آفات

دو سو سال قبل ایک تباہ کن دھماکے نے نہ صرف زمین کی آب و ہوا تبدیل کردی بلکہ آتش فشاں پہاڑ کے پھٹنے سے جہاں کثیر تباہی ہوئی وہیں لاکھوں انسانوں کو ان گنت بیماریوں میں مبتلا کیا اور ہجرت کرنے پر مجبور کردیا،یہ اُس صدی کا تباہ کن دھماکا تھا جس کے اثرات سے آج بھی دنیا متاثر ہو رہی ہے۔پانچ اپریل اٹھارہ سو پندرہ میں انڈونیشیا کے جزیرے جاوا پر ایک گرج دار آواز سنی گئی جزیرے پر تعینات برطانوی کالونی کے فوجیوں نے سوچا کسی بھاری توپ سے گولا داغا گیا ہے یا بحری قذاقوں نے حملہ کر دیا وہ سمجھ نہیں پائے کہ کس سِمت میں دھماکا ہوا اور کس نے کیا رات بھر وقفوں سے دھماکوں کا سلسلہ جاری رہا،حقیقت میں یہ دھماکے انڈونیشیا کے جزیرے سَمباوا پر تمبورا نامی آتش فشاں پہاڑ کے پھٹنے سے ہوئے،محقیقین کا کہنا ہے ان دھماکوں کی قوت ہیرو شیما پر گرائے گئے ایک لاکھ ستر ہزار بموں کے برابر تھی کئی دنوں تک آگ ،شعلوں ،راکھ اور گرم پتھروں کی بارش ہوتی رہی ہزاروں کی تعداد میں لوگ موت کا شکار ہوئے اور کئی بیماریوں میں مبتلا ہو کر قبل از وقت یہ دنیا چھوڑ گئے۔اب جا کر مورخین اور کلائی میٹو لوجسٹ کو مکمل طور پر معلومات حاصل ہوئیں ہیں کہ تاریخ میں سب سے زیادہ آفات اور دھماکوں نے انسان کے لئے کس قدر مشکلات پیدا کیں بالخصوص دو صدی قبل ہونے والے تباہ کن دھماکے نے موسمیاتی تبدیلی میں کتنا اہم کردار ادا کیا،محقیقین کا سوال ہے کیا ہم تاریخ سے کچھ سبق حاصل کر سکتے ہیں؟موجودہ دور میں موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلی پر اکثر و بیشتر کانفرنسسز ہوتی رہتی ہیں جو دستاویزات تک ہی محدود رہتی ہیں ،کیا موسمیاتی تبدیلی میں ہم اپنا فرض ادا کر رہے ہیں ،کیا کبھی کسی نے اس بارے میں سوچا کہ یہ آفات اور زمینی تبدیلیاں دنیا بھر میں بسنے والے اربوں انسانوں کے لئے کتنی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔

امریکی ثقافتی محقق گِلن ڈی آر سی ووڈ نے اپنی کتاب میں اٹھارہ سو پندرہ کے تباہ کن دھماکے اور اس کے اثرات پر تبصرہ کیا کہ اس دھماکے سے دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی پر گہرا اثر پڑا دنیا کے ہر خطے میں موسم پاگل ہو گیا یورپ اور شمالی امریکا میں موسم گرما کے وسط میں شدید برفباری ہوئی کئی علاقوں میں ہفتوں بھر لگاتار بارشیں ہوتی رہیں اور کئی خطوں کو خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا،ایک اندازے کے مطابق تمبورا آتش فشاں کے پھٹنے سے تینتالیس کلو میٹر بلندی تک آگ،شعلے اور گرم پتھر اڑتے رہے جس کے نتیجے میں سلفر ایرو سولز کئی علاقوں میں پھیل گیا ،آئی پی سی سی کے مطابق انہیں وجوہات کے سبب اٹھارہ سو اسی اور دوہزار بارہ کے درمیان گلوبل درجہ حرارت میں نمایاں اضافہ ہوآتش فشاں کی تباہی والے سال میں موسم شدید گرم رہا اور اٹھارہ سو سولہ سے تبدیلی رونما ہونا شروع ہوئی اس وقت جرمنی کے شہر بام برگ میں اچانک موسلا دھار بارشیں کئی ہفتوں تک جاری رہیں اور سیلاب آئے،نیو انگلینڈ اور کینیڈا کے کئی علاقوں میں موسم گرما میں برفباری ہوتی رہی جبکہ برطانیہ میں طوفانوں سے تباہی پھیل گئی تاریخ میں اٹھارہ سو سولہ کو بغیر موسم گرما کا سال قرار دیا گیا۔اٹھارہ سو سترہ کو بھوک کا سال کہا گیا کیونکہ کسانوں کو فصل اور کاشت کاری میں شدید مشکلات پیش آئیں اور خوراک نہ ہونے کی وجہ سے تمام یورپ میں دو لاکھ افراد بھوک سے موت کا شکار ہوئے،ہزاروں افراد نے یورپ سے ہجرت شروع کی کئی روس کی طرف نکلے اور کئی امریکا ،اٹھارہ سو سولہ اور اٹھارہ سو اٹھارہ کے درمیان تقریباً ایک لاکھ برطانوی امریکا کوچ کر گئے جبکہ جرمنوں نے ہمسایہ ملک ہالینڈ کی بندر گاہوں کا رخ کیا،سماجی بے چینی پھیل جانے سے لاکھوں افراد کو نقل و حمل میں شدید مشکلات پیش آئیں اور انسانی سمگلروں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ماہرین کا کہنا ہے خشک سالی یا سیلاب کے خلاف ہم آج بھی بے اختیار ہیں اتنی ترقی کے باوجود درست طریقے یا سو فیصد پیش گوئی نہیں کر سکتے کہ قبل از وقت وارننگ دے کر آگاہ کیا جائے کہ کب ،کہاں اور کتنا تباہ کن آتش فشاں پھٹے گا ،زلزے آئیں گے وغیرہ ،ہم آج بھی مکمل طور پر کسی قسم کی آفات سے بچنے کی تیاری نہیں کر سکے بھلے طبی لحاظ سے انتظامات مکمل ہیں لیکن آفات سے نمٹنے کا ابھی تک کوئی مکمل پلان تکمیل نہیں دے سکے،موسمیاتی تبدیلی کسی ایک خطے کو نہیں بلکہ دنیا بھر میں مختلف طریقوں سے انسانوں اور زمین کے لئے شدید خطرے کا باعث بن سکتی ہے مثلاً خلا سے کوئی بھاری پتھر اچانک زمین سے ٹکرا سکتا ہے اور خطرناک زلزلے کے باعث سمندر کا پانی سپر سونامی کی صورت اختیار کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں لاکھوں کروڑوں انسان موت کا شکار ہو سکتے ہیں۔
Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 246140 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.