کیا نریندر مودی واقعی اچانک آئے؟

لیکن ان تمام گرما گرم خبروں کے بعد بھی نہ جانے میرا ذہن اس بات کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھا کہ نریندر مودی صاحب جاتی امرا تشریف لے جائینگے ہاں ملاقات ضرور ہوگی لیکن لاہور ائیرپورٹ پر ہی کیوں کہ ائیرپورٹ سے باہر آنے کے لیئے کئی امیگریشن قوانین حائل ہونگے

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا کابل سے واپسی پر ٹیوٹرپر پیغام پاکستانی نیوز کی بریکنگ بن گئی ہر چینل ٹیوٹر کے پیغام کی بات کررہا تھا اور نریندر مودی صاحب کو یہ پیغام میں خود بھی ٹیوٹر پر دیکھ چکا تھا لیکن جس وقت میں نے دیکھا تو اس میں انھوں نے نواز شریف صاحب کو ان کی سالگرہ کی مبارک باد دی تھی اور کچھ ہی دیر بعد کابل سے واپس بھارت جاتے ہوئے اپنے ہم منصب پاکستان کے وزیر اعظم جناب محمد نواز شریف صاحب سے ملاقات کا امکان ظاہر کیا تھا ۔ جو بعد میں نیوز کے ذریعے ہی پتا چلا کہ ان کی اسلام آباد آمد متوقع تھی لیکن میاں صاحب رائیونڈ میں اپنی نواسی کی مہندی کی تقریب ہونے کی وجہ سے لاہور میں تھے لیکن نریندر مودی ملاقات میں اس قدر دلچسپی رکھتے تھے کہ انھوں نے پیغام دیا کہ چلیں لاہور میں ہی ملاقات کرلیتے ہیں ۔ پھر اچانک یہ خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ بھارتی وزیر اعظم کی جاتی امرا آمد متوقع ہے ۔یوں محسوس ہورہا تھا کہ تمام سفارت کاری ٹیوٹر کے ذریعے ہی ہو رہی ہے تمام چینلز بھی ٹیوٹر کا ہی حوالہ دے رہے تھے اس وقت سب کو سرتاج عزیز سے کہیں زیادہ ٹیوٹر عزیز تھا ۔

لیکن ان تمام گرما گرم خبروں کے بعد بھی نہ جانے میرا ذہن اس بات کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھا کہ نریندر مودی صاحب جاتی امرا تشریف لے جائینگے ہاں ملاقات ضرور ہوگی لیکن لاہور ائیرپورٹ پر ہی کیوں کہ ائیرپورٹ سے باہر آنے کے لیئے کئی امیگریشن قوانین حائل ہونگے اور میرے ذہن میں گذشتہ دنوں ہونے والے کئی واقعات بھی تھے جس میں 03 دسمبر کو یونان سے بے دخل کیئے گئے 30 افراد کو واپس اسی طیارے میں بھجوادیا تھا کہ ان کے قانونی دستاویزات مکمل نہیں تھے پھر اس کے بعد ایک اور واقع رونما ہوا جس میں قانونی دستاویزات نہ مکمل ہونے کی وجہ سے ایک سابق آسٹریلوی کھلاڑی ڈین جونز کو اسلام آباد ائیرپورٹ سے واپس کردیا گیا تھا نہ صرف انہیں واپس کیا گیا بلکہ اس غیر ملکی ائیرلائن پر جرمانہ بھی عائد کیا گیا پھر ان واقعات کے دوران وفاقی وزیر داخلہ جناب چودھری نثار احمد صاحب نے ایک بہت پرجوش پریس کانفرنس میں فرمایا تھا " اب وہ دن گذر چکے جب قوائد و ضوابط کی دھجیاں اڑائی جاتی تھیں ، ہمارے نزدیک ملک کی عزت اور وقار سے بڑھ کر کوئی بات نہیں " ۔ دوسری بات میرے ذہن میں یہ بھی تھی کہ آج ہمارے قائد محمد علی جناح کی سالگرہ کا دن بھی ہے ممکن ہے میاں محمد نواز شریف اپنی سالگرہ کے کیک کو اتنی اہمیت نہ دیں اور قائد کی سالگرہ کا کیک کاٹیں اگر وہ ایسا کرینگے تو شائید نریندر مودی صاحب کے لیئے کچھ مشکلات پیدا ہوں کیوں کہ وہ کچھ عرصہ پہلے بنگلہ دیش میں سینہ ٹھوک کر فخریہ انداز میں کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کو توڑنے میں ہم نے بنگلہ دیش کی مدد کی تھی جس پر ہمیں فخر ہے یہی سب باتیں ابھی ذہن میں گردش کر رہی رہی تھیں کہ بریکنگ نیوز چلنے لگیں کہ نریندر مودی صاحب جاتی امرا پہنچ گئے ۔میرے لیئے تو تمام دن کی بریکنگ نیوز میں صرف ان کے جاتی امرا پہنچنے کی خبر ہی واقعی بریکنگ نیوز تھی کہ یہ کیسے ممکن ہوا نریندر مودی صاحب کے ساتھ سینکڑوں لوگوں پر مشتمل وفد کن قانونی دستاویزات کے ساتھ لاہور ائیرپورٹ سے باہر آکر جاتی امرا تک رسائی حاصل کرگیا وہ بھی سرکاری پروٹوکول کے ساتھ وہ بھی بغیر کسی ویزا یا قانونی دستاویزات کے یہ تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے 1965 میں لاہور میں شام کی چائے پینے کی خواہش کو قائد اعظم کی ولادت کی دن پر پورا کیا گیا۔

نریندر مودی صاحب جاتی امرا میں چائے سے خوب لطف اندوز ہوئے سالگرہ کا کیک بھی کھایا مبارک باد بھی دی اور میاں صاحب کی نواسی کی تقریب حنا ء میں بھی شریک ہو گئے لیکن قائد اعظم جیسے عظیم رہنماء کے بارے میں ایک لفظ نہیں بولا گیا۔

اب وزیر داخلہ صاحب کی اس سابقہ پریس کانفرنس کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ صاحب اس بات سے ہی لاعلم تھے کہ کوئی وفد اچانک آنے والا ہے اور اگر انہیں علم تھا تو پھر وہی بتا سکتے ہیں کہ امیگریشن پالیسی کو اچانک کس قانون کے تحت نرم کردیا گیا جو انھوں نے پرجوش پریس کانفرنس میں بتائی تھیں۔ان تمام باتوں کا وزیر داخلہ نے تو جواب نہیں دیا لیکن مشیر خارجہ سرتاج عزیز صاحب نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی اور انکے 11 رفقاء کو ائیرپورٹ پر 72 گھنٹے کا ویزہ جاری کیا گیا لیکن وفد میں شامل باقی لوگوں کو ائیرپورٹ سے باہر آنے کی اجازت نہیں دی گئی کیوں کہ ان کے پاس ویزہ نہیں تھا تو اسکا مطلب دورہ اچانک نہیں تھا پہلے سے طے شدہ تھا جس کے لیئے ویزہ کا اجراء کرنے والا عملہ سرکاری چھٹی کے باوجود ائیرپورٹ پر موجود تھا ۔کیوں کہ ایک پاکستانی شہری ہونے کی وجہ سے اتنا تو ہمیں بھی معلوم ہے جب کسی وفد کا دورہ پہلے سے طے ہوتا ہے تو تمام قانونی دستاویزات مکمل کی جاتی ہیں ۔

پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات سب ہی چاہتے ہیں لیکن اس کے لیئے سفارتی آداب کی دھجیاں اڑانا تمام قاعدے اور قوانین کو بالائے طاق رکھنا اچھی روایت نہیں ، قانون پر سختی سے عمل کرنا بہت اچھی بات ہے لیکن اس سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ قانون کا ہر انسان پر بغیر کسی درجہ بندی کے لاگو ہونا چاہیے۔
 

 Arshad Qureshi
About the Author: Arshad Qureshi Read More Articles by Arshad Qureshi: 142 Articles with 167678 views My name is Muhammad Arshad Qureshi (Arshi) belong to Karachi Pakistan I am
Freelance Journalist, Columnist, Blogger and Poet, CEO/ Editor Hum Samaj
.. View More