مودی - شریف ایک دل دوجان؟

پاکستان اورہندستان کا بٹوارہ ایک المیہ تھا۔ بٹوارہ کے بعد آج تک جو صورت حال ہے وہ غیر یقینی ہے۔ دونوں ممالک کے سربراہ ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے۔ کبھی کبھی امید بندھتی ضرور ہے مگر ٹوٹ جاتی ہے۔مشرف کی آگرہ دورے کے موقع پر دونوں ملکوں کے بیچ کا سب سے پیچیدہ مسئلہ کشمیر حل کے قریب تھا۔ اٹل بہاری واجپئی حل کر دینا چاہتے تھے۔ نواز شریف بھی حل کیلئے بے چین اور بے قرار تھے مگر آر ایس ایس کی لابی نے مسٹر ایڈوانی کے ذریعہ اس بڑے اور پیچیدہ مسئلہ کو حل ہونے نہیں دیا۔

نواز شریف جب سے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالے ہیں، دوستی کا ہاتھ بڑھانے کیلئے کوشاں ہیں۔ نریندر مودی نواز شریف سے بھی پہلے دوستی کا ہاتھ بڑھانے میں اپنے پیش روؤں سے آگے ہیں۔ الیکشن کے موقع پر بھی اُنہوں نے ہندستان سے خوشگوار اور دوستانہ تعلقات کیلئے اعلان اور اظہار کیا۔ نواز شریف کی ہمت اور حوصلہ کی داد دینا چاہئے کہ انھوں نے ہار جیت کو پس پشت ڈال کر ایسی باتیں کیں۔ مودی نے جیسے ہی اپنی تقریب حلف وفاداری میں دعوت دی، نواز شریف بغیر کسی پس و پیش کے چلے گئے۔ اس وقت بھی مودی نے خلاف توقع اپنے ہمسایہ کے سربراہ کو دعوت دی کیونکہ مسٹر مودی کی خصلت اور طبیعت نواز شریف جیسی نہیں ہے۔ مودی گجرات الیکشن میں بھی میاں مشرف، میاں مشرف کہتے تھے۔ مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ انھوں نے 2002ء میں کیا اس سے بھی دُنیا بخوبی واقف ہے۔ مسلمانوں سے دوری بنائے رکھنے کے قائل ہیں۔ لوک سبھا کے الیکشن میں بھی وہ پاکستان اور مسلمان ان کی زد میں تھے، مگر یہ کہنا صحیح ہوگا کہ الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد پاکستان کے تعلق سے ان کے رویہ میں تبدیلی بظاہر نظر آتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ آر ایس ایس کی بندش اور ملکی سیاست کے دباؤ کی وجہ سے ایک قدم آگے تو دو قدم پیچھے ہٹتے رہے۔ مودی کے بعد ہندو پاک تعلقات کا انڈیکس (معیار عمل) اوپر نیچے ہوتا رہا۔ 24مئی 2014ء کو پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ اس کے بعد کئی اور ملاقاتیں ہوئیں مگر معمولی معمولی باتوں پر بات چیت رُک جاتی تھی۔ اب دونوں ملکوں کے سربراہ خلاف توقع ایک دوسرے سے خواہ اِرادتاً یا غیر ِارادی طور پر ملے ہیں اس کو دونوں ملکوں میں پسندیدہ نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔اپوزیشن پارٹیاں خاص طور سے انڈین کانگریس یقینا اس ملاقات کو تشویش کی نگاہ سے دیکھنے میں حق بجانب ہے کیونکہ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کا خواب یہی تھا کہ امرتسر میں ناشتہ ہو، لاہور میں عصرانہ تو کابل میں عشائیہ۔ وسطی ایشیا کو پر امن خطہ بنا دیا جائے، مگر اُس وقت مودی اور ان کی پارٹی منموہن سنگھ اور کانگریس کی اس پالیسی کی مخالفت کرتی تھی۔ مودی نے کابل میں ناشتہ کیا۔ دوپہر کا کھانا لاہور میں کھانا چاہا مگر دیر ہی سہی لاہور میں خالص گھی کی سبزی اور دال کا مزہ چکھا اور کشمیر کی چائے پی۔ رات کا کھانا دہلی میں کھایا۔ یہ تو ایک ملک کے سربراہ کیلئے آسانیاں ہوئیں۔ یہ کوئی حیرت میں ڈال دینے والی بات نہیں ہے۔ اگر یہی چیز دونوں ملکوں کے عام شہریوں کیلئے ہوجائے اور دونوں ملکوں کے لیڈر اور عوام مل جل کر ہی کوشش کریں تو دونوں ملکوں کا بھلا ہوگا۔ دونوں ملکوں میں غربت، افلاس، مرض اور جہالت عروج پر ہے۔ دونوں ملکوں کے سربراہان مملکت اسے ختم کرنے سے قاصر ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ دفاع پر جتنی قومی انکم کا سرمایہ خرچ ہوتا ہے اسے غیر نفع بخش اور بیکار ہی کہا جاسکتا ہے۔ جب تک ماحول خوشگوار نہیں ہوگا یہ فضول خرچی جارہی رہے گی اور ہتھیاروں کی خریداری کا سلسلہ چلتا رہے گا۔ مودی نے ڈیفنس کیلئے کئی قسم کے جدید ہتھیار روس سے خریدنے کے بعد کابل آئے اور لاہور پہنچے۔ اچھی اچھی باتیں ہوئیں، دوستانہ تعلقات پیدا ہوئے۔ نواز شریف کے آبائی فارم ہاؤس میں ان کی ماں کا پیر چوما۔ ان سب کے باوجود ہتھیاروں کی کھیپ دونوں ممالک کے لوگ ایک دوسرے کیلئے یا دیگر کاموں کیلئے جمع کر رہے ہیں۔ ہندستان کی قومی انکم کی ایک بہت بڑی رقم کشمیر کو حاصل کرنے میں خرچ ہوتی ہے۔ یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں تھا کہ اتنا طول کھنچتا۔ دونوں ملکوں کو چاہئے کہ اگر وہ اس مسئلہ کو حل کرلیں تو اچھا ہے، لیکن اگر حل نہ کرسکیں تو دونوں کو کسی سچے او رمخلص ثالثی پر اعتماد کرکے اسے حل کرنا چاہئے۔ کشمیر دونوں ملکوں کے تعلقات کے درمیان بہت بڑی رُکاوٹ بنا ہوا ہے۔ امریکہ یا روس کے بجائے کسی تیسری طاقت سے یہ کام لینا چاہئے کیونکہ مذکورہ طاقتیں ہند و پاک کی لڑائی میں بھی اپنا فائدہ محسوس کرتی ہیں کیونکہ لڑائی باقی نہیں رہے گی تو ان کے ہتھیاروں کو یہ دونوں ملکوں کے لوگ خریدنا بند کر دیں گے۔ ان کے ہتھیاروں کی منڈی ماند پڑ جائے گی۔ دونوں ملکوں میں ایسے مخلص لوگ ہیں کہ وہ عدل و انصاف کے ساتھ مسئلہ کو حل کر سکتے ہیں۔ ان کو بھی دونوں ممالک کی حکومتیں آگے بڑھنے دینا نہیں چاہتی ہیں۔ سیاسی شخصیتوں کیلئے اپنی اپنی جماعتوں کے مفادات ہوتے ہیں اور ووٹ کی سیاست ہوتی ہے اس لئے ان کے ذریعہ بہت سے کام ممکن نہیں ہیں، اسی لئے یہ کہنا صحیح ہے کہ عوام کا رابطہ عوام سے ہو اور آسانیاں پیدا ہوں تو منموہن سنگھ یا مودی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے مگربھارتی سیاستدانوں کی ڈپلو میسی یا سیاست سے یہ کام ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ہاں یہ لوگ خبروں میں رہنے کیلئے یا دنیا کو دکھانے کیلئے ایسے عجوبہ کام ضرور کرسکتے ہیں جسے نمائشی یا دکھاوے کا کام کہا جاتا ہے۔ ایسے کاموں اور پروگراموں سے چرچا بہت ہوتا ہے مگر نتیجہ خیز نہیں ہوتا ہے۔
Syed Fawad Ali Shah
About the Author: Syed Fawad Ali Shah Read More Articles by Syed Fawad Ali Shah: 101 Articles with 90175 views i am a humble person... View More