گورنر صاحب بڑی شان سے اپنے سارے کام نمٹا
کر گھر سے نکلے۔ گھڑی دیکھ کر وقت کا اندازہ کیا،’’دیر ہوگئی، کوئی بات
نہیں جہاز تو کھڑا ہوگا، مجھے لیے بغیر کیسے جائے گا۔‘‘ ارے بھئی مرتبوں کی
شان دکھانے کا یہی تو موقع ہوتا ہے، اب اگر صاحب منصب بھی لائن میں لگے اور
وقت پر پہنچے تو منصب اور مرتبے کا کیا فائدہ۔
اور ان صاحب کی تو شان ہی الگ ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں اور
اب صوبے کی گورنری سنبھالے ہوئے ہیں۔ تو موصوف بڑی دھیرج سے اپنے سارے کام
نمٹانے کے بعد ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہوئے۔ تاخیر کے باوجود موصوف پورے طرح
مطمئن تھے کہ جہاز ان کے بغیر کہیں نہیں جاتا، آخر پائلٹ کو ہدایت جو کردی
گئی ہے کہ گورنر صاحب کو لیے بغیر مت اُڑنا۔
مگر پائلٹ کوئی بہ اصول شخص تھا، اپنی دُھن کا پکا اور کھرا، قواعدوضوابط
کا پابند۔ سو جب سابق چیف جسٹس اور موجودہ گورنر اکڑتے ہوئے بڑی شان سے
ایئرپورٹ پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ مسافروں کو سوار کرانے کے لیے لگائی
جانے والی سیڑھی ہٹالی گئی ہے اور جہاز پرواز کے لیے رن وے کی طرف رواں ہے۔
پائلٹ کو ہدایت کی گئی کہ وہ گورنر صاحب کو بٹھائے بغیر پرواز نہ کرے، مگر
اس نے ایک نہ سُنی اور طیارہ فضا میں بلند ہوتے ہوتے گورنر صاحب کی غصے سے
دہکتی آنکھوں سے بہت دور چلاگیا۔
نہیں نہیں، خوش نہ ہوں، یہ خبر پاکستان کی نہیں، ہم میں ابھی اتنی ہمت کہاں
کہ صاحب منصب لوگوں کے حکم سے انحراف کر سکیں۔ یہ عبرت انگیز واقعہ رونما
ہوا ہمارے ہم سائے ملک میں، جہاں ریاست کیرالہ کے گورنر سداشیوم کے شاہانہ
انداز پر ایئرانڈیا کے پائلٹ نے خاک ڈال دی۔
اس نوعیت کا ایک واقعہ ہمارے یہاں بھی ہوچکا ہے، جب کچھ مسافروں نے دیر سے
آنے پر دو وی آئی پیز، جن میں سے ایک ملک کے سابق وزیرداخہ تھے اور دوسرے
حکم راں جماعت کے رکن اسمبلی، کو جہاز میں داخل ہونے سے روک دیا تھا، تاہم
یہ ہمت مسافروں نے دکھائی تھی جہاز کے عملے نے نہیں۔
بھارت سے یہ خبر آنے سے کچھ دن قبل ہمارے یہاں اہل اقتدار کی شان وشوکت ایک
معصوم بچی کی جان لے چکی ہے۔ سندھ کی برسراقتدار جماعت کے سربراہ کی حفاظت
کے جنون میں ایک باپ کو اجازت نہیں دی گئی کہ وہ اپنی معصوم بیمار بچی کو
اسپتال لے جاسکے۔ وہ تڑپتا رہا، گڑگڑاتا رہا، بچی کی سانسیں اس کے ننھے سے
جسم میں ڈوبتی رہیں، مگر کسی کو رحم نہ آیا۔ آخرکار بچی نے باپ کی آغوش میں
آخری ہچکی لی اور دنیا سے چلی گئی۔ اس الم ناک واقعے کے بعد شدید ردعمل
سامنے آیا اور حکم راں جماعت کے لوگ اپنے چیئرمین کے پروٹوکول کے حق میں
جواز دیتے رہے۔
ابھی اس افسوس ناک واقعے اور ظالمانہ پروٹوکول پر فضا میں احتجاج اور ملامت
کی آوازیں گونج ہی رہی تھیں کہ ایک اور خبر سامنے آئی۔
کراچی کے علاقے ڈیفنس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے راہ نما اور قومی اسمبلی
میں قائدحزب اختلاف خورشید شاہ کے بیٹے کی دعوت ولیمہ منعقد ہوئی۔ ظاہر ہے
اس تقریب میں اہم شخصیات نے شرکت کی، جن کے پروٹوکول نے علاقے کے مکینوں کو
شدید مشکلات سے دوچار کردیا۔
خبر کے مطابق مقامی ہوٹل میں منعقد ہونے والی اس دعوت ولیمہ کی تقریب میں
اعلیٰ شخصیات کی سیکیوریٹی کے لیے ان کے ساتھ آنے والے پولیس کے اہل کاروں
نے شہریوں کی گاڑیاں رکوادیں، جس کے نتیجے میں بدترین ٹریفک جام ہوگیا۔ اس
ٹریفک جام کے نتیجے میں کسی مریض کی جان بھی جاسکتی تھی، لیکن اس کی کسے
پرواہ، صاحب لوگوں کی مقدس جانیں محفوظ رہنی چاہییں۔
یہ سفاکانہ اور سیاہ وی وی آئی پی کلچر نہ جانے کب سے ہم پر مسلط ہے اور
مختلف طریقوں سے عام آدمی کی زندگی اجیرن بنائے ہوئے ہے۔ کبھی اس کی وجہ سے
پروازوں میں تاخیر ہوتی ہے تو کبھی سڑک پر ہزاروں گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں
اس انتظار میں دیر تک کھڑی رہتی ہیں کہ کب کوئی صاحب منصب اور صاحب اقتدار
شخصیت اس راستے رے بہ حفاظت گزرے تو انھیں آگے بڑھنے کی اجازت ملے۔ اس وی
وی آئی پی کلچر نے ہمارے شہروں کی کتنی ہی گلیوں اور راستوں کو عام شہریوں
کے لیے بند کردیا ہے۔
کسی مہذب معاشرے اور ملک میں کوئی حکم راں اور منصب ومرتبے والا تصور بھی
نہیں کرسکتا ہے اس کی حفاظت کے لیے راستہ بند کردیا جائے گا، کئی جہاز اس
کی آمد پر ہی روانہ ہوگا، چاہے کتنی ہی دیر ہوجائے اور اس کے گھر اور اہل
خانہ کو محفوظ بنانے کے لیے اردگرد کی گلیوں اور راستوں کو عام شہریوں کے
لیے بند کردیا جائے گا۔ ایسا کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور قانون،
قواعد وضوابط سے خوف ناک انحراف شمار ہوگا، جس کی سزا منصب سے علیحدگی،
نااہلی، سزا اور معاشرے کی لعنت ملامت کے طور پر ملے گی۔
جہاں تک ہمارے ملک کا تعلق ہے تو ہمارے یہاں اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا
ہی نہیں جاتا۔ ہزاروں لوگ چند افراد کی وجہ سے سڑکوں پر گھنٹوں کھڑے رہتے
اور پریشان ہوتے ہیں، مگر کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوتی، طیاروں کی
پروازیں اعلیٰ شخصیات کی خاطر تاخیر کا شکار کردی جاتی ہیں، لیکن کوئی اس
پر آواز نہیں اٹھاتا۔ یہ تو لیاری سے تعلق رکھنے والی معصوم بچی بسمہ کی
ننھی سی جان کی قربانی ہے کہ اس ایشو پر شور مچا، اگر اس معصوم پری کی جان
نہ جاتی تو پروٹوکول دینے کے اس واقعے پر کون توجہ دیتا؟ اس حقیقت سے انکار
نہیں کیا جاسکتا کہ دہشت گردی کے جس ماحول میں ہم زندگی گزار رہے ہیں اس
میں سرکاری حکام اور اہم شخصیات کو سیکیوریٹی دینے کی ضرورت ہے، مگر عام
تحفظ عام شہری کے وقت، زندگی اور حقوق کی قیمت پر کیوں ہو؟ اس کا کیا جواز
ہے؟
ننھی بسمہ کی قربانی ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم آئندہ ایسے ہر پروٹوکول،
حفاظتی انتظام اور وی وی آئی پی کلچر کے ہر مظہر کے خلاف احتجاج کریں، تاکہ
کوئی اور بسمہ یوں سر راہ جان کی بازی نہ ہارے۔ |