آؤمل کر انقلابِ تازہ تر پیدا کریں!
(Rameez Ahmad Taquee, Karachi)
قوموں کی تاریخ میں عروج وزوال کوئی نئی
چیز نہیں ہے؛بلکہ یہ ایک متوارث خدائی قانون ہے اور عروج و زوال کی تاریخ
کوئی بھی قوم خود اپنے اعمال وکردار سے رقم کرتی ہے ،اللہ تبارک و تعالیٰ
انسانوں کی اس دنیامیں ایک قوم کودوسری قوموں پر برتری دے کریا ایک کو
دوسرے کے مقابلے میں نیچادکھاکراس کے نظام کومتوازن رکھناچاہتاہے، ورنہ
توانسانی فطرتیں اس قدرسفاک ہوچکی ہیں کہ یہ روئے زمین کو شروفساد سے
بھردیں ، ارشادِ باری ہے:ُ وَلَوْلاَ دَفْعُ اللّہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ
بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الأَرْضُ وَلَکِنَّ اللّہَ ذُو فَضْلٍ عَلَی
الْعَالَمِیْن‘‘ ( البقرہ: ۲۵۱) اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو بعض سے دفع
نہ کرتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا؛ لیکن اللہ تعالیٰ دنیا والوں پر بڑا
فضل کرنے والا ہے۔ اس آیتِ کریمہ سے جہاں یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ قوموں کے
زوال میں بھی خدائی حکمت پنہاں ہے، وہیں یہ بھی پتا چلتاہے کہ قومیں اپنی
نا عاقبت اندیشیوں کی بنا پرہی زوال پذیر ہوتی ہیں؛چنانچہ ایک دور تھاکہ جب
علمِ اسلام افقِ عالم پر لہرارہاتھا، پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کا
سکہ چلتا تھا،بری و بحری تمام دنیاپر اسلامی سلطنت تھی، باطل طاقتوں اور
شرپسندعناصر کو ہر دم اپنی گوشمالی کا خوف لگا رہتا تھا، ہر جگہ امن وامان
کی فضا قائم تھی؛ لیکن جب مسلمانوں نے دین اسلام کا اور اپنی خودداری کا
سودا کرلیا، تو پوری دنیا جہنم کدہ بن گئی، خود مسلمان اپنی شناخت چھپانے
پر مجبور ہوگئے۔ تا ریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ تقریبا آٹھ سو سال تک
مسلمانوں کے عروج کا زمانہ رہا ہے، اس کے بعد جوں جوں ان کے ایمان و یقین
میں تنزلی آنی شروع ہوئی ، وہیں سے دنیاپران کا رعب بھی کم پڑنے لگا، حالت
بایں جا رسیدکہ آج پوری دنیا میں مسلم قوم سب سے مظلوم ومقہور بن گئی ہے،
اب تواس کے خلاف ایسے ایسے پرو پیگنڈے اور ہتھکنڈے اپنائے جارہے ہیں کہ ان
سے نبرد آزما ہونابھی مشکل نظر آتا ہے، سیاسی، سماجی ،معاشرتی اور علمی ہر
سطح پر اس کو دبانے اور کم تر دکھانے کی مکمل سازشیں ہوچکی ہیں۔ آپ دنیا کے
جس خطے میں جائیں ،تقریبا ہر جگہ مسلمانوں کو انہی مسائل میں گھرے ہوئے
پائیں گے۔ وہ بھی کیا دور تھا کہ صرف ایک مسلم خاتون کی آواز پر سلطنتِ
اسلامیہ کے کان کھڑے ہوجاتے تھے اورسارے مسلمان مل کر الجہاد الجہاد کا
ایسا فلک شگاف نعرہ بلند کرتے تھے کہ ایوانِ باطل لرز اٹھتا تھا ،مگر آج ہر
چہار طرف سے ہزاروں مسلم بہو بیٹیوں کی چیخ وپکار ہے اور وہ اپنی عزت وآبرو
کی دہائی دے رہی ہیں،مگر کوئی ان کی مدد کو نہیں پہنچتا، صرف ایک بیوہ کی
بیقراری نے حضرت عمر کو بیقرار کردیاتھا، آج تو ہزاروں دل بیقرار ہیں، ایک
معصوم کلی عقیل کی بھوک آپ ﷺ کو برداشت نہ ہوسکی ، آج تو ہزاروں معصوم بچے
بھوک پیاس سے بلک رہے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں پچاس سے زائد مسلم ممالک
ہیں، لاکھوں کی تعداد میں مسلم این جی اوز اور رفاہی ادارے ہیں، خود
ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے نام پر بے شمار ادارے کام کررہے ہیں،
نیزوہ مدارس جن کو اسلام اور مسلمانوں کا سفینۂ نجات بتلایا جاتا ہے، پوری
دنیا میں آج کڑوروں کی تعداد میں موجود ہیں؛ بلکہ صرف ہندوستان میں پچاس
ہزار سے زائد مدارس ہیں، مگر یہ ادارے، رفاہی تنظیمیں اور مدارس پھر ان کے
صدور ونظما کس کام کے، قومِ مسلم تو تمام گوشہ ہاے عالم میں پریشانی وبے
چینی کی شکار ہے ، ہر جگہ اس کے ایمان واسلام پہ ڈاکہ ڈالا جارہا ہے، اس کے
فرزندوں کے خون سے پوری دنیالالہ زارہے ،اس کی عورتوں کی عزتوں کو داؤ پر
لگایا جارہا ہے اور اس کے معصوم بچوں کو آگ کا ایندھن بنایا جارہاہے،
مگرکوئی باطل کی آنکھ میں آنکھیں ڈالنے کی جرأت نہیں کرتا، ان کے حال
پرکوئی ترس نہیں کھاتا، ان کے غم کو اپنا غم اور ان کے درد کو اپنا دردکوئی
نہیں سمجھتا، سمجھے ہی کیسے؟ سمجھنے کے لیے وہ باضمیری و خودداری ہی نہیں
رہی، کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ کس چیز نے ہمارے نبی کو سونے نہیں دیا ، وہ
کیا چیز تھی، جس کی خاطر ابو بکر صدیق نے اپنا سب کچھ نچھاور کردیا، جس کی
خاطر عمر فاروق نے راتوں کو سونا چھوڑدیا اور عثمان و علی نے جام شہادت نوش
کیا؟سرِ شام ہم تو مے خانے میں عیش وعشرت کے جام لنڈھاتے ہیں، رقص و سرودکی
محفلیں سجاتے ہیں، راتوں کو جاگتے ہیں، مگر اپنے لیے اوراپنی عیش طلبی کے
لیے، امت کے حال پر رونے والا، اس کے حال پرآنسو بہانے والااور اس کے درد
کو سینے سے والاکوئی نہیں ، پوری امت کی فکر کرنا تو د ور کی بات، اگر اپنے
گاؤں اور قبیلے کی بھی صحیح فکر کرنے والے مل جائیں ، تو ہمارے مسائل کا
تصفیہ ممکن ہوجائے ،؛لیکن ہماری حالت تو یہ ہے کہ ہم چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں
میں بٹ کر اپنا وقار کھورہے ہیں ، کوئی کسی مکتبۂ فکر کی اتباع کرتا ہے، تو
کسی کا مقتدا کوئی اور ہے، کو ئی ائمۂ اربعہ کی پیروی کرنا چاہتا ہتے، تو
دوسرا ان کو گالی دیتا ہے، کوئی اولیاء اللہ کو پوجتا ہے ،تو کوئی انھیں
برا بھلا کہتا ہے ، کوئی قبر کو مسجد بناتا ہے تو کوئی ماہِ حرام میں اپنے
جسموں کو لہو لہان کرکے شہدائے کربلا کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے زعم میں
مبتلاہے، غرضیکہ جس کے جو من میں آتا ہے کرتاہے ، مگر کوئی ایمانداری سے
بتاسکتا ہے کہ وہ ان ختلافات سے پرے صرف امت واحدہ کے لیے کچھ کرتا
ہویاسوچتاہو!
آج پوری باطل اور طاغوتی طاقتیں مسلمانوں کے خلاف متحد ہوچکی ہیں ، ساری
تاریخِ یہودیت وعیسائیت میں کبھی بھی یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان اتحاد
نہیں دیکھاگیا، مگراب وہ بھی ہمارے خلاف متحد ہوچکے ہیں ۔وہ ہندوستان، جس
کی گنگا جمنی تہذیب کی لوگ سراہناکرتے نہیں تھکتے اورجس کی ایک تاریخ یہ
بھی رہی ہے کہ وہاں اعلیٰ برادری کے ہندو کبھی شودراور دیگر دوسری چھوٹی
برادریوں کے لوگوں کو گھاس نہیں ڈالتے تھے،مگرمسلمانوں نے وہاں آکریکجہتی و
ہم آہنگی کے بیج بوئے اوربرداشت،اعتماد،رواداری و مساوات کے نمونے پیش کیے۔
آج وہاں شیو سینا اور دیگر ہندو تنظیمیں سارے ہندووں کومذہب کی بنیادپر
جوڑنے کے کام میں لگی ہوئی ہیں اور ان کی صرف ایک آواز پر سب ہمارے خلاف
متحد ہوجاتے ہیں اور جب چاہتے ہیں ہماری اینٹ سے اینٹ بجادیتے ہیں، ملک کو
بندر بانٹ کرنے کی بھی سازشیں ہورہی ہیں ۔ تاریخ بھی گواہ ہے کہ جہاں کہیں
بھی فرقہ پرستی نے جنم لیاہے، اس نے ملکوں کو دولخت کیااور دلوں
کوتوڑاہے،تاریخ کی کتابیں اٹھاکر دیکھیے کہ ایشیاکا ایک مسلم ملک انڈونیشیا،
اس میں ایک چھوٹا سا حصہ’’تیمور‘‘ ہے،جس میں عیسا ئی اکثریت آباد تھی ، اسی
طرح سوڈان جہاں مسلم حکمرانی تھی اس کے ایک علاقے میں عیسائی اکثریت تھی،
پوری دنیا کے عیسائیوں نے مل کر ان کو ان کے ملک سے الگ کردیا اور وہ دونوں
ملک تقسیم ہو گئے، اب اگر ہندوستان ہندو راشٹر بنا، جس کا فرقہ پرست ہندو
دعوی ومطالبہ کررہے ہیں تو کون ہے، جو اس ملک کو تقسیم ہونے سے بچا لے گا
اور اگر ملک تقسیم ہوا؛ بلکہ جیسی ہوا چل رہی ہے، اس سے تو یہی اندازہ ہوتا
ہے کہ ہمارا ملک تقسیم ہوچکا ہے، اس ماحول میں کیا کوئی ضمانت لے سکتا ہے
کہ مسلمان مامون رہ پائیں گے، جو لوگ مسلم حکومت کے نام پر پاکستان ہجرت
کرگئے ،آج آزادی کو تقریبا ستر سال ہوچکے ہیں،مگروہ اسی عالم بے چینی و کرب
میں ہیں، جب وہاں ان کے ساتھ اچھے سلوک نہیں ہوئے ، جب اپنے بھائیوں نے
اچھا سلوک نہیں کیا ،تو غیروں سے خیرکی کیا امید کی جاسکتی ہے۔ اور اس وقت
جب کہ ہم خودٹکڑوں میں بٹے ہوں، تو ہم ان کی کیامددکرسکتے ہیں۔
یہ کس قدرحیرت و افسوس کامقام ہے کہ آج مسلمانوں نے اتحادواتفاق اور بھائی
چارہ کو چھوڑ کر اختلاف وانتشار اورباہمی جنگ وجدال کو اپنا شیوہ بنا لیا
ہے، علم وحکمت سے منھ موڑ کر ضلالت وجہالت کو مقصدِ حیات سمجھ لیا ہے ،
اسلامی سلطنت کو ٹکڑوں میں بانٹ کر پہلے مظلوم ہوئے اور اب مجبور بن گئے
ہیں ، دل سے قوم کا درد اور سودوزیاں کا احساس ختم ہوگیاہے، اب دل میں صرف
اپنی اَنا نے جگہ لے لی ہے۔ ہم پہلے فکری اختلاف کے شکار ہوئے اور پھر وہی
اختلاف ذات کا مسئلہ بن گیا،اختلافات تو حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ کے
مابین بھی ہوئے تھے ؛ لیکن اس کے باوجود حضرت امیر معایہ نے کبھی بھی اس
مسئلہ کو اپنا ذاتی مسئلہ نہیں سمجھا، یہی وجہ ہے کہ جب ایک عیسائی بادشاہ
نے ان کو حضرت علی کے خلاف ورغلایا، تو انہوں اس کو سخت الفاظ میں جواب دیا
کہ ہمارے آپسی اختلاف سے تم دھوکے میں نہ پڑو، اگر تم نے حضرت علی کی طرف
رخ کیا، توعلی کے جھنڈے کے نیچے سب سے پہلا سردار جو تمہاری گوشمالی کے لیے
آگے بڑھے گا وہ معاویہ ہوگا۔
اے کاش آج ہمارے دل بھی ویسے ہی ہو جاتے ،جب ہم سوچتے تو اس میں امت کا غم
اور فکر ہوتی، جب روتے تو اس میں دوچار قطرے امت کے لیے بھی ہوتے ، جب
بولتے تو امت کی فلاح کے لیے بولتے اور جب چلتے تو ہمارا ہر قدم اپنی قوم
کی کامیابی کے لیے اٹھتا۔مگر افسوس کہ ہمارے جذبات سرد پڑچکے ہیں، احساسات
وافکار زنگ آلود ہوچکے ہیں، قوم پٹ رہی ہے، ہر جگہ اس کو بدنام اور ذلیل
ورسواکرنے کی ناکام کوششیں ہورہی ہیں، دنیابھر میں ہر طرف فرقہ پرستی،تعصب
وتنگ نظری کی آگ لگی ہے، ہرطرف سے مسلمانوں کو گھیرا جارہا ہے ، باطل اپنی
پوری تیاری کے ساتھ ہمیں اپنے حصار میں لے چکا ہے، ہماری اشیاء خوردونوش
اور ذرائعِ مواصلات ہر چیز پر ان کا قبضہ ہے، ہم مکمل طور پر ان کے نرغے
میں آچکے ہیں ، جس سے باہر نکلنا تقریبا مشکل نظرآتاہے ۔مگر ناامیدی کفر ہے،
ہم حضرت بلال کی روحانی اولاد ہیں، ہماری رگوں میں مصعب بن عمیر کا خون
دوڑرہا ہے، ہمیں سلمان فارسی کی ذہانت اور ابوبکر کی حکمتِ عملی اور حضرت
عمر کے جوش وخروش اورفکروتدبرکو بروئے کار لاکر اس مسئلے پر غور کرنا ہوگا۔
اس وقت ہمارے لیے کرنے کے دو اہم کام ہیں: اول مسلمانوں کے قلوب کو ایمان
ویقین کی روشنی سے منور کرنا ،دوم اس کی روشنی سے پورے عالم پر چھائی ہوئی
جہالت کی تاریک چادر کو چاک کرنا، غزوۂ خندق کے نقشہ کو سامنے رکھ کر
قائدین اور عمائدین ملت اس مسئلہ کو حل کریں اورمتحد ہوکر کوئی لائحۂ عمل
تیار کریں ، کیونکہ اب وقت آپسی اختلاف وانتشار کا نہ رہا، مناظرے اور
مباحثے کا وقت بھی ختم ہوچکا ہے ، اگر ہم اسی طرح جس طرح بغداد پر تاتاری
حملہ آور سوار تھے اور وہاں کے علما اس بحث میں مشغول تھے کہ ایا پانی سے
استنجا کرنا افضل ہے یا مٹی سے، اگرہم آج بھی انہی جزوی اختلافات میں گھرے
رہے، تو جو ان کا حشر ہوا تھا، اس سے بھی کہیں زیادہ برے حالات ہم پر آنے
والے ہیں، اس لیے ابھی بھی وقت ہے کہ ہم عقل وخردکے ناخن لیں اورفروعی
اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اس مسئلے پرغور کریں،کیونکہ زبانِ نبوی کے
مطابق پوری امت ایک جسم کی مانند ہے اور اگرجسم کے کسی حصے کو جب تکلیف
پہنچتی ہے تو اس کا احساس پورے جسم کو ہوتا ہے، لہذا اب ہم یہ عزم کریں کہ
قوم کے درد کو ہر دم اپنا درد سمجھیں گے، اپنے اندر وہ غم اور کڑہن پیدا
کریں گے جو آپ ﷺ کے دل میں موجزن تھا اور تمام عمر اللہ کے رسولِ برحق ﷺ کے
فرمان: لایومن احدکم حتی یحب لاخیہ مایحب لنفسہ ، کے مطابق اپنی زندگی
گذاریں گے، ورنہ ہماری یہ ساری محفلیں، ادارے اور ساری انفرادی کوششیں
رائیگاں ہوجائیں گی اور ہم اپنے مقصدمیں کامیاب بھی نہیں ہوسکیں گے۔ |
|