ریاست جموں و کشمیر کی مائیہ ناز شخصیت۔۔خواجہ عبدالصمد وانی ؒ

ممتازدانشور ٗ کشمیری رہنما ٗ ہفت روزہ ’’کشیر‘‘ کے ایڈیٹر ٗ خواجہ عبدالصمد وانی31دسمبر2001ء کو مظفر آباد میں اچانک دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئے۔مظفر آباد کے جلال آباد پارک میں ان کی نماز جنازہ ساڑھے دس بجے دن ادا کی گئی اور اس کے بعد ان کی میت ان کے گھر راولپنڈی روانہ کی گئی۔راولپنڈی میں بھی ان کا بہت بڑا جنازہ ہوا۔ خواجہ عبدالصمد وانی کی شخصیت کشمیریوں کے ا ن جذبات کی عکاس ہے کہ کشمیری پاکستان سے کس طرح کی والہانہ محبت اور عقیدت رکھتے ہیں۔ وانی صاحب نے ساڑھے چودہ سال کی عمر میں نظریہ پاکستان کے مقصد سے 1950 ء میں مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کی اور آخری دم تک نظریہ پاکستان کے پرزور داعی رہے ۔ نظریئے کے بارے میں وانی صاحب پر کبھی بھی کمزور لمحات حاوی نہیں ہو سکے۔ برصغیر اور کشمیر کے مختلف شعبوں سے متعلق وانی صاحب حیرت انگیز معلومات رکھتے تھے۔ تاریخ ٗ سیاست اور حالات حاضرہ کے ہرموضوع سے متعلق ٗ وانی صاحب کی معلومات سے ٗ کئی اہم شعبوں کے افراد اپنی معلومات ’اپ ڈیٹ ‘ کرتے تھے۔ آزادکشمیر یونیورسٹی کے شعبہ مطالعہ کشمیر کی مجلس مشاورت کے علاوہ وانی صاحب پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں میں واحد غیر سرکاری رکن رہے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ کشمیر یات میں وانی صاحب کی شخصیت پر پی ایچ ڈی کا مکالمہ لکھا گیا اور نئی دہلی کی جواہر لال ریسرچ یونیورسٹی میں ایک کشمیری ہندو نے وانی صاحب کی شخصیت پر پی ایچ ڈی کا مکالمہ تیار کیا۔آزادجموں وکشمیر یونیورسٹی مظفرآباد کے شعبہ مطالعہ کشمیر کی مجلس مشاورت کے علاوہ پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں میں آپ واحد غیر سرکاری رکن رہے ہیں۔ پاکستان کے کالم نویسوں اور سیاسی مبصرین نے وانی صاحب کو پاکستان میں ’امورکشمیر ‘کا سب سے بڑا ’ماہر‘ قرار دیا اور پاکستان کے معروف اور ممتاز تعلیمی ادارے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد نے وانی صاحب کو ایم فل کی ڈگری کیلئے اپنے ایگزامینر پینل میں شامل کیا ۔ یکم ستمبر 2001ء کو وانی صاحب کو آزادکشمیر کے وزیراعظم سردارسکندرحیات خان نے اپنا معاون خصوصی مقرر کیا ۔ اس طرح وانی صاحب اپنی نصف صدی کی سرگرم سیاسی اورصحافتی زندگی میں پہلی بار آزادجموں وکشمیر کے سرکاری سیٹ اپ میں شامل ہوئے۔

وانی صاحب نظریۂ پاکستان کو ایک تحریک کا نام دیتے تھے ٗ ایک ایسی تحریک جس کا مقصد ریاست جموں وکشمیر کے مسلمانوں کے حقوق کا حصول اور ان کی ترقی و سربلندی ہے۔تحریک آزادی کشمیر اور پاکستان سے وانی صاحب کی دیرینہ اور گہری وابستگی نظریات اور اصولوں کی بنیاد پر استوار رہی ہے۔ اب کوئی ایسا شخص نہیں جو تحریک آزادی کشمیر اور کشمیر کے ہر فردسے بخوبی واقف ہو۔ یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ وانی صاحب کے انتقال سے کشمیری ایک مضبوط نظریاتی چٹان سے محروم ہوگئے ہیں۔ وانی صاحب نے قائدکشمیر چوہدری غلام عباسؒ کے کہنے پر یکم جنوری 1966 ء کو راولپنڈی /مظفرآبادسے ہفت روزہ اخبار ’’کشیر‘‘ جاری کیاجو ان کی ادارت میں کشمیریوں کا ترجمان اور کشمیری صحافت کا پرفخر نشان ثابت ہوا۔ ہفت روزہ ’’کشیر‘‘ آزادکشمیر ٗ مقبوضہ کشمیر ٗ پاکستان اور بیرون ملک مقیم کشمیریوں میں یکساں مقبول و معروف ہے ۔ مسئلہ کشمیر اور آزادو مقبوضہ کشمیر کے بارے میں اندرونی صورتحال سے آگاہی کا ٗ ’’کشیر‘‘ ایک موثر ذریعہ ہے۔ وانی صاحب نے ’’کشیر‘‘ کو نظریہ پاکستان اور کشمیریوں کے حقوق کے حصول کا پرزور داعی بنایا ہے۔’’کشیر‘‘ نے ہمیشہ نظریات اور اصولوں کی بنیاد پر تعمیری تنقید کے انداز کی ترویج کی ہے۔وانی صاحب کی وفات کے بعد بھی تمام تر مشکلات کے باوجود’’کشیر‘‘ نے کسی حد تک اپنی اقدار روایات کو برقرار رکھا ہے۔
خواجہ عبدالصمد وانی 2 اکتوبر 1935 ء میں سری نگر بانڈی پور روڈ پر18میل پر واقع ایک تاریخی گاؤں صفا پورہ کے ایک معزز وانی خاندان کے متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ اس خاندان کا آبائی پیشہ تجارت ہے۔ دنیا کے سینئر ترین ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر احمد حسن وانی کے مطابق کشمیر کے قدیم دور میں سنسکرت کے عالم کو وانی کہا جاتا تھا۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے پرائمری سکول صفا پورہ پبلک سکول جس مڈل سکول سمبل ٗلوئر ہائی سکول گاندر بل اور گورنمنٹ ہائی سکول بانڈی پور سے حاصل کی۔ سکول کے زمانے سے ہی آپ نے خاندانی روایت کے مطابق آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس اور تحریک پاکستان میں دلچسپی لینا شروع کی۔ مسلم کانفرنس کو نومبر 1947 ء میں بھارتی حکام کی طرف سے خلاف قانون قرار دیا گیا آپ آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کی طلبہ تنظیم جموں وکشمیر مسلم سٹوڈنٹس یونین کے علاقائی پبلسٹی سیکرٹری مقر ر ہوئے۔ 1950 ء میں اقوام متحدہ کے نمائندے سراوون ڈکس نے کشمیر کا دورہ کیا تو اس موقع پر کشمیری نوجوانوں نے جگہ جگہ ٗ بھارت کے خلاف اور پاکستان کے حق میں پرجوش مظاہرے کئے۔ ایک ایسے ہی مظاہرے کی قیادت کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی پولیس نے خواجہ عبدالصمد وانی کو گرفتار کر کے شدید تشدد کے بعد بدنام زمانہ تھانہ کوٹھی باغ سری نگر کی حوالات میں قید کر دیا۔،جو بھارت مخالف پاکستان کے حامیوں کے لئے ایک سب جیل تھی۔ جون 1950 ء کا مہینہ آپ اسی سب جیل میں مقید رہے۔ یکم جولائی کو رہائی کے بعد انہیں پولیس کے مقامی چوکی آفس شادی پورہ میں ہر ہفتے حاضر ی دینے کا پابند کیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر کی پولیس کے ظلم و ستم اور تشدد سے تنگ آکر آپ پاکستان کی عقیدت اور آزادی کی تلاش میں اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ ہجرت کر کے آزادکشمیر /پاکستان آئے۔ انہوں نے 25 اگست 1950 ء کو وادی نیلم کے بالائی علاقے کے ایک مقام جندر سیری کے مقام سے جنگ بندی لائن (حال کنٹرول لائن) عبور کی ۔ یکم ستمبر 1950 ء کو مظفرآباد اور 8 دسمبر کو راولپنڈی پہنچے۔ یہاں آپ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس میں نہایت سرگرم رہے اور 1954 ء میں مسلم کانفرنس کی راولپنڈی شاخ کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے۔ 17 اگست 1955 ء میں سردار عبدالقیوم خان کو پہلی بار مسلم کانفرنس کا صدر منتخب کیا گیا تو خواجہ عبدالصمد وانی مسلم کانفرنس کی انتظامی کمیٹی کے سیکرٹری تھے۔ جون 1958 ء میں ممتاز کشمیری رہنما چوہدری غلام عباس مرحوم اور انکے ساتھیوں نے متنازعہ ریاست جموں وکشمیر میں پہلی بار جنگ بندی لائن کو توڑنے (عبور کرنے) کی تحریک ’’کے ایل ایم ‘‘ (کشمیر لبریشن موومنٹ) شروع کی ،تو وانی صاحب بھی اس تحریک کے ایک سرگرم کارکن کی حیثیت سے قید ہوئے اور ساڑھے تین ماہ تک راولپنڈی سنٹر ل جیل اور اٹک ڈسٹرکٹ جیل میں نظر بند رہے۔ 1960 ء میں مسلم کانفرنس کی تنظیم نو میں وانی صاحب نے سرگرمی سے حصہ لیا۔ مئی 1961 ء میں سردار عبدالقیوم خان کی صدارت میں مسلم کانفرنس کا سالانہ اجلاس مظفرآباد میں منعقد ہوا۔ وانی صاحب اس اجلاس کی مرکزی انتظامی کمیٹی کے سیکرٹری تھے اور انہیں 25 سال کی عمر میں مسلم کانفرنس کا مرکزی پبلسٹی سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ خواجہ عبدالصمد وانی اپنی وفات تک نصف صدی سے آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس سے وابستہ رہے اور آپ اس کے کئی اہم اور مرکزی عہدوں پر فائز رہے ہیں جن میں چار سال پبلسٹی سیکرٹری، تیس سال خازن ٗ چارسال چیئرمین پبلسٹی بورڈ اور چار سال مرکزی نائب صدر کے علاوہ مسلم کانفرنس کی دستور ی اساسی کمیٹی ‘ منشور کمیٹی کے رکن اور پارلیمانی بورڈ کے سیکرٹری اور رکن رہے ۔ وانی صاحب ریاست جموں وکشمیر کی تاریخ ساز جماعت مسلم کانفرنس کے ان چند شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے نہ صرف اس جماعت کی نظریاتی روایات کو برقرار رکھنے میں اہم کردار اداکیا بلکہ جماعت کے اصولوں کی بھی ترویج کی۔
آپ 1951 ء سے 1965 ء تک پاکستان آزادکشمیر کے مختلف اخبارات و جرائد میں کشمیر کے بارے میں مضامین لکھتے رہے اور یکم جنوری 1966 ء کو مظفرآباد / راولپنڈی سے ایک ویکلی اخبار ’’کشیر‘‘ جاری کیا جسے کشمیر کے تمام شعبوں کے ’’معلومات نامے‘‘ کی حیثیت حاصل ہے اور ’’کشیر‘‘ کو آزادکشمیر و پاکستان میں کشمیری صحافت کا واحد نمائندہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ’’کشیر‘‘ ریاست جموں وکشمیر کا سب سے کثیر الاشاعت جریدہ ہے اور دنیا بھر میں کشمیر کاز کا ایک موثر ترین ترجمان سمجھا جاتا ہے۔ جواہر لعل نہرو ریسرچ یونیورسٹی نئی دہلی نے ریاست جموں و کشمیر کی صحافت سے متعلق اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں ’’کشیر‘‘ کو ریاست جموں وکشمیر میں انیسویں صدی کے چھ بہترین اور معیاری اور موثر اخبارات و جرائد میں شامل کیا ہے۔ کلکتہ سے شائع ہونے والے (سنڈے ویکلی) نے 1990 ء میں ایک رپورٹ میں لکھا کہ خواجہ عبدالصمدوانی کی زیر ادارت شائع ہونے والا ’’کشیر‘‘ آزادکشمیر کا سب سے بااثرجریدہ ہے۔’’کشیر‘‘ کو یہ اعزاز بھی اصل ہے کہ لائبریری آف امریکن کانگریس ٗ نیشنل لائبریری کلکتہ اور جواہر لعل یونیورسٹی نئی دہلی سمیت دنیا بھر کی 45 لائبریریاں ’’کشیر‘‘ کی مکمل فائل مرتب کرتی ہیں۔

کشمیر کے تمام موضوعات کے بارے میں وانی صاحب کو ایک ’’اتھارٹی‘‘ کی حیثیت حاصل ہے۔ کشمیر کی تاریخ ٗ جغرافیہ ٗ تمدن ٗ زبانٗ ادب ٗ سیاست اور تحریک آزادی کے بارے میں وانی صاحب کی معلومات مکمل اور معتبر حیثیت کی حامل ہیں۔ تحریک آزادی کشمیر اور کشمیر کاز کے لئے وانی صاحب کی سیاسی ،صحافتی اور ادبی شعبوں میں منفرد خدمات کشمیر کی موجودہ تحریک کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ حکومت آزادکشمیر نے تحریک آزادی کشمیر کے سلسلے میں 1987 ء میں ’’کشمیر لبریشن سیل‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ، وانی صاحب اس کی پالیسی ساز مجلس کے رکن اور آزاد جموں وکشمیر یونیورسٹی مظفرآباد میں ادارہ مطالعہ کشمیر کے مشاورتی بورڈکے رکن ہیں۔ آپ متعدد بار حکومت آزادکشمیر کی پریس مشاورتی کمیٹی جس کے چیئرمین صدر اور وزیراعظم (آزادکشمیر ) ہوتے ہیں ،کے رکن رہے ۔ آپ آزادکشمیر کی بارہ سے زائد مختلف خصوصی کمیٹیوں کے رکن رہے ہیں۔ وانی صاحب پاکستان کے اخبارات وجرائد کے مالکان کی تنظیم ’’اے پی این ایس‘‘ کی مرکزی کمیٹی کے رکن اور کئی بار اس کی مجلس عاملہ کے رکن منتخب ہوئے ۔ آپ پاکستان کے اخبارات و جرائدکے ایڈیٹروں کی تنظیم ’’سی پی این ای‘‘ کی مجلس عاملہ کے بھی متعدد بار رکن منتخب ہوئے ۔

وانی صاحب کی ذاتی لائبریری کشمیر کے مختلف موضوعات کی کتابوں ،ممتاز اخبارات وجرائد اور تاریخی دستاویزات پر مشتمل ہیں اور یہ کشمیر پر دنیا بھر میں بہترین ذخیرہ کتب ہے۔ وانی صاحب نے آزادکشمیر ٗ مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کے اخبارات و جرائد میں کشمیر اور کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کے بارے میں سینکڑوں مضامین لکھے ۔ وانی صاحب تحریک آزادی کشمیر کے بارے میں دو اہم کتابوں کے ایل ایم (تحریک آزادی کشمیر ) اور ’’کشمیرکی کہانی‘‘ (تحریک حریت کشمیر) کے مولف ہیں اور ان کی چار پانچ کتابیں غیر طبع شدہ ہیں۔وانی صاحب کی یہ لائبریری کے ایچ خورشید گورنمنٹ لائبریری مظفرآباد کو ان کی وفات کے بعد عطیہ کی گئیں۔اس لائبریری میں وانی صاحب کی طرف سے دی گئی کتابوں پر مشتمل ایک خصوصی کارنر’’وانی کولیکشن‘‘ کے نام سے قائم رہا ۔2005ء کے زلزلے کے بعد معلوم نہیں کہ وانی صاحب کے اس نادر تاریخی ریکارڈ کا کتنا حصہ اب محفوظ ہے۔ خواجہ عبدالصمد وانی ریاست جموں وکشمیر کے پہلے سیاستدان ٗ صحافی اور دانشور ہیں جو ریاست کے ہر علاقے سے واقف ہیں ٗ جنہوں نے ریاست جموں و کشمیر کا ہر علاقہ ٗ وادی کشمیر ٗ جموں ٗ آزادکشمیر ٗ گلگت بلتستان تفصیلی طور پر دیکھا ہے۔ ریاست جموں وکشمیر اس وقت کل 26 انتظامی اضلاع میں تقسیم ہے۔ وانی صاحب مقبوضہ جموں و کشمیر ٗ آزادکشمیر اور شمالی علاقہ جات (گلگت بلتستان) کے ہر ضلع اور علاقے میں گئے ہیں۔ تحریک حریت کشمیر کے ایک بانی رہنما چوہدری غلام عباس مرحوم نے اپریل 1966 ء میں اپنے ایک خط / پیغام میں لکھا کہ
’’وانی صاحب کی اسبات رائے ٗ سیاسی عقائد کی پختگی اور مضبوطی مسلسل جماعتی وفاداری اور کشمیر کے سلسلے میں ان کا رسوخ از م جانی پہنچانی چیزیں ہیں‘‘۔ آزادجموں وکشمیر ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور تحریک آزادی کشمیر کی جامع تاریخ ’’کشمیری فائٹ فار فریڈم‘‘ کے مولف جسٹس ریٹائرڈ خواجہ محمدیوسف صراف محروم نے مارچ 1960 ء میں اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’’ہمارے نوجوان کارکنان میں وانی صاحب سب سے ذہین ٗ تجربہ کار ٗ بالغ النظر اور باشعورکارکن ہیں‘‘ جموں و کشمیر کلچرل اکادمی سرینگر کے سابق سیکرٹری ٗ ممتاز کشمیری ادیب اور دانشور محمدیوسف ٹینگ نے جولائی 1983ء کو سرینگر کلچر ل اکادمی کی طرف سے وانی صاحب کے اعزاز میں ایک خصوصی استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’وانی صاحب اور ان کا جریدہ ’’کشیر‘‘ ریاست جموں و کشمیر میں کنٹرول لائن کے دونوں طرف کے حصوں کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتے ہیں‘‘۔

پاکستان کے معروف صحافی اور تحریک پاکستان کے نامور مجاہد میاں محمد شفیع (م ۔ش) نے اپنے جریدہ اقدام مورخہ 7 مئی 1961 ء میں لکھا تھا کہ
’’وانی صاحب ایک محب وطن کشمیری فرزند ہیں اور انہوں نے کشمیر کی تاریخ کا غائر مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ آزادکشمیر کی ہر تحریک میں ایک اہم کارکن کی حیثیت سے حصہ لیا ہے‘‘ مورخہ 3 مئی 1975ء کو میاں محمد شفیع (م ۔ش) نے وانی صاحب کو ایک خط لکھا جو ’’کشیر‘‘ مورخہ 10 مئی 1975 ء کی اشاعت میں ان الفاظ میں شائع ہوا تھا۔’’ آپ جس بہادری اورغیرت سے آزادی کشمیر کی جنگ جمہوریت لڑ رہے ہیں اور جس طرح مخصوص مفاد کے گماشوں کو بے نقاب کر رہے ہیں اس پر میری طرف سے ہدیہ تبریک قبول فرمائیں۔ میں آپ کیلئے دعا کرتا رہوں گا کہ آپ کا قلم حق و صداقت کی حمایت میں چلتا رہے‘‘۔

1988 ء اور 1989 ء سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے خلاف جو مسلح جدوجہد شروع ہوئی ہےٗ اس تاریخ ساز اور انقلاب آفرین تحریک میں خواجہ عبدالصمدوانی کا ایک اہم کردار ہے۔ آپ ریاست جموں وکشمیر کے دونوں طرف مقبوضہ جموں وکشمیر ٗ آزادکشمیر اور پاکستان کے کشمیری رہنماؤں ٗ صحافیوں ٗ ادیبوں اور دانشوروں کے درمیان ایک موثر رابطہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وانی صاحب کے مقبوضہ جموں وکشمیر کے ہر طبقے بالخصوص سیاست دانوں ٗ صحافیوں اورعلمی و ادبی شخصیات اور مختلف شعبوں کی اہم شخصیات سے بھی ان کے ذاتی تعلقات ہیں۔ ان کا جریدہ ’’کشیر‘‘دنیا بھر کے کشمیریوں میں ایک موثر اور وسیع حلقہ اثر اورحلقہ قارئین رکھتا ہے۔ خواجہ عبدالصمدوانی کو ریاست جموں وکشمیر کے دونوں حصوں کی سیاست ٗ صحافت، تاریخ اور ادب میں ایک منفرد مقام و حیثیت حاصل ہے۔ پاکستان کے بعض اور ممتاز سیاستدانوں ٗ صحافیوں ٗ کالم نویسوں ٗادیبوں اوردانشوروں سے بھی ان کے ذاتی تعلقات کا ایک وسیع میدان موجود رہا ہے۔ وانی صاحب اور ’’کشیر‘‘ کو تحریک آزادی کشمیر اور جموں وکشمیر میں تحریک پاکستان کا ایک اہم نظریاتی اور موثر ترین ترجمان مانا جاتاہے اور یہ تحریک آزادی کشمیر اور کشمیر کاز کا ایک گراں قدر اثاثہ ہیں۔ وانی صاحب کو وفاقی وزارت اطلاعات ونشریات کی طرف سے 2002ء میں ان کی گرانقدر قومی خدمات کے اعتراف میں صدارتی تمغہ کے لئے تجویز کیا گیا لیکن اسی سال ڈکٹیٹر صدر پرویز مشرف نے بھارتی احتجاج پر کشمیری شخصیت کو 23مارچ کے موقع پرایوارڈ دینا بند کر دیا۔کشمیری شخصیات کو 23مارچ کے موقع پر قومی ایوارڈ دینے کا سلسلہ محمد نواز شریف نے اپنے وزارت عظمی کے دور میں شروع کیا تھا۔ وانی صاحب کو وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے بعد از وفات قومی ایوارڈ دیا گیا ۔

مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے خلاف موجودہ مسلح جدوجہدکے حوالے سے آزادجموں وکشمیر کے سابق چیف جسٹس خواجہ محمدیوسف صراف نے 1984 ء میں ایک خط میں لکھا تھا’’ جب خواجہ عبدالصمد وانی نے 1983 ء میں مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا تو اس وقت تک دوسرے کئی لوگوں نے بھی تحریک آزادی کشمیر کی خاطر مقبوضہ کشمیر کے دورے کئے لیکن ان سے جتنے لوگ بھی گئے۔ سب میں سے اہم ترین ٗ بامقصد ٗ مفید اور موثر دورہ آپ کا ہے‘‘۔

وانی صاحب کی ناگہانی وفات سے کشمیر کے مختلف شعبوں کی تاریخ کے کئی اہم باب ہمیشہ کیلئے کھو گئے ہیں ٗکیونکہ اب تاریخ کے یہ واقعات کوئی اور بیان نہیں کر سکتا۔ خواجہ عبدالصمدوانی مرحوم کی گرانقدر قومی خدمات ہماری تاریخ کا ایک سنہری باب ہے اور ان کی ناگہانی وفات سے کشمیر اور پاکستان کا ناقبل تلافی حقیقی نقصان ہوا ہے۔ پاکستان،آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں وانی صاحب کی وفات پر کئی تعزیتی تقریباًت منعقد ہوئیں ٗ جن میں مقبوضہ کشمیر کے دانشور وں ٗ حریت پسند رہنماؤں ٗ صحافیوں اور علمی و ادبی شخصیات نے وانی صاحب کی مختلف شعبوں میں گرانقدر خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی وفات کو کشمیر اور کشمیریوں کے لئے ناقابل تلافی نقصان اور ایک المیہ قرار دیا ہے۔ کشمیریوں کے لئے وانی صاحب کی وفات ایک دھچکہ ثابت ہوئی ہے اور پاکستان بھی اپنے ایک پرفخر اثاثے سے محروم ہوگیا ۔
 
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699493 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More