" ماواں ٹھنڈیاں چھاوں" کی حقیقت و اہمیت کو مدِ
نظر رکھتے ہوئے اگر ہم اسکے اثرات ملکی سطح پر بھی دیکھنا چاہیں تو پاکستان
و ہندوستان کے وزرائے اعظم کی مثال آج کل ایک نئی راہوں پر سرگرم نظر آرہی
ہے۔
نریندر مودی نے جب مئی2014ء کو نئی دہلی میں بھارت کے وزیرِ اعظم کی حیثیت
سے حلف اُٹھایا تو اُس تقریب میں پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے نہ کہ
صرف شرکت کی بلکہ بعدازاں ملاقات کے دوران دونوں وزرائے اعظم نے اپنی اپنی
والدہ کے متعلق اپنی خوش قسمتی اور اُنکا خیال رکھنے کا اظہار کیا
اورنریندر مودی نے نواز شریف کے ہاتھ اُنکی والدہ کیلئے ایک" شال" بھی
بھیجی۔
دسمبر2015ء کے دوسرے ہفتے میں جب وزیرِ خارجہ بھارت ششماسوراج دورہِ
پاکستان کے بعد واپس گئیں تو بھارتی اخبار نے انکشاف کیا کہ اُنھوں نے
وزیرِ اعظم پاکستان نوازشریف کی والدہ محترمہ شمیم اختر صاحبہ سے جب ذاتی
سطح پر ملاقات کی تو اُنھوں نے وزیرِ اعظم مودی کی طرف سے بھیجی گئی اُس
"شال "پر اُنکا شُکریہ ادا کیا۔ نوازشریف کی والدہ نے اُنھیں بتایا کہ وہ
غیر منقسم بھارت میں امرتسر میں بھیم کا کترا میں پیدا ہوئیں اور وہ وہاں
سے آنے کے بعد دوبارہ بھارت جانا نہیں ہوا ۔لہذا تقسیمِ ہند کے بعد پہلی
دفعہ کسی بھارتی مہمان سے مل رہی ہیں۔
ششماسوراج اور والدہ محترمہ کے درمیان کچھ اور بھی ماضی کی اُداس یادوں اور
ذاتی لمحوں پر تبادلہ خیال ہوا اور نواز شریف کی والدہ نے اُن سے وعدہ بھی
لیا کہ " تو میرے وطن سے آئی ہے ،وعدہ کر سمبندھ (تعلقات) سدھار کے جائے
گی" ۔ششما سوارج کے مطابق اُنھوں نے واپسی پر بھارت کی سر زمین پر قدم
رکھنے سے قبل اپنا کیا ہوا وعدہ پورا کر دیاتھا۔بہرحال جب نواز شریف کی
والدہ نے ششما سوارج کو گلے لگایا تو اُنھوں نے والدہ محترمہ کو کہا کہ" آپ
کا سایہ ہے تو سب اچھا ہو گا"۔
بھارتی وزیر خارجہ ششما سوراج کی سوچ بھی نہیں تھی کہ ذاتی رابطے خارجی
تعلقات میں اتنے اہم ہو سکتے ہیں۔لہذا "ہندوستان ٹائمز " کے مطابق اُنکی
ملاقات نواز شریف کی خاندان کی باقی خواتین سے بھی ہوئی بلکہ وہاں پر موجود
4نسلوں سے ملاقات ہوئی اور دورہِ پاکستان کے خاتمے سے قبل اسلام آباد سے
مریم نواز صاحبہ کو فون پر پیغام دیا کہ " اپنی دادی کو بتا دینا کہ اُنھوں
نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے اپنے وعدے کو پورا کیا
ہے"۔
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ابھی یہ خوشگوار ماحول کی فضا ء زیرِ بحث
ہی تھی کہ 25ِدسمبر2015ء کی سہ پہر کو وزیراعظم ہندوستان نریندر مودی روس
اور پھر افغانستان کا دورہ مکمل کرنے کے بعد نئی دہلی جاتے ہوئے اچانک اپنے
وفد کے ساتھ لاہور پہنچ گئے اور وزیرِ اعظم نواز شریف اُنھیں لاہور ائیر
پورٹ سے بذریعہ ہیلی کوپٹر اپنے گھر واقع جاتی عمرہ رائے ونڈ لے گئے۔وہاں
پر وزیر اعظم نواز شریف کی سالگرہ اور اُنکی نواسی کی مہندی کی تقاریب کا
اہتمام جاری تھا۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی کیلئے جہاں یہ ایک دلچسپ مراحلہ تھا وہاں وزیرِ
اعظم نوازشریف کے خاندان سے ملاقات کا ایک بہترین موقع بھی تھا۔ لہذا
اُنھوں نے وہاں پر موجود اہلخانہ سے ملاقاتیں بھی کیں اور میاں صاحب سے یہ
بھی پوچھا کہ" آپ کا پر ی وار کتنا ہے"ْْ؟اس پر میاں صاحب نے جواب دیا ہم
سب مل کر رہتے ہیں ۔جس نریندر مودی نے کہا کہ پھر تو آنا جانا لگا ہی رہے
گا۔ بلکہ شہباز شریف صاحب سے ملاقات پر اُنھوں نے اُنکی عملی و عوامی خدمت
و کاموں کو سراہتے ہوئے کہا کہ انکا تو بہت چرچا سُنا ہے۔
وزیرِاعظم نریندر مودی کی وہاں پر سب سے قابلِ ذکر ملاقات وزیرِ اعظم نواز
شریف کی والدہ محترمہ سے رہی جنکے اُنھوں نے پاؤں چُھوئے اور چند الفاظ میں
اپنے خیالات کا اظہار کیا جس پر والدہ محترمہ نے کہا کہ " دونوں اتفاق سے
رہو گے تو آگے بڑھو گے"۔اس پر اُنھوں نے کہاکہ" آپ فکر نہ کریں ہم اکٹھے ہی
رہیں گے" ۔
پاکستان اور ہندوستان کے وزرائے اعظم کے درمیان اس ملاقات میں سیاسی سطح پر
کیا پیش رفت مستقبل میں نظر آئے گی اس پر تو ا وزیرِ اعظم مودی کے لاہور
پہنچنے پر ہی تبصرے و تجزیات شروع ہو گئے تھے ۔خوش آمدید بھی کہا جارہا تھا
اور کچھ حلقوں کی طرف سے تنقید بھی ہو رہی تھی اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری
ہے ۔لیکن کشمیر کے رہنما ء میر واعظ عمر فاروق کا یہ بیان کہ پاک بھارت کا
یہ امن کی طرف اچھا قدم ہے۔مستقبل کی نئی راہیں کھولنے کا باعث بن سکتا ہے
۔
بہرحال فی الوقت" مدر ڈپلومسی "کو ہی اگر ایک اچھی روایت سمجھ لیا جائے تو
پھر ماؤں کی عزت کرنے والوں کو اب اُن ماؤں کا بھی خیال کرنا چاہیئے جنکے
بیٹے بیٹیاں اس خطے میں اپنی آزادی کیلئے اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی
گریز نہیں کر رہے ہیں۔
یہی حقیقت ہے کہ "ماں کا حق ادا کریں گے تو راستوں میں پھولوں کی ہی سیج ہو
گی"۔
|