اچانک ایسا کیا ہوا کہ نریندر مودی اپنی فوج ظفر موج کے
ساتھ اچانک نواز شریف سے ملاقات کرنے پاکستان کی سرزمین پر آدھمکے۔ نواز
شریف سے ان کا گرم جوشی سے معانقہ کیا گل کھلائے گا ،میاں صاحب کو سالگرہ
کی مبارک باد دی،ان کی والدہ کی قدم بوسی کی ، کھانا کھایا اور یہ جا اور
وہ جا۔ ان کا دورہ کیا تھا افغانستان کی جانب سے آنے والی سرد طوفانی ہوا
کا جھونکا تھا جو یکا یک پاکستان میں داخل ہوا ، سیاسی موسم کو وقتی طور پر
خوش گوار کر کے واپس چلتا بنا ۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے مودی سے اپنی
ملاقات میں ایسی کونسی بات کان میں کہہ ڈالی جو مودی کے دل کو ایسی لگی کہ
مودی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، اپنی کابینہ کو اعتماد میں لیا نہ ہی عسکری قیادت
کو اطلاع دی، تمام تر قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر افغانستان سے
واپس اپنے دیس جاتے ہوئے طیارے کے پائیلٹ کے کان میں خاموشی سے کہہ دیا کہ
سردار جی بس تھوڑی سے دیر کے لیے اپنے پرانے دوست سے معانقہ کر لوں جھپی
پالوں پھر چلتے ہیں اپنے دیس کو۔ اور ایسا ہی ہوا آئے بھی وہ گئے بھی، چرچہ
سارے زمانے میں ہوگیا۔ مقاصد کیا تھے؟ ایسی اجلت کیا تھی؟کسی کو دکھا نا
تھا؟ حاضری لگانا تھی، کسی سے کئے ہوئے وعدے کو پورا کرنا تھا، اوباما کو
یہ باور کرانا تھا کہ دیکھو میں نے اپنا وعدہ پورا کر دکھا یا، اشرف غنی نے
کوئی بات ایسی کہہ دی تھی کہ تم نے نواز شریف سے معانقہ کیے بغیر اپنے گھر
نہیں جانااسے پورا کر دکھایا۔یا کسی اور نے قسم دے دی تھی کہ دیکھو تم نے
افغانستان سے واپس اپنے دیس جانے سے پہلے پاکستان کی سرزمین پر اپنے قدم
ضرور رکھنا ہیں ورنہ آنے والے دن تم پراور تمہاری سرکار پر بھاری گزریں
گے۔ان جوتشیوں، عاملوں ، فعال نکالنے والوں ، ستاروں کا علم جاننے والوں کا
کوئی بھروسانہیں، بڑی شخصیات ان باتوں پر بہت یقین رکھتے ہیں، ہمارے سابق
صدر آصف علی زرداری صاحب کے بھی ایک پیر صاحب ہیں جو وہ کہہ دیتے ہیں
زرداری صاحب وہی کچھ کرتے ہیں۔ آج کل پیر صاحب نے اپنے ملک میں داخلے پر
پابندی لگادی ہے، خبر دار ادھر کا رخ مت کرنا مشکل میں پڑ جاؤ گے، تم سے
پہلے جو اُس مرتبہ پر فائز تھے جس پر تم پانچ سال براجمان رہ چکے ہو ان کا
حشر دیکھ رہے ہو، وطن کی محبت میں بہادری دکھائی ، دھر لیے گئے، اب بھنور
سے نکلنا مشکل ہورہا ہے۔زرداری میاں اگر تم نے بھی انہی کی پیروی کی تو
تمہارا بھی یہی کچھ انجام ہوگا۔اس لیے خبردار اور ہوشیار ادھر کا رخ ہر گز
مت کرنا۔ بڑے میاں صاحب کا کوئی بھروسہ نہیں، یہ اس مرتبہ میٹھی چھری بنے
ہوئے ہیں، خاموشی خاموشی میں وہ کچھ کررہے ہیں جن کا گمان بھی نہیں کیا
جاسکتا۔
دونوں کے درمیان نہ تو باقاعدہ ملاقات ہوئی، نہ پریس کانفرنس کی گئی اور نہ
ہی مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا۔ بہ ظاہر ایسا محسوس ہوا کہ جیسے چلتے چلتے
راستے میں اپنا گاؤں آیا، سوچا کہ چلو اپنے پرانے جاننے والوں سے ملاقات کر
تے جائیں اور ان کے ساتھ ایک کب چائے پی لی جائے تاکہ سفر کی تھکن بھی اتر
جائے ، اگلے پر احسان بھی ہوجائے گا،نام بھی ہوگا،چرجہ بھی۔ تا حال صورت
حال واضح نہیں ہوسکی ممکن ہے کہ آئندہ دنوں میں حقائق سامنے آجائیں۔مودی جی
سے خیر کی امید رکھنا حماقت ہوگی، جس نے پاکستان کو شروع دن سے قبول ہی نہ
کیا ہو وہ بھلا اب 68سال بعد کیا قبول کرے گا اور وہ بھی نریندر مودی جس کی
نس نس میں مسلمانوں سے اور پاکستان کے لیے نفرت ،کینہ ، عداوت کوٹ کوٹ کر
بھرا ہے۔ یہ دنیا دکھاوا تو ہوسکتا ہے، کسی کی آشیرواد حاصل کرنے کی وجہ
ہوسکتی ہے لیکن پاکستان کے لیے خیر خواہی ، بھلائی، اچھائی ہرگز نہیں
ہوسکتی ۔ چنانچہ مودی کے اس طوفانی دورے سے کسی کو بھی خوش فہمی میں ہر گز
نہیں رہنا چاہیے۔ زیادہ عرصہ نہیں ہوا ابھی چند مہینوں کی بات ہے بھارت کے
انتہا پسند اور شدت پسند ہندو ؤں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا،
کرکٹ ٹیم ، خورشید قصوری کی کتاب کی رونمائی ، ٹرک ڈرائیور جو گائیں اپنے
ٹرک پرلے جارہا تھا یہی اس کا جرم ٹہرا ، یا وہ بے قصور مسلمان جس پر گائیں
کا گوشت کھانے کا الزام لگا کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یہ واقعات
ہوتے رہے اور انہی مودی جی کو سانپ سونگھا ہوا تھا، انہوں نے تمام تر
واقعات پر چپ سادھ لی تھی، اپنے انتخاب میں انہوں نے مسلمانوں اور پاکستان
کے خلاف جو زہر اگلا کیا وہ سب بھلایا جاسکتا ہے۔ سشما سوراج بھی پاکستان
آکر خوش گپیا کر کے چلی گئیں ، یہ وہی سشما سوراج ہیں جو انتخابات کے دوران
کھانا کھانے اور پانی پینے سے پہلے پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کیا کرتی
تھیں ، زہر اگلا کرتی تھیں پھر کچھ اور بولا کرتی تھیں۔ یہ عالمی رہنماؤ ں
کا دباؤ یا پریشر ، اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا دینا ہے کہ جس نے مودی
سرکار کو پاکستان سے گفت و شنید پرمجبور کیا تاکہ دنیا کو دکھا سکیں کہ
دیکھو ہم تو امن پسند ہیں بات چیت پر یقین رکھتے ہیں۔ ہوگا وہی جو گزشتہ
68سالوں میں ہوتا آیا ہے۔
بھارت میں جب سے نریندر مودی سرکار آئی ہے پاکستان کے ساتھ سیاسی سطح پر
اور دونوں ملکوں کی سرحدوں پر کشیدگی نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ نریندر مودی
جب سے بھارت کے وزیر اعظم بنے ہیں بھارت کے شدت پسند دہشت گردوں نے بھارت
میں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف کاروائیاں تیز کردی تھیں، بھارت میں
ہندوانتہا پسندوں اور دہشت گردی کی کارائیاں اس قدر بڑھ چکی تھیں کہ ایسا
محسوس ہونے لگا تھا کہ پاکستان اور بھارت ایک بار پھر میدان جنگ میں آمنے
سامنے آجائیں گے۔ یہ تاثر بھی عام ہوچلا تھا کہ بھارت میں انتہاپسندوں اور
شدت پسندوں کو بھارت کے وزیر اعظم کی آشیرواد حاصل ہے۔ اس لیے کہ نریندر
مودی مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف ہونے والی کاروائیوں میں خاموش تماشائی
بنے ہوئے تھے۔ اس سے مودی جی کا ایک بڑی جمہو ری قوت کے سر براہ کی حیثیت
سے امیج گر رہا تھا، دنیا انہیں ایک سیاسی لیڈر کے بجائے انتہا پسند کے طور
پر پیش کرنے لگی تھی۔ اب اس تاثر کو کس طرح دور کیا جائے ، اس کے لیے انہوں
نے پیرس کانفرنس میں مختصر ملاقات کا ڈرامہ رچایا، پھر سشما سوراج کو راہ
ہموار کرنے کا ٹاسک دیا اور اب از خود پاکستان کی محبت یا خیرخواہی میں
نہیں بلکہ اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لیے ، امریکہ دباؤ کو دور کرنے
کے لئے انہوں نے یہ طوفانی دورہ کیا۔ جس سے کچھ اور حاصل ہو یا نہ ہو مودی
جی کو سیاسی طور پر کچھ سنبھالا ضرور مل گیا۔
نریندر مودی کا قیام پاکستان کی سر زمین پر صرف دو گھنٹے اور چالیس منٹ رہا
یعنی انہوں نے 4.22 پرلاہور کی سرزمین پر قدم رکھا اور ٹھیک دو گھنٹے چالیس
منٹ بعد 7.02پرپر واپس اپنے جہاز کی سیڑھی پر چڑھ گئے۔ اس مختصر سے وقت میں
نواز شریف سے جھپی ڈالی ،نواز شریف کی والدہ سے ملاقات، چھوٹے میاں صاحب سے
بھی بغل گیر ہوئے ، ان سے لمبی ملاقات کی خواہش کا اظہارکیا، نون لیگ کی
مستقبل کی لیڈر مریم نواز سے ملاقات کی، پسندیدہ وزیروں ، صفیروں سے مصافحہ
کیا، کیک کاٹنے کی تقریب میں شرکت کی، تحالٔف کا تبادلہ کیا ،نواز شریف کی
نواسی کی شادی کی مبارک باد دی، دوپہر کا کھانا کھایا ۔ مختصر سے شیڈول میں
اس بات کی کہیں گنجائش نظر نہیں آتی کہ دونوں ملکوں یا عوام کی بھلائی کے
حوالے سے دونوں رہنماؤں کے درمیان کسی بھی قسم کی کوئی بات چیت ہوئی ہوگی۔
کشمیر تو بہت دور کی بات ہے۔ دفتر خارجہ نے اس دورے کو خیر سگالی کا دورہ
کہتے ہوئے واضح کیا کہ نواز مودی ملاقات میں ملکر کام کرنے پر اتفاق کیا
گیا۔ بہت اچھی بات ہے اگر اتنی بات بھی ہوئی ۔ خدشات اپنی جگہ لیکن اس
طوفانی دورے سے اتنا ضرور ہوا کہ دونوں ممالک کے درمیان جو کشیدگی کی فضاء
کافی عرصہ سے قائم تھی اس پر کچھ گردپڑ گئی ، سیاسی موسم خوش گوار ہوگیا،
سرحدوں پر جو بلا وجہ کاروائیاں ہورہی تھیں ان میں کمی آئے گی، ہوسکتا ہے
کہ وہ بالکل رک جائیں۔ اس عمل کو جاری رہنا چاہیے۔ دونوں ملک کے عوام کی
بھلائی اسی میں ہے کہ دونوں ممالک کی حکومتیں اپنے تمام مسائل بشمول مقبوضہ
کشمیر کے مسئلے کو افہام و تفہیم سے ، گفت و شنید سے حل کر لیں۔ جنگ مسائل
کا حل نہیں، وہ تباہی و بربادی کا پیش خیمہ تو ہوسکتی ہے امن و سکون کا
باعث ہر گز نہیں ہوسکتی اور اب جب کہ دونوں ممالک ایٹمی قوت ہیں جنگ سے
گریز ہی دونوں ملکوں کے عوام کے مفاد میں ہے۔
سشماسوارج کے پاکستان آجانے سے، چکنی چپڑی باتیں بنا نے سے ، سرتاج عزیز کی
تعریف کردینے سے، نریندر مودی کے ڈرامائی انداز سے پاکستان آجانے سے دونوں
ممالک کے درمیان طویل عرصہ پو محیط کشیدہ تعلقات دوستی میں نہیں بدل جائیں
گے۔ اس سے پہلے بھی بھارت کے تین وزیر اعظم پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں۔
پاکستان کا دورہ کرنے والے وزیراعظم مودی چوتھے وزیر اعظم ہیں۔ حالات اور
واقعات یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان سے بہتر تعلقا ت بھارت کے مفاد میں ہیں۔
بھارت کو اپنی تجارت وسط ایشیا تک بڑھانے کے لیے پاکستان سے زمینی راستہ
درکار ہوگا، تاپی گیس منصوبہ دونوں ممالک کے لیے مفید ہے۔ کشمیر اصل میں
دونوں فریقین کے درمیان اصل وجہ ہے۔ اس کا کوئی نہ کوئی مستقل حل سامنے آنا
چاہیے اور وہ حل سوائے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے کوئی اور نہیں۔اسی میں
دونوں ملکوں کی بھلائی ہے اسی میں کشمیری عوام کی بھلائی ہے۔ |