۱۶ دسمبر ۱۲۰۲ کی شب ‘ جس میں انسانیت نے اپنی ایک بد
ترین تاریخ رقم کی ،وسنت بہار دہلی میں ایک طالبہ کے ساتھ دیر رات ہوئی
اجتماعی آبروریزی اور قتل کا وہ دل دوز سانحہ کون بھول سکتا؟جس نے پورے ملک
کو ہلا کر رکھ دیا، دنیا بھر میں ملک کی جگ ہنسائی ہوئی، مہینوں احتجاجوں
اور دھرنوں کا سلسہ جاری رہا ، مجرمین بھی جلد ہی گرفتار بھی ہوئے، مگر اب
تک لوگوں کو انصاف کا انتظارہے ۔اس معاملہ میں پولیس نے جن پانچ لوگوں کو
گرفتار ی کیاتھا،ان میں سے ایک تو جیل ہی میں خودکشی کر کے اپنی عاقبت کو
پہنچا، جب کہ چار ہنوز اپنی اپنی موت کی سزاؤں کے خلاف اپیلں کر رہے ہیں،
اتفاق سے ان پانچوں کے علاوہ ایک نام نہاد نابالغ بھی مجرم ثابت ہوا، جس پر
۲۸ جنوری ۲۰۱۳ کوجے جے پی نے اپنے فیصلے میں مقدمہ چلانے سے انکار
کردیاتھا،مگر ۳۱ اگست ۲۰۱۳ کو قتل اور عصمت دری کا قصوروار قرار دیتے ہوئے
عدالت نے اس کو تین سال کی اصلاحی جیل میں قید کرنے کی سزا سنائی ، مگر
ابھی اس کی سزا یا اصلاح کی وہ مدت پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ سپریم کورٹ
نے نابالغ مجرم کی رہائی مخالف درخواست مسترد کرتے ہوئے اتوار کی شب میں اس
کو بری کردیا،جس سے نربھیا کے والدین اور دیگر انصاف کی امید رکھنے والے کے
دلوں پر غم واندوہ کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، متاثرہ کی ماں نے ا س کو انصاف کا خون
قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب ملک میں انصاف نہیں ہے اور اس کے والد نے کہا کہ
مجھے شروع ہی سے یہ معلوم تھا کہ کچھ نہیں ملے گا!تاہم لوگوں نے اس فیصلے
کے خلاف بھرپور احتجاج درج کروایا، مگر جسٹس اے کے گوئل اور جسٹس یو یو للت
پر لوگوں کے ان احتجاجوں اور دہلی خواتین کمیشن کی درخواست کا کوئی اثر
نہیں ہوا اور انہوں نے یہ کہتے دہلی خواتین کمیشن کی رہائی مخالف درخواست
کو رد کردیا کہ کس قانون کے تحت مجرم کو مزید جیل میں رکھا جائے؟ اور اب یہ
بات بھی سامنے آرہی ہے کہ مجرم چونکہ جرم کے وقت نابالغ تھا ، اس لیے اب اس
کے تمام تر رکارڈ اور اس کی شناخت کو ختم کردیا جائے گا۔
یہ حادثہ چونکہ دہلی میں رونما ہواتھا،لوگوں نے اروند کیجریوال کوبھی آڑے
ہاتھوں لیا،بلکہ کچھ وہ لوگ جو گذشتہ دنوں اروند کیجریوال کے آفس میں سی بی
آئی کی کاروائی کی بنا پر بی جے پی کی مخالفت اور کیجریوال کی موافقت میں
بول رہے تھے ،اب ان کی حکومت پر سوالیہ نشان لگاتے نظر آرہے ہیں ،یہاں تک
کہ ٹوئیٹر پرگیری نام کے ایک شخص کی ٹوئٹ نے اس وقت مزید ہنگامہ بر پا
کردیا،جب اس نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ اگر کوئی سترہ سے اٹھارہ سال کی عمر
کا لڑکاارویند کیجریوال کی بیٹی کا ریپ کردے، تومیں اس کو ایک لاکھ نقدی
اور ایک نئی موٹرسائیکل گفٹ دوں گا۔یہ ایسی بات تھی جس پر ہنگامہ کھڑانہ
ہوناناممکن تھا،’’اس کو گرفتار کرو، اسے ایسی باتیں نہیں کہنی چاہیے، عجیب
بیہودہ گوئی ہے ‘‘الغرض بے شمار لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں غم وغصہ کا
اظہار کیا ،تاہم وہ شخص اپنا اکاؤنٹ بند کرکے غائب ہوگیا۔لیکن اس نے جو بات
کہی ہے اگر اس کے مثبت پہلو پر غور کریں، تو اس کا ایک مطلب یہ بھی نکل
سکتاہے ، کہ نربھیا کے والدین کے درد کا احساس کیجریوال کو کہاں ہوسکتا ہے،
اگر کوئی لڑکا ان کی لڑکی کا ریپ کردے ، تب ان کواحساس ہوگا،پھر وہ جذباتی
انداز میں کچھ اور کہ گیا، لیکن اس کا منفی پہلو یقیناًتباہ کن اور غیرذمہ
دارانہ ہے کہ وہ علی الاعلان کسی کو کسی کے قتل اور اس کی عزت وآبرو برباد
کرنے پر اکسا رہا ، جویقیناکسی ذمہ دار انسان کا عمل ہوہی نہیں سکتا، البتہ
ہمارے لیے یہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ اس کیس میں دہلی حکومت کی کتنی اور
کیا غلطیاں ہیں؟کیونکہ مجرم کی رہائی کے خلاف دہلی خواتین کمیشن کی درخواست
کو سپریم کورٹ نے مسترد کیا ہے، جوکہ آزاد بھارت کی آزاد عدلیہ ہے ،نہ کہ
دہلی ہائی کورٹ نے، توپھر دہلی حکومت کو کوسنا یا اس کو ذمہ دار ٹھہرانا
کہاں کی دانش مندی ہوگی، اگر ہمیں یہ لگتا ہے کہ نہیں‘ یہ دہلی حکومت ہی کی
ساری کارستانی ہے، تو بھی اروند حکومت کو بہت زیادہ قابل ملامت نہیں سمجھا
جا سکتا، کیونکہ دہلی میں عام آدمی پارٹی کی حیثیت مرکزی حکومت کی دربانی
سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے، اس کے پاس نہیں تو پولیس ہے اور نہ ہی دوسرے
صوبوں کے مقابلہ میں زیادہ کوئی اختیارات! لیکن چونکہ مرکز میں بی جے پی کی
حکومت ہے، تو پھر کوے کو ملامت کرنے سے قبل کان ٹٹولنے کی زیادہ ضرورت ہے،
کیونکہ اس حکومت میں سب کچھ ممکن ہے، مجرم منصف بھی بن سکتا ہے، بلکہ ملک
کا قائد بھی بن سکتا ہے، چنانچہ ۲۰۰۲ میں جب گجرات میں فرقہ وارانہ فساد کی
آگ لگی،تو ہزاروں بوڑھے، نوجوان اورمعصوم بچے اس کے ایندھن بنے ، سیکڑوں
عزت مآب عورتیں اوردوشیزائیں اپنی عصمت و عزت کی دہائی دیتے ہوئے موت کے
گھاٹ اتار دی گئیں، بدلہ میں مجرم کو کلین چیٹ پر چیٹ ہی نہیں بلکہ عالمِ
جمہوریت کے عظیم جمہوری ملک کا وزیرآعظم بننے کا بھی شرف حاصل ہو ا! امیت
شاہ ‘جن کو گجرات فسادکے بعد گجرات میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی تھی،
مگر انہیں بی جے پی کی صدارت نصیب ہوئی اور اب وہ پابندی بھی نہیں رہی! یہ
تو بہت اونچے لوگوں کی باتیں ہیں، سپریم کورٹ کے جس جج نے امیت شاہ کو قتل،
اغوا، جعل سازی اور تڑی پار جیسے سنگین جرم میں کلین چیٹ دیے تھے، صرف سات
دن بعد ہی انہیں کیرل کا راجپال بننا نصیب ہوا اور جس وکیل نے ان کا کیس
لڑاتھا‘ آج وہ سپرم کورٹ کے جج ہیں، اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ ہماری عدلیہ کس
قدر جرم و ظلم کے مخالف اور انصاف پسند ہے؟ اس لیے اگر کسی پر انگشت نمائی
کرنی ہے، توبی جے پی اس کی زیادہ حق دار ہے، نکتنہ چینی کرنی ہے،
توہندوستانی عدالت پر کریں،جس نے مجرم کو نابالغ قراردے کر، اس پر مزید
مقدمہ چلانے سے انکار کردیا، کیونکہ اگر وہ اتنا ہی نابالغ تھا، تو اس نے
اس جیسا شرمناک کام انجام دیاہی کیوں؟ کیا وہ مجرم اتنا بھی چھوٹا تھا کہ
اس کا کوئی بھی جرم لائقِ اعتنا نہ ہو؟کیا اس کو یہ احساس نہیں تھا کہ جو
وہ کررہا ہے وہ صحیح ہے؟ بلکہ جب وہ زنا کے لیے خود کو اس قابل سمجھ لیا،
تو پھر نابالغ رہا ہی کہاں؟اگر اس کو نابالغ مان بھی لیا جائے ،تو گو وہ اس
وقت نابالغ تھا، مگر اب تو وہ بالغ ہوچکا ہے، اس پر بالغ کے احکامات نافذ
کیے جائیں، اس لیے کہ عمر کے بڑھنے سے جرم کبھی کم نہیں ہوتا، بلکہ جرم تب
بھی وہی رہتا ہے جب مجرم جرم کرتا ہے،مجھے اپنے ملک کے ان ججوں کا وہ جملہ
اچھی طرح یاد ہے جب انہوں نے یعقوب میمن کو پھانسی کی سزا سناتے وقت کہا
تھا : ’فیصلہ گو تاخیر سے ہو، مگر ہمیں فیصلہ دیتے وقت اس وقت کا خیال کرنا
چاہیے جب مجرم نے جرم کیا تھا‘اس معاملے بھی تو وہی ہونا چاہیے؟اورجب اس کا
جرم بھی اس قدر انسانیت سوز ہے، تو پھر عدلیہ اس پر اس قدر مہربان کیوں؟
حقیقت ہے کہ پچھلے کچھ سالوں سے ملک کی عوام کا یہاں کی عدلیہ سے اعتماد
اٹھتا جارہا ہے،کئی معاملوں میں ہمارے ججوں نے انصاف کا خون کیا ہے، اگر
یہی حالت رہی تو ہمارا یہ ملک ایک دن ظلم کی بھٹی بن جائے گا اور اس کے
ایندھن صرف مجبور اور مظلوم ہی نہیں ہوں گے، بلکہ ظالم بھی اس کے ایندھن
بنیں گے۔ ملک کا قانون ہمیشہ غیر جانب دارانہ ہونا چاہیے ، ورنہ ہمارے
انصاف کا یہ ترازوصرف گھرکاترازو بن کررہ جائے گا۔ |