دسمبر تم لوٹ آئے ہو۔اپنے سرد احساس کے
ساتھ لہو کی حرارت بھی تمہارا سرد پن ختم نہ کر سکی۔ مگر آنکھوں میں اتر
آنے والی نمی احساس دلاتی ہے زندگی کا۔’زندگی‘ جو معصو م نونہالوں کی ہنسی
میں چھپی ہوتی ہے۔ بچوں کی شوخ شرارتوں سے جھانکتی ہے۔کچھ روٹھ سی گئی ہے
نا زندگی۔۔۔
دسمبر بہت قرض واجب ہیں تم پہ۔ ابھی تو سقوطِ ڈھاکہ کا زخم رستا تھا کہ تم
نے APSکے نونہالوں کا ناسور رگِ جان میں اتار دیا۔ وہ ادھ کھلے گلاب ان سرد
موسموں میں بکھر گئے۔ وہ ادھورے خواب بنا تعبیر کے ہی پلکوں سے اجڑ گئے۔درد
کی ان منزلوں کی آگاہی ملی جو روح کو تار تار کر گئی۔
دسمبر میں نوحہ مادر کس دل سے لکھوں؟ دیکھو لفظ بھی ہار گئے ان معصوم جذبوں
کے سامنے وہ کیسے جذبے تھے جو ’نام نہاد مسلمانوں‘ کے ہاتھوں پامال
ہوگئے۔شہادت کا آسمان چھونے میں یہ معصوم اپنے بڑوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے۔
دسمبر تاریخ کے اوراق پلٹو اوردیکھو کہیں اس جذبہ صادق کی مثل بھی نظر آتی
ہے تمہیں؟ حق دوستی نبھارہے ہیں مگر ان کی عمریں دیکھو۔ان کا شعور ان کی
آگاہی دیکھو۔ دوستو کو بچانے کے لئے ڈھال بن جانے والے کا حوصلہ دیکھ۔ یہ
نہ میجر تھے نہ کرنل اور نہ ہی جرنل ۔ ان کا رینک تو سب سے بڑا تھا۔ یہ
’فوجیوں کے بچے ‘ تھے۔ دیکھو اس دستے کا لباس جو سبز و سفید تھا۔ کچھ یاد
آیا اس سبزوسفید رنگ سے ؟ ہاں عظیم پرچم ‘ کا رنگ۔ کیا شان ہے نا اس دستے
کی جو سبز ہلالی پہنے قلم کی تلوار تھامے کتاب اہل وفا میں انوکھی داستان
رقم کر گیا۔ ظالموں نے پھول سے چہرے شناخت سے محروم کرنا چاہے۔ لیکن دیکھو
امرہو گئے راہ حق کے یہ ننھے مسافر ۔
دیکھو اس دستے کا ہر چھوٹا سپاہی نشان حیدر کا اعزاز لیے ہوئے ہیں۔ دیکھو
غزوہ ہند کے شہیدوں کا ہر اول دستہ کس نشان سے جنت کی سمت رواں ہے۔عزم و
حوصلہ کی لازوال داستان رقم کرنے والے یہ جگمگاتے ستارے یہ مہکتے پھول میری
پاک دھرتی پر مر مٹے۔
دسمبر تم کچھ بھی نا تھے۔ اپنے لہو کے دیپ جلا کر یہ معصوم بچے تمہیں امر
کر گئے۔ دسمبر ہرسال جب تم آو گے ہماری آنکھوں میں نمی اترے گی۔ مگر ہمارا
دل گواہی دے گا ارض پاک پہ قربان ہو جانے والوں کے بلند حوصلوں کی۔دسمبر تم
کبھی اختتام سال تھے مگر اب تم سال نوکی نوید ہو۔ایس ایسے سالکی جو پاکیزہ
لہو میں نہا کر بیدار ہوا ہر پاکستانی کے شعور و دل میں وفائے عہد بن کر ہر
محب وطن کی نوک زبان پہ ٹھہر گیا۔دسمبر آو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ان
سرفروش مجاہدوں کو، نونہال شہیدوں کو۔
دسمبر کی خنک ہوائیں تمہیں سلام کہتی ہیں
پاک وطن کی سب مائیں تمہیں سلام کہتی ہیں
تمہارے لہو سے روشن وطن کے پام و در ہوئے
تمہارے عزم کی روشنی سے چٹان رستے سر ہوئے
ابھی بھی تمہارے قہقہوں کی خنک ہوا میں ہے
ابھی بھی تمہاری روشن منزل لب دعا میں ہے
اپنے لہو سے مہکا کر پاک وطن کی زمین
بن گئے تم سب فردوس جنت کے مکین
مرحبا مرحبا اے مالک روشن جبین
تمہاری اعلی شہادت آفرین آفرین |