مودی کا دورہ پاکستان اور یخ بستہ کشمیر

 تفصیلات،توقعات اور برحق خدشات

دنیا اس وقت دنگ رہ گئی جب دو حریف ممالک ہندوستان اور پاکستان کے وزرائے اعظم26دسمبر2015ء کو ایک دوسرے سے لاہور میں بگل گیر ہو رہے تھے۔میڈیا اور تجزیہ نگاروں کو حیرت اس بات پر ہو رہی تھی کہ گذشتہ کئی سال سے ایک دوسرے کے خلاف تیز و طرار بیان داغنے والے اچانک کس طرح آپس میں شیر و شکر ہو کر ایسے ملے کہ گویا پہلے کچھ تھا ہی نہیں ۔بھارت اور پاکستان کی تمام ٹیلی ویژن چینلز’’مودی دورہ لاہور‘‘کو لمحہ بہ لمحہ کوریج دے رہا تھا ۔صحافیوں ،ڈپلومیٹس اور سابق سفارتکاروں کا سوشل میڈیاپر تبصروں اور واہ واہ کا سیلاب رواں تھااور حالت بالکل ایسی تھی جیسے بھارت پاکستان کے بیچ کرکٹ ورلڈ کپ میں کسی میچ پر ہوتی ہے ،میں نے کئی دوستوں سے بات کرنی چاہی تو جواب مل رہا تھا میں اس وقت ٹی وی دیکھ رہا ہوں بعد میں بات کریں گے میں اس بے اعتنائی پر حیران تھا کہ آخر نریندر مودی لاہور میں کیا کچھ کہنے یا کرنے والے ہیں ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق’’ نریندر مودی نے اپنے اچانک پاکستانی دورے سے سب کوحیران کردیا، انہوں نے ایسا کرکے اس بات کا واضح پیغام بھی دیا کہ وہ پاکستان کیساتھ منجمد کئے گئے تعلقات کو پھر سے استوار کرنا چاہتے ہیں،افغانستان میں پارلیمنٹ ہاوس کا افتتاح کرنے کے بعد دوپہر کوانہوں نے ٹویٹ کیا کہ وہ نواز شریف سے ملنے لاہور جارہے ہیں،وزیر اعظم کے ٹویٹ سے بھارت اور پاکستان میں ہلچل مچ گئی،انہوں نے ٹویٹ میں کہا کہ میں نے نواز شریف کو آج صبح فون کر کے انہیں انکی سالگرہ پر مبارکباد دی ہے اور میں دلی جاتے ہوئے ان سے لاہور میں مل رہا ہوں۔اسکے فوراً بعد بھارت اور پاکستان میں سیاسی ماحول گرم ہوا، اور ہر ایک شخص اس اچانک دورے پر تبصرے کرنے لگا۔نریندر مودی کا یہ پہلادورہ پاکستان تھا۔ وزیر خارجہ سشما سوراج نے وزیر اعظم کے اچانک دورہ پاکستان کے بارے میں کہا’یہ ہوئی سیاستدانوں والی بات، پڑوسی سے ایسے ہی تعلقات ہونے چاہیے۔26دسمبر2015ء کو سہ پہر تقریباً 4بجکر 22منٹ پر وزیرا عظم نریندرا مودی لاہور میں واقع اقبال انٹرنیشنل ہوائی اڈے پر پہنچے جبکہ انکے ہمراہ 120بھارتی حکام اور دیگر افراد پر مشتمل وفد بھی تھا۔ یہاں پہنچنے پر پاکستانی وزیرا عظم میاں نواز شریف نے نریندرمودی کا پرتپاک انداز میں استقبال کیا اور انہیں گلدستہ پیش کیا، جس کے بعد دونوں وزرائے اعظم بغلگیر ہوئے۔ا س موقعہ پر پاکستانی وزیرا عظم کے بھائی اورپنچاب کے وزیرا علیٰ شہباز شریف ، پاکستانی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور دیگر کئی وفاقی و ریاستی وزراء بھی موجود تھے۔ نریندرا مودی نے نواز شریف کی بزرگ والد ہ کے ساتھ بھی ملاقات کی جبکہ نواز شریف نے اپنے بھارتی ہم منصب کا اپنے افراد خانہ سے تعارف کرایا۔ مہمان نوازی کے فرائض انجام دینے کے بعد پاکستانی وزیرا عظم میاں نواز شریف اپنے بھارتی ہم منصب نریندرمودی کو ایک خاص کمرے میں لے گئے جہاں دونوں کے درمیان غیر رسمی مذاکرات ہوئے۔ ہند پاک وزراء ِاعظم کے درمیان تقریباً ایک گھنٹے سے زیادہ وقت تک بات چیت جاری رہی۔ ایک سفارتی آفیسر نے بتایا کہ میٹنگ کے دوران نواز شریف نے مودی سے کہا ’’بالآخر آپ آہی گئے۔‘‘ مودی نے جواب دیا، جی ہاں میں یہاں ہوں۔اسکے بعد نوز شریف نے کہا کہ آیئے، آپ ہمارے مہمان ہیں،چلیں میرے ساتھ ایک کپ چائے ہوجائے۔پھر دونوں کے درمیان میٹنگ ہوئی جس میں جامع مذاکراتی عمل کی بحالی ،بہتردوطرفہ تعلقات ،مسئلہ کشمیر،دہشت گردی اوردیگرکئی دوطرفہ وعلاقائی مسائل ومعاملات پربھی تبادلہ خیال کیاگیا۔

اس خبر کے میڈیا میں نشر ہوتے ہی دنیا بھر کے لیڈروں کے تبصرے بھی آنے شروع ہو گئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، امریکہ اور چین سمیت متعدد ممالک نے وزیر اعظم ہند نریندر مودی کے پاکستان کے اچانک دورے اور پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف کے ساتھ ان کی ملاقات کا بڑے پیمانے پر خیر مقدم کیا ہے۔اقوامِ متحدہ کے ایک ترجمان نے نیویارک میں صحافیوں کو بتایا کہ سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کی جانب سے مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ ’’خوش آئند‘‘ ہے۔انہوں نے کہا کہ سیکریٹری جنرل ہمیشہ ہی دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان تمام معاملات کا حل تلاش کرنے کیلئے پر امن مذاکرات کی بھرپور وکالت کرتے آئے ہیں اور انہوں نے دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کی ملاقات کو حوصلہ افزاء قرار دیا ہے۔امریکہ نے بھی اس اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ بات چیت کا عمل جاری رہنا چاہیے اور دونوں ممالک کے درمیان حالیہ رابطے حوصلہ افزاء ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے نامہ نگاروں کے ساتھ بات چیت کے دوران کہا’’ہم وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان ملاقات کا خیر مقدم کرتے ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات سے پورے خطے کے عوام مستفید ہونگے‘‘۔ان کاکہنا تھا’’ ہم چاہتے کہ پاکستان اور بھارت اپنے تنازعات مل کر حل کریں اور ان مسائل کا سفارتی حل تلاش کرنے کیلئے بات چیت جاری رکھیں جن کا انہیں تاحال سامنا ہے‘‘۔اس دوران چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لو کینگ نے کہا کہ چین بات چیت کا عمل جاری رکھنے اور آپسی اعتماد کو فروغ دینے کے اقدامات کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ترجمان نے کہا کہ چین دونوں ملکوں کا مشترکہ پڑوسی اور دوست ہونے کے ناطے اس اقدام کا خیر مقدم کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ جنوب ایشیائی خطے میں علاقائی امن، استحکام اور مجموعی ترقی کیلئے یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان دوستانہ تعلقا ت کا قیام عمل میں لایا جائے۔
کشمیر کے سبھی لیڈروں نے بھی اس دورے کا خیر مقدم کیا حریت چیرمین سید علی گیلانی ،میر واعظ عمر فاروق ،محمد یسٰین ملک اور جہاد کونسل چیئرمین سید صلاح الدین نے پاک بھارت مذاکرات اور دونوں ممالک کے وزراء اعظم کے حالیہ ملاقات کے حوالے سے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیری عوام کو پاک بھارت بہترتعلقات پر اعتراض نہیں لیکن یہ سب کشمیر کی آزادی کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے۔ اس دورے کے بعد مسلسل اس پر مختلف مضامین اور تبصرے شائع ہونے کا سلسلہ جاری ہے کہ’’ اچانک ‘‘اس دورے کی حقیقت کیا تھی؟براستہ روس افغانستان پہنچنے والے وزیر اعظم نریندر مودی کے ’اچانک‘ لاہور آنے کے اعلان نے سب کو ہکا بکا کر دیاکہ آخر بیٹھے بٹھائے انھیں کیا ایسی سوجھی کہ لاہور اترنے کا ارادہ کر لیا؟اس سے قبل ایک اور حیرت انگیز ملاقات ’’اوفا‘‘میں ہو ئی تھی وہاں بھی کسی کو توقع نہیں تھی کہ دونوں میں ملاقات ہوگی۔ خیال تھا کہ زیادہ سے زیادہ مصافحہ ہو گا، لیکن نہ صرف ہینڈ شیک ہوا، ملاقات ہوئی بلکہ تفصیلی مشترکہ بیان بھی سامنے آگیا۔اس سال جولائی میں اوفا کے اعلامیے کو دیکھ کر یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ یہ محض مختصر ملاقات کا نتیجہ تھا۔ جس انداز سے تعلقات کی بہتری کے لیے اہداف کی تعین کیا گیا تھا اس سے لگتا تھا کہ خاصی عرق ریزی ہوئی ہے۔اس کے بعد پیرس میں ایسا کیا ’اچانک‘ ہوا کہ دونوں رہنما ایک صوفے پر براجمان ہوئے اور دو پرانے دوستوں کی طرح کھسر پھسر کرنے لگے؟ کسی کو اس طرح کی ملاقات کی توقع ہرگز نہیں تھی۔اب کابل پہنچ کر ایسا اچانک کیا ہوا کہ دونوں وزرائے اعظم میں ایک اور ملاقات طے پا گئی؟بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق اس تمام معمے کے پیچھے ’بیک چینل‘ سفارت کاری کا کردار ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز نے جولائی میں و ضاحت کی تھی کہ اوفا میں جس ٹریک ٹو سفارت کاری پر دونوں ممالک کے درمیان اتفاق ہوا تھا دراصل وہ بیک چینل سفارت کاری ہی ہے۔ یہ رابطے بظاہر رنگ لا رہے ہیں۔ ’اچانک ملاقاتوں‘کی وجہ یہی بیک چینل سفارت کاری ہے۔

بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کے دورہ لاہور کو جہاں حکومتی جماعت اپنی سفارتی کامیابی قرار دے رہی ہے وہی ملک میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ وزیرِاعظم مودی اور ان کا وفد ویزہ لے کر پاکستان آیا تھا یا بغیر ویزہ کے؟حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر بھارتی وفد کو بغیر ویزے کے ملک میں داخل ہونے دیا گیا ہے تو یہ آئین اور ملکی خود مختاری کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس ساری بحث کا آغاز ایک مقامی ٹی وی چینل کے رپوٹر کی جانب سے اس بارے میں کی جانے والی اس رپورٹ کے بعد ہوا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’توبہ توبہ‘ بھارتی وفد بغیر ویزے کے پاکستان میں داخل ہو گیا ہے۔پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ نجم الدین شیخ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اگرچہ باہرسے آنے والوں کے لیے ویزہ ضروری ہوتا ہے، لیکن یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے کہ اگر کوئی غیرملکی لیڈر مختصر نوٹس پر آنا چاہ رہا ہے تو انھیں ویزے سے استثنا قرار دے دیا جائے۔‘نجم الدین شیخ کا مزید کہنا تھا کہ’ وزیراعظم کو یہ قانونی اختیار حاصل ہے کہ وہ وزارتِ داخلہ کو یہ کہہ سکیں کہ آنے والوں کو بغیر ویزہ کے ملک میں داخل ہونے دیا جائے۔‘سوشل میڈیا پر بھی اس بارے میں خوب بحث چل رہی ہے۔ ایک صارف کا اس بارے میں لکھنا تھا کہ ’سالگرہ کی سفارتکاری کے نام پر مودی نے پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی کی ہے۔کچھ کا کہنا تھا کہ 1970 ء میں جب ہینری کسنجر اسلام آباد کے راستے چین گئے تھے تو ان کے پاس بھی ویزہ نہیں تھا۔ایک صحافی نے اس پر تبصرہ کرتے ہو ئے کہا کہ جب امریکن اسامہ بن لادن کو مارنے ایبٹ آباد آئے تھے تو کیا ان کے پاس ویزہ تھا؟

اسی شور شرابے میں خاموشی سے بھارت میں سٹیل کے بڑے سرمایہ کار ساجن جندل نے بھی نواز شریف کی سالگرہ کے موقع پر اپنی لاہور میں موجودگی کا اعلان کیا۔ جندل خاندان کے جے ایس ڈبلیو گروپ کے چیئر مین اور مینیجنگ ڈائریکٹر ساجن جندل نے پاکستانی وقت کے مطابق نو بج کر نو منٹ پر ٹویٹ کی کہ ’وزیراعظم نواز شریف کی سالگرہ کی مبارکباد دینے کے لیے میں لاہور میں ہوں‘ جس کے ساتھ انھوں نے اپنی اور اہلیہ کی تصویر شائع کی۔اسی ٹویٹ کے تقریباً ایک گھنٹہ قبل کابل سے نریندر مودی نے ٹویٹ کیا کہ وہ دہلی جاتے ہوئے لاہور میں رک کر نواز شریف سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ بھارتی صحافی برکھا دت نے حال ہی میں شائع ہونے والی اپنی کتاب میں اس خاندان کے پاکستان بھارت تعلقات میں کردار کا ذکر کیا ہے۔ ان کے بقول مودی کی حلف برداری کی تقریب میں نواز شریف کے دورہ بھارت کے دوران نوین جندل نے نواز شریف کے صاحبزادے کی بھی دعوت دی تھی۔برکھا دت نے دورہ لاہور کے دوران ٹویٹ کی کہ’اندازہ لگائیں نریندر مودی کے علاوہ اور کون ہے لاہور میں؟ نوین جندل! نیپال میں سارک سربراہ کانفرنس کے دوران مودی اور نواز شریف کے دوران ایک گھنٹہ طویل خفیہ ملاقات بھی برکھا دت کے بقول جین جندل نے ہی کروائی تھی۔ لیکن برکھا دت کے اس دعوے کو دونوں ممالک نے بڑی شد و مد سے رد کر دیا تھا۔برکھا دت نے مزید لکھا تھا کہ ’نوین جندل ہیں جن کے توسط سے کھٹمنڈو میں سارک سربراہ کے موقع پر مودی اور نواز شریف کی ایک گھنٹہ طویل ملاقات ہوئی تھی۔بھارت کے درمیان سڑک کے راستے کھولنے اور اس میں پاکستان کے کردار اور بیک چینل سفارت کاری پر نو دسمبر کو بی بی سی اردو نے ایک فیچر ’تعلقات کی بحالی میں سٹیل کی سرمایہ کاری‘ شائع کیا تھا۔ پاکستان کے زمینی راستے سے گزر کر افغانستان اور اس سے بھی آگے وسطی ایشیا کی ریاستوں تک پہنچنا بھارت کا ایک دیرینہ خواب رہا ہے لیکن گذشتہ دس برس میں بھارت کے افغانستان میں بڑھتے ہوئے معاشی مفادات نے اس خواہش کو اور بھی شدید کر دیا ہے۔ دوسری جانب چند سال قبل سٹیل اتھارٹی آف انڈیا کی سربراہی میں قائم بھارتی کمپنیوں کے افغان آئرن اینڈ سٹیل نامی کنسورشیم نے جس میں جندل گروپ کے سب سے زیادہ شیئر ہیں، افغانستان کے صوبے بامیان میں خام لوہا نکالنے کی کامیاب بولی لگائی تھی۔یاد رہے کہ جندل گروپ بھارت میں سٹیل کے شعبے کے بڑے سرمایہ کار ہیں اور ان کا بھارت کے اقتدار کے ایوانوں میں بھی بڑا اثر و رسوخ ہے۔کانگریس پارٹی کے سینیئر رہنما منیش تیواری نے بھی نریندر مودی کے اس اچانک فیصلے پر تنقید کی اور کہا ہے کہ وزیراعظم کا لاہور جانے کا یہ فیصلہ اسی طرح کی ایک سفارتی غلطی ہے جو واجپئی کے لاہور دورے کے بعد کارگل کے روپ سامنے آئی تھی ۔

اس ساری صورت حال کے بیچ بعض خدشات نے یخ بستہ کشمیر میں جنم لیا ہے اور یہ خدشات برحق ہیں ۔حال ہی میں یہ خبر بھی سامنے آئی تھی کہ چین نے پاکستان پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ آزاد کشمیر کو ایک صوبہ قرار دیدیں تاکہ گیس پائپ لائین بچھانے کے راستے میں مشکلات اور اعتراضات کو کم کیا جا سکے ۔پاکستان اور بھارت کی مذاکراتی تاریخ پر اگر سرسری نگاہ ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ جب دو نوں ممالک کے دولتمندوں کی راہ میں کوئی بھی مسئلہ رکاوٹ ڈالدیتا ہے تو یہ حکمرانوں پر دباؤ بڑھا کر اس مسئلے کو ہی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں ۔نریندر مودی کی پاکستان سے محبت سے ساری دنیا واقف ہے ۔چند روز قبل بنگلہ دیش میں سقوط ڈھاکہ کی درد انگیز تصاویراور لاہورپہنچنے سے قبل کابل میں انتہائی تلخ بیان اس بات کی تائید کے لئے کافی ہیں کہ نریندر مودی نیک نیتی سے لاہور نہیں پہنچے بلکہ یہ ان کی ’’کارپوریٹس کی گذشتہ الیکشن میں فنڈنگ‘‘کے عوض احسانات کا بدلہ چکانے والی اس مہم کا حصہ ہے جس مہم کے پسِ منظر میں ’’جناب‘‘ملکوں ملکوں گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں، البتہ ایک تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ گیس پائپ لائین کے اشو نے خطے کے سبھی ممالک کو ’’مسئلہ کشمیر‘‘ کے ہوتے ہو ئے اس لئے پریشان کر رکھا ہے کہ اتنے بڑے پروجیکٹ اور اسی جیسے سینکڑوں تجارتی امکانات کے لئے دیر پا امن بہت ضروری ہے مگر کشمیر کا مسئلہ حکمرانوں اور خطے کے بڑے تاجروں کی نیندیں کبھی بھی اڑا سکتا ہے لہذا ایک احساس بڑ رہا ہے کہ اس مسئلے سے کسی طرح جان چھڑا لی جائے ۔کشمیری قوم کو خدشہ اس بات کا ہے کہ خطے کے بڑے ممالک اپنے مفادات کے خاطر شاید کشمیریوں کی قربانیوں کو نظر انداز کرکے مسئلہ کشمیر کوالتوا میں ڈالکر آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیں ۔جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کشمیریوں کی جدوجہد پر منفی اثرات مرتب ہو نا شروع ہو جائیں گے اور تحریک کشمیر کو ما لی اور تجارتی مفادات کے تحفظ کے خاطر بھارت کے ذریعے بالجبر دبانے کی خاموش رہ کر حمایت کرتے ہو ئے فاروق عبداﷲ کے منہ سے دلوائے گئے بیان پر عمل کیا جائیگا۔
altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 84164 views writer
journalist
political analyst
.. View More