گزشتہ روز فیس بک پہ پاکستان میں واقع کشمیر سٹیٹ پراپرٹی
کے بارے میں اپنا کالم اور اور اس کی تفصیل شائع کی تو عامر رحمان نامی ایک
شخص نے اس پر اپنا جواب میری 'وال ' پہ18جگہ چسپاں کر دیا۔کیا کوئی بتا
سکتا ہے کہ عامر رحمان کون ہے؟کیا کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کے ایڈمنسٹریٹیو آفس
یا وفاقی وزارت امور کشمیر کا کوئی ملازم ہے،یا وفاقی وزیر چودھری برجیس
طاہر کے سٹاف میں شامل ہے؟امجھے تو عامر رحمان وفاقی وزیر امور کشمیر
چودھری برجیس طاہر کا ایسا نادان دوست معلوم ہوتا ہے جس سے دانا دشمن کو
بہتر بتایا جاتا ہے۔عامر رحمان کے خوفزدہ ہونے سے یقین آ گیا ہے کہ عامر
رحمان محدود دماغ او ر محدود سوچ کا حامل کوئی سرکاری ملازم ہے ۔عامر رحمان
لکھتا ہے کہ
'' وانی صاحب،آپ کا علم ناقص ہے اور تعلیم نامکمل ہے ،آپ کو چاہئے کہ آپ
اپنی ریسرچ کریں اور بات کریں۔1۔برجیس طاہر جب وزیر بنے تو پراپرٹی کا
کرایہ ایک کروڑ روپے سالانہ تھا جو اب بڑھ کر 9کروڑ روپے سالانہ ہے۔
2۔منظور وٹو کے دور میں شاید آپ سوئے رہے یا صحافت سیکھ رہے تھے،منظور وٹو
کے بھرتی35ملازمین کو نکالا گیا۔ 3۔ایم ایم عالم روڈ لاہور کے مہنگے علاقے
کی سات لاکھ روپے رینٹ کا دفتر بند کیا گیا اور مسلم ٹائون میں دفتر کھولا
گیا۔4۔شاید غصے اور جھنجلاہٹ میں نمبر 4کا سوال چھوڑ کر نمبر5پہ پہنچ گئے۔
5۔پراپرٹی کے پیسے کو بنک میں11فیصد مارک اپ میں جمع کروایا گیا اور،
6۔کوئی نئی کار نہیں خریدی،15دفعہ نئی کار کی سمری پر منسٹر صاحب نے دستخط
نہیں کئے۔ 7۔پونچھ ہائوس پنڈی گھس پیٹھئیوں سے خالی کروایا گیا۔ 8۔فکس
ڈیپازٹ کے منافع سے آزاد کشمیر کے بچوں کو لیب ٹاپ دیئے گئے۔ 9۔لاہور لنڈا
بازار لوہا مارکیٹ میں رینٹ5گنا بڑہایا گیا۔ 10۔عیاشی،کرپشن،ٹیکس پیئیرز کے
پینشن سے لفافہ دینے کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ 11۔کشمیری عوام کی پراپرٹی سے
قبضہ مافیا کو نکالا۔ 12۔چودھری صاحب سرکاری کام لاہور میں اپنے دفتر سے
نبھاتے ہیں تاکہ غیر ضروری اخراجات سے بچا جا سکے۔ 13۔ملازمین وہی ہیں
کشمیر پراپرٹی لاہور میں جو اس حکومت سے پہلے تھے،ان میں سے کوئی بھی
چودھری صاحب کی بھینسوں کو چارہ نہیں ڈالنے جاتا،نہ چودھری صاحب کی روٹی
بازار سے لاتا ہے،دفتر کے پروٹوکول کا افسر ایئر پورٹ پہ منسٹر صاحب کو
ریسیو اور 'سی آف' کرتا ہے۔14۔ایک کار جو دس سال پرانی ہے ''KIA''جو کہ
منظور وٹو کے دور میں خریدی گئی 35لاکھ سے ،اب بھی وہی زیر استعمال ہے جو
کہ دفتر میں ہی رہتی اور رات کو بھی وہیں پارک ہوتی ہے۔ الزامات مت لگایا
کریں بغیر ثبوت کے یا موقف لئے بغیر،کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔''
عامر رحمان نامی شخص کوئی لاڈلا سرکاری افسر معلوم ہوتا ہے جس نے میرا
کالم،رپورٹ پڑھے بغیر ہی کسی سرکاری ملازم کی '' بریفنگ'' پر درج بالا نکات
پر مبنی تحریر کی ہے اور ان نکات پر ہی بات کی ہے جس کا میرے کالم،رپورٹ
میں کوئی تذکرہ نہیں ہے۔اس سے اس سرکاری اہلکار کی نااہلی ثابت ہوتی ہے کہ
کیسے کیسے نمونے پاکستان میں سرکاری افسر بنے بیٹھے ہیں۔مزید بات سے پہلے
نکتہ وار جواب پیش ہیں۔ 1۔2004-05ء میں کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی آمدن 6کروڑ
سالانہ تھی اور اخراجات3کروڑ روپے سالانہ تھے۔چودھری برجیس طاہر نے وزیر
امور کشمیر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد صدر آزاد کشمیر سے ملاقات میں کشمیر
پراپرٹی کی کل مالیت22ارب روپے اور آمدن چار کروڑ سالانہ بتائی تھی۔
2۔منظور وٹو کے دور میں ہی میں نے وزارت امور کشمیر اور کشمیر سٹیٹ پراپرٹی
ایڈ منسٹریٹیو آفس میں ہونے والی کرپشن ،بد اعمالیوں اور کشمیری عوام کے
اثاثے کی لوٹ مار پر متعدد کالم تحریر کئے،اس ووقت شاید عامر رحمان نامی
سرکاری ملازم منظور وٹو کی چاپلوسی میں' دن رات' ،مصروف عمل تھا۔منظور وٹو
کی طرف سے ایڈ منسٹریٹیو آفس میں اپنے متعدد افراد کو بھرتی کرنے کے اقدام
کو بھی میں نے ہی میڈیا کے ذریعے سامنے لایا تھا۔میری اطلاع کے مطابق منظور
وٹو کی طرف سے بھرتی کئے گئے افراد کی تعداد کافی زیادہ تھی،حالیہ حکومت کے
دور میں ایسے 35ملازم ضرور نکالے گئے ہوں گے لیکن یہ تو بتایا جائے کہ
منظور وٹو نے کتنے ملازم بھرتی کئے تھے اور ملازمین کی کل تعداد کیا ہے؟
3۔لاہور میں سات لاکھ کرائے والے دفترکی بات ایک ثبوت ہے کہ کشمیری عوام کی
کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کو کس طرح ''باپ کا مال'' سمجھ کر لوٹا جاتا رہا
ہے۔میرے کالم میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ 5۔پراپرٹی کا پیسہ 11فیصد مارک
اپ پر بنک میں جمع ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کل کتنی رقم فکس ڈیپارٹ کرائی
گئی ہے۔ 6۔ کہتے ہیں کہ کوئی نہیں کار نہیں خریدی اور وزیر امور کشمیر نے
15مرتبہ نئی کار کی سمری پر دستخط نہیں کئے،اس کا بھی کوئی ذکر میرے کالم
،رپورٹ میں نہیں،لیکن اس سے رجحان کا علم ضرور ہوتا ہے۔7۔پو نچھ ہائوس سے
چندغریب افراد کو ضرور نکالا گیا ہے۔8۔فکس ڈیپاڑت سے لیب ٹاپ کتنے بچوں کو
دیئے گئے ہیں؟ 9۔رینٹ 5گنا بڑہایا گیا،سوال یہ ہے کہ کشمیر پراپرٹی کا پیسہ
کہاں جا رہا ہے اور کشمیری عوام کے مفاد پر خرچ نہیں ہو رہا۔10۔موصوف نے
اعتراف کیا ہے کہ عیاشی،کرپشن اور لفافہ دینے کا چلن رہا ہے،ٹیکس ادا کرنے
والوں کی پینشن سے لفافے دینے کی بات سمجھ نہیں آتی۔11۔کشمیر سٹیٹ پراپرٹی
کو کشمیری عوام کی پراپرٹی تسلیم کرنے کا شکریہ، قبضہ مافیا کو نکالا
گیادرست لیکن کشمیر پراپرٹی کس کس کوکس قیمت پر فروخت کی گئی،یہ نہیں بتایا
جا رہا۔12۔چودھری صاحب کیا بچت کر رہے ہیں،اس کا بھی میرے کالم میں کوئی
ذکر نہیں۔13۔یعنی ایڈ منسٹریٹیو آفس کے ملازمین سابق وزراء کی بھینسوں کو
چارہ ڈالنے پر معمور رہے اور وزیر صاحبان کوبازار سے کھانا بھی لا کر دیتے
رہے،واہ۔سابق وزراء کشمیری عوام کی پراپرٹی پر ا ور کیا کیا عیاشیاں کرتے
رہے ؟کیا ایڈ منسٹریٹیو آفس کے پروٹوکول افسر کا صرف یہی کام ہے کہ وہ وزیر
صاحب کو ایئر پورٹ پر ریسیو اور سی آف کرے؟ اس طرح کے دیگر ضروری امور پر
کتنے افسران متعین ہیں؟14۔اس جواب سے یہ معلوم کرنے کی بھی ضرورت پیدا ہوتی
ہے کہ ایڈ منسٹریٹیو آفس کا کل کتنے ملازمین ہیں اور ملازمین میں ریاست
کشمیر کا کوئی باشندہ بھی شامل ہے یا نہیں ؟جونکات میں نے اپنے کالم
میںاٹھائے ہیں ان میں سے تو کسی کا بھی جواب نہیں دیا گیا۔
عامر رحمان نامی شخص جس طرح منہ چھپارہا ہے، اس پر حیرت ہو رہی ہے کیونکہ
ایسی مخلوق کا شرم اور حیا سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ایسے ملازم کو شاباش
ضرور ملنی چاہئے جو بات کو پڑھ کر ایسے جواب دے جو پوچھے ہی نہ گئے ہوں،جن
کا کوئی تذکرہ ہی نہ ہوکیا ۔ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے چند سوالات ضرور
ہیں جو وہ پوچھنا چاہتے ہیں اور کشمیر سٹیٹ پراپرٹی اور اس کی آمدن کو
خالصتا اپنے لئے استعمال ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کو ایک
سابق آمر جنرل ایوب خان مرحوم کے بنائے آرڈینینس کے تحت ہی کیوں چلایا جا
رہا ہے؟کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کس کس کو کس کس قیمت پر اور کیوں فروخت کی
گئی؟کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کے ایڈ منسٹریٹیو آفس میں ریاست کشمیر کے باشندوں
کو کیوں نہیں لگایا جاتا؟ایڈمنسٹریٹر آفس میں ملازمت کا سب سے پہلا حق بھی
کشمیریوں کو ہی حاصل ہونا چاہئے۔آزاد کشمیر کے عبوری آئین کے مطابق کشمیر
سٹیٹ پراپرٹی کشمیر کونسل کے موضوعات میں شامل ہے لیکن اسے وفاقی وزارت
امور کشمیر کے زیر انتظام کیوں رکھا گیا ہے؟آئین میں مندرج موضوع کے حوالے
سے کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا انتظام کشمیر کونسل کے پاس ہونا چاہئے لیکن عملاً
اس کا انتظام وزارت امور کشمیر لاہور میں قائم ایڈمنسٹریٹیو آفس کے ذریعے
چلا رہی ہے۔پورب کالونی پر ڈیڑھ ارب روپے خرچ کر دیئے لیکن زمین پر کچھ
نہیں ہے،مہاجرین دربدر ہیں۔کیوں نہ کشمیر سٹیٹ پراپرٹی میں ہونے والی لوٹ
مار،گھپلوں پر نیب سے تفتیش کرائی جائے؟اپنی آزادی ،حقوق کے لئے بھارت کی
ریاستی طاقت کا نسل در نسل مردانہ وار مقابلہ کرنے اور کسی صورت ہار نہ
ماننے والے کشمیری اپنی ریاستی جائیدار کی لوٹ مار اور اس کے مفادات سے خود
کو بیدخل رکھے جانے کی صورتحال پر خاموش نہیں رہ سکتے۔
|