیر نے جموں وکشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی دیکھ بھال کرتے ہوئے نصف کے قریب کشمیر سٹیٹ پراپرٹی فروخت کردی ہے اور خطرہ ہے کہ اگر یہ سلسلہ روکا نہ گیا اور کشمیر پراپرٹی کی حفاظت اور دیکھ بھال پر توجہ نہ دی گئی تو سیاسی نوازشوں کے طور پر کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی تمام جائیدادیں فروخت کر دی جائیں گی۔وزارت امور کشمیر پاکستان میں واقع اربوں روپے مالیتی کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی 468 کنال شہری اور 452ایکڑ زرعی اراضی فروخت کرچکی ہے ۔ فروخت کردہ کشمیر پراپرٹی کا کوئی حساب کتاب موجود نہیں ۔ وفاقی وزارت کو کشمیر پراپرٹی فروخت کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے ۔ نیب کیلئے کشمیر سٹیٹ پراپرٹی میں کی جانے والی کرپشن بڑا موضوع ہ۔ کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی کل 1048کنال شہری پراپرٹی میں سے اب صرف 580 کنال اور 2426 ایکڑ دیہی اراضی میں سے 1974 ایکڑ باقی بچی ہے ۔ آزادکشمیر حکومت کے پاس کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی کوئی تفصیل موجود نہیں ۔ آزادکشمیر حکومت کا مسلسل مطالبہ رہا ہے کہ کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا انتظام آزاد کشمیر حکومت کو واپس دیا جائے ۔کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا انتظام 1947ء سے1955ء تک آزاد کشمیر حکومت کے پاس رہا ہے ۔مہاجرین مقیم پاکستان مشکلات و مسائل کا شکار ہیں اور دوسری طرف کشمیر سٹیٹ پراپرٹی پر غیرریاستی باشندوں کی عیش کا سلسلہ جاری ہے۔

یہ بڑا سوال ہے کہ پنجاب اور صوبہ پختون خواہ میں واقع کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا یہ بڑا حصہ کس کس کو کس مالیت پر فروخت کیا گیا ، فروخت سے حاصل ہونے والی رقوم کہاں گئیں؟ ایک اطلاع کے مطابق سابق وفاقی وزیر امورکشمیر نے کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کے ایڈمنسٹریٹر آفس لاہور میں بڑی تعداد میں اپنے علاقے کے افراد بھرتی کئے۔ اس طرح کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی بدانتظامی اور فروخت کے معاملات میں کرپشن ، اقربا پروری اور اختیارات سے تجاوز کی صورتحال نیب کی تفتیش کیلئے ایک بڑا موضوع ہے۔ مناسب یہی ہے کہ کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا انتظام واپس آزاد کشمیر حکومت کو دیا جائے اور اس کی آمدن بھی آزاد کشمیر حکومت کو دی جائے۔ایڈمنسٹریٹر آفس میں ملازمت کا سب سے پہلا حق بھی کشمیریوں کو ہی حاصل ہونا چاہئے۔ کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی اس طرح کی صورتحال کشمیریوں کے پاکستان پر اعتماد کو نقصان پہنچانے کا باعث بھی ہے۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699958 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More