بسمہ مر گئی مگر بھٹو اج بھی زندہ ہے

تبدیلی کا محور اپنی ذات ہے.

اگر ہم کہتے ہیں کہ یہاں امن ہے تو یہ عذاب ہم پر کیوں کیا اسے ہم امن کہیں گے جہاں لوگوں کی محافظ پولیس ماڈل ٹاون میں خون کی ہولی کھیلتی ہو,جعلی پولیس مقابلوں میں سینکڑوں مبینہ ملزموں کو ٹھکانے لگا دیا جاتا ہو,جہاں ہر دس گھنٹے میں غیرت کے نام پر1 قتل ہوتا ہو دوسروں کی عزتیں پامال ہوتی ہوں.جہاں مناواں کے اکرام کے تنخواہ مانگے کی پاداش میں دونوں ہاتھ کاٹ دیے جائیں, جہاں دن دھاڑے لاہور میں 16 سالہ بچی سے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جائے,جہاں ہسپتالوں میں بچے کبھی اکسیجن نہ ہونے سے مرتے ہوں اور کبھی انہیں چوہے کتر کے کھا جاتے ہوں, جہاں ایک ریڑھی بان سے لیکر ملک کے صدر تک کرپشن, جھوٹ کی لعنت میں مبتلا ہوں. جس معاشرے کے ماتھے پر30سالہ مختاراں مائی, 13 سالہ کائنات سومرو,اور26 شازیہ خالد ریپ کیسز کا ٹیکہ لگا ہو, جہاں ریپ کے 20 فیصد کیسز میں اس ملک کی پولیس شامل ہوں, جہاں ہر دو گھنٹے میں 1 زنا اور ہر 8 گھنٹے میں 1 گینگ ریپ ہوتا ہو, جہاں ہر سال 10 ہزار کے لگ بھگ قتل ہوتے ہوں, جانوروں کو زندہ جلا دیا جاتا ہو, سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو ڈنڈے مار مار کے قتل کردیا جاتا ہو اور عوام مجرمانہ خاموش تماشائی بنی رہے, جہاں قصور میں مسیحی جوڑے کو زندہ جلا دیا جائے جہاں کے مسلمان سمیت اقلیت میں برداشت برائے نام نہ ہو. جہاں مسیحی بستیاں جلا دی جاتی ہو بدلے میں مسیحی کسی راہ چلتے کو پکڑ کے زندہ جلا دیتے ہوں ,جہاں راجہ بازار میں مدرسوں میں بچوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہو,جہاں زلزلے اور بم دھماکے میں بھی لوگ دوسروں کی جیبوں پر ہاتھ صاف کرتے ہوں,جہاں سیلابوں کو کمائی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہو, جہاں ہسپتالوں سے بچے غائب کر کے بیچ دیے جاتے ہوں,جہاں 10،10 لاکھ کی مذہبی سیاسی محافل تو منعقد ہوتی ہوں مگر کوئی غریب کا پرسان حال نہ ہو,جہاں ماں بچوں سمیت ٹرین کے اگے کود جاتی ہو یا باپ سارے کنبہ کو زہر دے کہ چھوٹے بچے کہ اس سوال سے جان چھڑا لے کہ بابا اج بھی روٹی نہیں ملے گی؟ جہاں انسان جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہوں, جہاں 80 فیصد دودھ ملاوٹی اور 70 فیصد خوراک ناقص ہو, جہاں 72 فیصد خواتین قیدیوں کو جیل میں جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہو.جہاں ایک غریب کی ائندہ نسلیں کسی پٹواری یا,عدالت کے چکر سے ہی نہ نکل سکتے ہوں.کہاں تک لکھوں یہ درد کے فسانے.ایک نظام کفر کے ساتھ تو چل سکتا ہے مگر ظلم کے ساتھ نہیں. اور ایسا معاشرہ جہاں صرف ظلم ہو جہاں سب چلتا ہو وہ معاشرا پھر مشکل سے ہی چلتا ہے مجھے ہنسی اتی ہے جب ان رویوں کے ساتھ عالم بے عمل قسم کے لوگ ابوبکر و عمر کی مثالیں دیتے ہیں عمر تو وہ تھے کہ جو زمین کے لرزنے پر اسے لاٹھی سے یہ کہہ کہ چپ کروا دیتے کہ کیا تم پر عمر انصاف نہیں کرتا؟ جن کہ عہد میں کوئی بھوکا نہیں سوتا. پھر ہم پوچھتے ہیں کہ یہ زلزلے کیوں اتے ہیں یہ زلزلے نہیں ہمارے اعمال کے جھٹکے ہیں.

Shoaib Malik
About the Author: Shoaib Malik Read More Articles by Shoaib Malik: 9 Articles with 5524 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.