طاقت کی وحشی جبلت۔۔۔۔۔۔؟

غلط کہا تھا ساحر نے کہ ’’ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے‘‘جھوٹ بولا تھا فیض نے بھی کہ اک ذرا صبر کہ اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں لاہور میں 14سالہ ’’حوا کی بیٹی‘‘ شیخوپورہ میں اپنا حق مانگنے پر 16 سولہ ابوبکر کے دونوں ہاتھ کاٹ دئیے گئے ،گزشتہ سال ظالموں نے گجرات کے اک گاؤں میں ایسی ہی داستان لکھی تھی کہ اک کمسن بچے کو دونوں ہاتھوں سے محروم کر دیا تھا ،اور تو ظالموں نے سال کے آخری دن میں مردان میں ظلم اور کون کی ہولی کھیلی ۔۔۔۔۔دہشت گردوں کے آخری سانسوں میں ایسی بزدل کاروائی قوم کے حوصلے پست نہیں کر سکتی۔۔۔۔۔زمانہ قدیم سے ہر طاقت ور حق مانگنے والوں کے ہاتھ کاٹتا آرہا ہے ،قدیم انسان کے اندر سے مشکل حالات میں زندہ رہنے کے لئے تشدد اور ضرسائی کی ضرورت جبلیت بن کر لہو میں رچ بس گئی تھی ،آج بھی اگر کچھ لوگوں کو کسی درندوں سے بھرے ہوےء ویران جزیرے میں چھوڑ دیا جائے تو ان کے اندر زندہ رہنے کے لئے دوسروں سے زیادہ طاقت حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوگی اور ایک دوسرے کو مارنے کی جبلیت ابھر آئے گی ،شاہد اسی حقیقت کو ڈارون نے کسی اور پہلو سے دیکھتے ہوئے ہمیں Surrvival of the Fittestجیسی تھیوری سے آشنا کیا ،طاقت حاصل اور اسے بڑھانے کی جبلیت کچھ لوگوں میں اتنی شدت کے ساتھ ابھرتی ہے کہ وہ اپنے مقصد کے حسول کے لئے دوسروں کو تکایف اور خوف میں مبتلا رکھتے ہیں تا کہ وہ ان کے سامنے سر نہ اُٹھا سکیں اور ان کو زیر رکھنے کی خواہش اور خود کو ایک حاکم تسلیم کرانے کی تمنا دراصل ایک ایسا عمل ہے جس میں کسی منطقی فکر یا تہذیبی اصولوں کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے ، اور جب منطقی سوچ اور تہذیبی اصول یعنی قاعدے اور قانون نابود ہو جائیں تو ورثے میں ملی ہوئی وحشیانہ جبلت شدت کے ساتھ ابھر آتی ہے ،اس وقت بھی دنیا کچھ لوگوں کی اسی جبلت کے ہاتھوں لہولہان ہے ،طاقت کی وحشی جبلت نے جگہ جگہ سڑکوں ،گلیوں اور مکانوں میں خوف اوروحشت سے بھری ہوئی اتنی تصویریں لگا رکھی ہیں کہ انسان نے آنکھیں بند کرنے پر مجبور ہو گیاہے ، وہ ماں جس نے ایک خوبصورت اور مکمل بچے کی پیدائش کی خوشی میں متھائی بانٹی تھی جب وہ اس کٹے ہوئے ہاتھ کو دیکھتی ہو گی تو اس کے دل پر کیا گزرتی ہو گی ۔۔۔۔وہ باپ جو جوان ہوتے ہوئے بیٹے کو دیکھ کر ایک تابناک مستقبل کے کواب دیکھتا تھا جب اس کے سامنے اس کے بریدہ ہاتھ آئے گا تو اس کا کلیجہ منہ کو آتا ہو گا۔۔۔۔اور راقم یہ سوچ کر کانپ جاتا ہوں کہ دست بریدہ لوگ کیسے زندگی گزارتے ہوں ہونگے۔۔۔۔۔؟ہاتھ ملاتے ہوئے۔۔۔۔۔۔؟کسی کو رستہ بتاتے ہوئے۔۔۔۔؟بچوں کو کھلاتے ہوئے۔۔۔۔؟کیا وہ ہاتھ اچانک جسم سے نکل نہیں آتے ہوں گئے۔۔۔۔؟

مردان میں گزشتہ روز ہونے والی’’دہشت گردی ‘‘جس سے کئی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھونا پرا متعدد زخمی ہوئی دہشت گردوں کی ایسی بزدلانہ کاروائیاں ہمارے حوصلے پست نہیں کر سکتی ہیں پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف موثر کاروائیاں ہو رہی ہیں اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد ضروری ہے اور تمام جماعتوں کو آن بورڈ ہو نا چائیے۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں کی گئی تمام پیش رفت کا اصل مقصد خطے میں امن پیدا کرنا ہے اور اپنی سرزمین سے دہشت گردی اور کسی بھی جارعیت سے محفوظ رکھنا ہے پاکستان اپنے دفاع کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے اور ملک کے اندراوکستار بیرونی ہر قسم کی دہشت گردی کے خاتمے میں مکمل سنجیدہ کوششوں میں مصروف ہے ۔۔ملک اس وقت دہشت گردی کے جس بد ترین دور سے گزر رہا ہے اس کا تقاضا ہے کہ انصاف میں غیر ضروری تاخیر نہ ہو اس لحاظ سے ملک اور معاشرے کے خلاف سنگین جرائم کی سماعت فوجی عدالتوں میں ہو رہی ہے ابھی گزشتہ روز چار دہشت گردوں کو کوہاٹ جیل میں پھانسی دی گئی ہے ۔۔۔۔پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے اس بیان کے بعد کے کراچی آپریشن میں قانون شکن عناصر کی بجائے ان کی پارٹی کو ہدف بنایا جا رہا ہے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن کو اس کے انجام تک پہنچائیں گئے ، حکومت سندھ نے رینجرز کو اختیارات دینے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے، آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ دہشتگردوں کے مدد گار چہرے ہر قیمت پر بے نقاب کریں گے۔ اپنے بچوں اور لوگوں کو مارنے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے اور کرپشن اور کراچی آپریشن کو بلا کسی تفریق کے جاری رکھا جائے گا وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان شریف قدر۔ مشترک ہے کوئی مانے یا نہ مانے یہ بات آسمانی ہے ورنہ یہ سفینہ یوں پورے توازن ساحل کی طرف رواں نہ ہوتا ،پہلی بار سیاسی حکومت اورفوج واقعتا برائے تطہیر چمن ایک پیج پر ہیں اور دونوں میں کوئی اختلاف نہیں کہ گلشن کی کوئی روش صاف نہیں ہے کہ اﷲ تعالی اور اس کے ر سول اﷲﷺ کے نام پر عطاء کئے جانے والے اس ملک کو تا وقت قیامت تک محفوظ رہے گا۔۔2015کے سال کا آخری دن بھی آج گزر جائے گا اور ۔۔۔۔۔گزشتہ کتنے برسوں سے کرپشن، بدعنوانی،اور لاقانونیت ہو رہی ہے ،لورڈ شیڈنگ نے کتنے اور سال رہنا ہے۔۔۔؟ بہت سے من پسند منصوبے کا ٓغاز ہونا ہے۔۔۔؟ ابھی سیلاب جیسے کئی سانحے اور ہونے ہیں ۔۔۔؟ بہت سے ناہل لوگوں کو نوازانا ہے۔۔۔؟ بہت مال کھانا ہے ۔۔۔فاران اوکاوئنٹس کا پیٹ بھرنا ہے۔۔۔؟ کئی کاغذی ہاوسنگ سوسائٹی شروع کرنی ہیں ۔۔۔؟ مگر اب شاہد حکومت میں رہنے والے ایسے افراد کے خواب شرمندہ تعیبر نہ ہوں ۔۔۔کیوں کہ اب صرف اور صرف احتساب ہونا ہے کہیں نامور لوگ سلاخوں کے پیچھے جانے والے ہیں۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Dr M Abdullah Tabasum
About the Author: Dr M Abdullah Tabasum Read More Articles by Dr M Abdullah Tabasum: 63 Articles with 43938 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.