جہانگیر ترین کیلئے

میں اڑھائی ارب روپے لینے آرہا ہوں نواز شریف اڑھائی ارب تیار کرلو ۔ لودھراں میں ن لیگ کا سورج غروب ہونے جارہا ہے اور پی ٹی آئی کا طلوع آفتاب شروع ہوچکا ہے فرعونیت کا طلسم ٹوٹ چکا ہے لودھراں کے عوام کو مبارک ہو اب لودھراں کو ترقی و خوشحالی سے کوئی نہیں روک سکتا ۔یہ وہ الفاظ ہیں جو جہانگیر خان ترین نے اپنی جیت کی خوشی کے موقع پر لودھراں کے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہے تھے۔ واقعی جہانگیر ترین کی این اے 154 سے جیت لودھراں میں دونوں پارٹیوں اور بالخصوص عوام کیلئے بھی یہ ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوگی مناپلی کا ہالہ ٹوٹ چکا ہے عوام نے تھانہ کچہری کی سیاست کرنے والوں کو اٹھا کر باہر پھینک دیا ہے اور یہ ثابت کردیا ہے کہ 138737 لوگ اس فرسودہ نظام سے چھٹکارا چاہتے ہیں وہ روایتی سیاست سے اکتاچکے ہیں وہ بھی تبدیلی کے خواہاں ہیں اور اس کا اظہار انہوں نے جلسے جلوسوں میں تو کیا ہی تھا اب 23دسمبر2015 کو بھی کردیا اپنے اظہار رائے اور حق خود ارادیت سے ثابت کردیا کہ بیس تیس سال سے سیاسی خدمت کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کو چاروں خانوں چت کردیا۔ یہ عوام کے سینوں میں دبی خواہش تھی جس نے بالآخر سر اٹھالیا اور چنگاری بن کر سیاسی کفر کے مسکن کو جلاڈالا۔ طلسم سے نکل کر جمود کو توڑ کر عوام نے آزاد ہونے کا ثبوت دیا۔

ضلع لودھراں میں طویل عرصہ سے سر پر حکمرانی کا تاج سجانے والوں نے آج تک اجتماعی مفادات کو پرکاہ کی حیثیت نہ دی تھی انفرادی کام ضرورکرائے مگر عوامی مفادات کو لارے وعدے اور دعووں کی نذرکردیا اور عوام نے بھی طوعا و کرھا، خوشدلی سے یا بادل نخواستہ آپشن نہ ہونے کی بنا پر بار بار آزمائے ہوئے لوگوں کا آزمایااور نتیجہ وہی دھاک کے تین پات کے مصداق رہا کہیں کوئی تبدیلی کوئی اصطلاحات و اصلاحات نظر نہ آئیں اور آتیں بھی کیسے کہ کوئی کام اس سلسلے میں کیا ہی نہیں گیا۔ اسی بابت راقم الحروف نے الیکشن کے دوران عوام الناس کی رائے معلوم کی ان کی خواہشات اور ترجیحات، پسندو ناپسند بارے گفت و شنید ہوئی تو اکثریت اس حق میں تھی کہ این اے 154 میں تبدیلی ازحد ضروری ہے ایک ریڑھی بان سے لیکر تاجر تک ایک چپڑاسی سے لیکر بیسویں گریڈ کے افسر تک کے دل کی آواز یہی تھی کہ علاقے کی ترقی اور عوام کی خوشحالی و فلاح کیلئے جہانگیر ترین کا اقتدار میں آنا سب کے بہترین مفاد میں ہوگا۔زرلٹ کولیکشن کے دوران پریذائڈنگ آفیسرز کی اکثریت کے دل کی آواز بھی یہی تھی کہ یہ کہن سالہ اور روایتی سیاست منطقی انجام کو پہنچنا چاہئے

اب بات کرتے ہیں اس ٹرننگ پوائنٹ کی جو جہانگیر ترین کو ملا ہے دیکھنا یہ ہے پی ٹی آئی اور جہانگیر ترین اس سے کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں اور عوام کی اس سے کتنا مستفید کرتے ہیں اپنے کئے ہوئے وعدوں پر کس حد تک کاربند رہتے ہیں موجودہ حالات و واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو ڈسٹرکٹ لودھراں پسماندگی اور محرومیوں کی بنا پر تھر موہنجوداڑو اور سندھ کی دور دراز کی تحصیلوں کی مانند دیکھا اور سمجھا جاتا ہے اور یہاں کی عوام کو اسی طرح بے توقیر و ذلیل کیا جاتا رہا ہے جیسا کہ مذکورہ بالا علاقوں میں سردار اور وڈیرے وہاں کے مکینوں کو بھیڑ بکریوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے بالخصوص صدیق بلوچ کے بارے میں لوگوں کے مشاہدات اورتجربات بھی یہی باور کراتے ہیں۔ان سیاسی محرومیوں نے لوگوں کو اتنا زچ کیا ہوا تھا کہ انہیں جیسے ہی کوئی رہبر نظر آیا اس کی جانب اپنی نظر التفات ڈال دیں لیکن عرصہ دراز سے ڈسے یہ لوگ اس بات سے خائف بھی تھے کہ اگر ان کے ساتھ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا والا معاملہ ہوگیا تو وہ کہیں کے نہیں رہیں گے۔ بس یہی بات جہانگیر ترین کو سمجھانا چاہ رہا ہوں کہ عوام نے تھانہ کچہری کی سیاست سے دل برداشتہ ہوکر آپ کی طرف ہاتھ بڑھایا ہے آپ سے بہت سے خواہشات اور امید وابستہ کرلیں ہیں انکی خواہشات بتارہی ہیں کہ وہ اب علاقائی ترقی، معاشی خوشحالی، رزعی اصلاحات، تعلیمی اصطلاحات اور صحت کی سہولیات جیسی بنیادی ضرورتوں کے خواہاں ہیں اپنا اور نسل نو کا مستقبل محفوظ و مامون اور روشن دیکھنے کی آس میں ہیں کیونکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جن علاقوں میں ترقیاتی کام ہوتے ہیں کوئی انڈسٹری لگتی ہے کسی مل کا پہیہ گھومتا ہے تو لامحالہ وہاں کے مکینوں کیلئے معاشی راستے کھل جاتے ہیں معاش کے ذرائع عام ہوجاتے ہیں اور جب لوگ خوشحال ہوتے ہیں تواپنی تعلیمی استعداد کار اور ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنے لئے علاقے اور ملک وقوم کیلئے کار آمدثابت ہوتے ہیں پھر وہ پڑھنا اور پڑھانا بھی چاہتے ہیں بہرحال جہانگیر ترین کی شہرت اس حوالے سے پہلے بھی بہت شاندار ہے اجتماعی مفادات کے کام جابجا ان کی عوام دوستی کا ثبوت دیتے ہیں لیکن اب ان کاموں میں مزید تیزی لانے کی ازحد ضرورت ہے فرعونیت کے بت پاش پاش تو ہوچکے ہیں لیکن یہ نظام بھی اپنی قبر میں دفن ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ نظام کا ہی شاخسانہ ہے کہ لوگ گھٹن زدہ ماحول میں جی رہے تھے اور ابھی بھی ان کی گھٹن اور خوف کم ضرور ہوا ہے لیکن ختم نہیں ہوا اب بھی لوگ انتقامی سیاست سے خوفزدہ ہیں عدم تحفظ کا شکار محسوس کررہے ہیں کہ سابقہ روایات پھر سے نہ دہرائی جائیں ناجائز مقدمات تھانہ کچہری کے چکر چوری چکاری کے معاملات درپیش نہ آئیں تو ترین صاحب ا ن سب کے ان معاملات پر تحفظات دور کرنا ہونگے جان و مال و عزت و عصمت کے تحفظ کا یقین دلانا ہوگا اور عملی طور پر کرنا بھی ہوگا۔ضلعی عوام کی تمناؤں کے مطابق 155 کے معاملات کو بھی آپ ہی نے دیکھنا ہے اپنی ٹیم کو مضبوط و منظم کرنا ہوگا مضبوط اور ہر دلعزیز امیدوار سامنے لانا ہوگا کیونکہ ذرائع اور قرائن بتارہے ہیں کہ155 کا الیکشن بھی قریب ہے اور اگر الیکشن ہوتا ہے تو عبدالرحمن کانجو کو بہت سے مشکلات درپیش ہونگی انہیں بھی صدیق بلوچ کی ہار سے سبق لینا ہوگا علاقے کی سالہا سال کی محرومیوں کو عملی انداز میں دور کرناہوگا ورنہ وقت کا پہیہ بہت ظالم ہے کسی کو نہیں بخشتاشہید کانجو گروپ کیلئے بھی یہ ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے اور انہیں اس پوائنٹ پر اخلاص کے ساتھ توجہ مرکو ز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔کانجو صاحب ایک بات اور وہ یہ کہ یہ ہار کوئی اچانک ر وبہ عمل نہیں ہوئی بلکہ اس کیلئے ایک لمبی پلاننگ، مضبوط اعصاب، جہد مسلسل ،نئے نظام کا تعارف، فرسودہ روایات کا خاتمہ، بے لوث خدمت ،وعدوں کی پاسداری اور طویل وقت جیسے عوامل کارفرما رہے ہیں اور کسی بھی نظام کو بدلنے کیلئے ان سب چیزوں کی ضرورت ایک مسلمہ حقیقت ہے اس مفر ممکن نہیں-

بہرحال جہانگیر ترین نے جس طرح پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ریکارڈ بنائے ہیں کہ ضمنی الیکشن ہو اورٹرن آوٹ59.81 فیصد ہو کبھی نہیں ہوا۔ ضمنی الیکشن ہواور حکومتی پارٹی کا امیدوار انتالیس ہزار کی لیڈ سے ہار جائے اسی طرح ضلع کی عوام کیلئے بھی ریکارڈ ترقیاتی کام فلاحی منصوبے سکول کالجز ہسپتال ٹرانسپورٹ کے وسائل کی فراہمی جیسے بنیادی کام کرنا ہونگے۔اگر انہیں یہ کام ملے تو یقین جانئے اگلا مرتبہ پورا ضلع بھی آپ کا ہوسکتا ہے امید ہے ترسی ہوئی عوام کو مایوس نہیں کریں گے بلکہ ان کا یہ اعلان ہوناچاہئے کہ
غفلتوں میں گھری قوم اٹھ تو سہی
اٹھ کہ تیرا مقدر بدلنے کو ہے
اٹھ گرادے فصیلیں ہر اک ظلم کی
دیکھ اس پار سورج نکلنے کو ہے
 

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211822 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More