لگاؤ!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
بھارتی وزیراعظم مودی جی نے انکشاف کیا ہے
کہ پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف کو سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری
واجپائی سے دلی لگاؤ ہے، انہوں نے یہ ٹویٹ پاکستان سے بھارت پہنچنے کے بعد
کیا، مودی جی اچانک لاہور پہنچ گئے تھے، کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی آمد
کاانکشاف اپنے آنے سے کچھ ہی دیر پہلے کیا، خبر سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ
انہوں نے پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف کو اپنے عزائم سے آگاہ کیا،
جس پر اِنہوں نے بتایا کہ یہ لاہور میں موجود ہیں، معاملہ فائنل ہونے پر
مودی جی لاہور آئے اور انہیں ہیلی کاپٹر پر جاتی امرا لایا گیا، حکومتی
بڑوں نے ان کا پرجوش استقبال کیا انہوں نے تقریباً ڈھائی گھنٹے اپنے
پاکستانی ہم منصب کے ساتھ گزارے اور واپس روانہ ہوگئے۔ مودی کی پاکستان میں
آمد پر بھارتی اپوزیشن پارٹیوں نے سخت احتجاج کیا، تاہم پاکستانی میڈیا میں
پاکستان کی طرف سے کوئی خاص احتجاج سامنے نہیں آیا بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ
اس عمل سے دونوں ممالک کے تعلقات بہتر ہوں گے، تلخیاں مٹیں گی اور قربتوں
میں اضافہ ہوگا، تاہم اتنا ہوا کہ چینلز کو اچانک اور زبردست خبر میسر آگئی
، جس پر اپنے میڈیا نے گھنٹوں رپورٹیں چلائیں، تجزیے پیش کئے، پیکیجز بنائے،
مودی کی پاکستان کے خلاف زہر آلود گفتگوئیں سنائیں، مودی کے خلاف جو کچھ
مواد میسر آیا اسے بھی پیش کیا گیا۔ مودی نے اپنے ٹویٹ میں نوازشریف کے
واجپائی کے ساتھ دلی لگاؤ کی بات کرتے ہوئے یہ بھی بتایا ہے کہ انہوں نے
واجپائی کے لئے خیر سگالی کا پیغام بھی دیا ہے۔ اور یہ بھی کہ میں وزیراعظم
نواز شریف کے جذبہ خیر سگالی سے بہت متاثر ہوا ہوں، مجھے نواز شریف کا ائیر
پورٹ تک چھوڑنے کے لئے آنا بھی یاد رہے گا۔
اگر میاں نواز شریف واجپائی سے دلی لگاؤ رکھتے ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں،
مودی جی بھی نواز شریف کے جذبہ خیر سگالی سے بہت متاثر ہیں اور پاکستانی
قوم بھی صرف واجپائی سے ہی نہیں بھارت کے بہت سے افراد کے ساتھ نہ صرف جذبہ
خیر سگالی رکھتی ہے بلکہ ان سے بہت زیادہ متاثر بھی ہے، پاکستانی قوم کی
اکثریت بھارت سے دلی لگاؤ رکھتے ہیں۔ اس میں ناراض ہونے والی کوئی بات نہیں،
اگر ’’دلی لگاؤ‘‘ کا لفظ کسی کو برا لگا تو اس کی جگہ پر ’’لاہوری ‘‘لگاؤ
کہا جاسکتا ہے، یا ’’اسلام آبادی‘‘ لگاؤ لکھا جاسکتا ہے، اگر معاملہ جزویات
کی بجائے کُل کا کرنا ہے تو ’’پاکستانی‘‘ لگاؤ بھی نامناسب نہیں۔ بھارت کے
ساتھ یہ لگاؤ اس حد تک مضبوط اور پختہ ہے کہ اس میں شک کرنا بھی خیانت کے
زمرے میں آنے کا خدشہ ہے۔ ہمارے ہاں کونسا نوجوان یا فلم بین ہے جو بھارت
کی فلم دیکھنے سے انکاری ہو، ان کے ڈائلاگ ہمارے ہاں گلی محلے میں اور روز
مرہ کے معاملات میں استعمال ہورہے ہوتے ہیں۔ کون سا فلمی ہیرو ہے جو ہمارے
نوجوانوں اور فلم بینوں کا ہیرو نہیں، گھروں، دکانوں اور بازاروں میں
بھارتی اداکاروں کی تصاویر آویزاں ہیں، اپنے دل میں کنگ خان، دبنگ خان،
عامر خان اور نہ جانے کتنے خان اور کنگ بسے ہوئے ہیں۔ اگر ہمارے نوجوان
بھارتی فلمی ہیروز کو اپنا ہیرو تصور کرتے ہیں، تو بھارتی ہیروئنیں بھی ان
کے دلوں کی دھڑکن بنی ہوئی ہیں۔
ہم لوگوں نے کبھی یہ بھی خیال نہیں کیا کہ بہت سی فلموں میں پاکستان کے
خلاف خوب زہر افشانی کی جاتی ہے، ہماری پاک آرمی پر الزامات ہی نہیں لگائے
جاتے، اس کی تذلیل بھی کی جاتی ہے، مگر مجال ہے کہ ہم میں سے کسی نے کبھی
برا مانا ہو، یا ہمارے جبیں پر کبھی شکن بھی ابھری ہو۔ بات فلموں ، ہیروز
اور ہیروئینوں تک ہی محدود نہیں، بھارتی گانے ایک طویل عرصے سے ہمارے دلوں
میں دھڑکتے اور لبوں پر مچلتے آئے ہیں۔ اس داستاں کا نشان بھی مٹ گیا جب
لوگ پاکستانی گانے بھی سنا کرتے تھے، جن میں شاعری بھی تھی، موسیقی بھی اور
سریلی مدھر آواز بھی۔ اب شور شرابا ہے۔ سب کچھ کے باوجود ہم نئے یا پرانے
گانوں کی بات کریں تو انڈیا کا نام ہی آتا ہے۔ اس لئے مودی جی دل چھوٹا نہ
کریں، ہمارے وزیراعظم کو آپ کے سابق وزیراعظم سے ’’دلی ‘‘ لگاؤ ہے تو ہمیں
آپ کی فلموں اور اداکاروں سے ’’لاہوری‘‘ لگاؤ ہے۔ آپ نوازشریف کے جذبہ خیر
سگالی سے متاثر ہیں تو ہم آپ کے کسی جذبے کے بھی منتظر نہیں، بلکہ نفرتوں
کے باوجود آپ سے متاثر ہیں، ہم آپ ، آپ کی حکومتوں اور ملک کے سخت مخالف
بھی ہیں، مگر لگاؤ میں بھی کوئی کمی نہیں، ہے کوئی ہم سا، ہے تو سامنے آئے
! مودی کو سمجھنا اتنا آسان نہیں، نہ ہی مودی کے اقدامات کو سنجیدہ لینے کی
ضرورت ہے، کیونکہ وہ ایک لمحے میں پاکستان کے خلاف زہر اگلنے لگتے ہیں
اوردوسرے ہی کسی مرحلے میں پاکستان سے اچھے تعلقات کے حامی دکھائی دیتے ہیں۔
|
|