الوداع 5 1 20۔۔۔۔۔۔۔۔؟

گردش لیل و نہار سے یا ستاروں اور سیاروں کے اپنے اپنے محور کے گرد چکر لگانے سے ماہ و سال کے بدلنے سے یا کسی گزرنے اور نئے سال کے آنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ،فرق نڑتا ہے تو اس سے کہ گزرنے والا سال ہمیں کیا دے کر جا رہا ہے اور آنے والا سال ہمارے لئے کیا لا رہا ہے ،ان سب سے بڑھکر اہم بات یہ ہے کہ گزرنے والے سال میں انسانوں کی ’’سوچ اور اپروچ‘‘میں کیا تبدیلی آئی اور آنے والے سال میں ان کے زاویہ نگاہ میں تبدیلی کے کتنے اور کیا کیا امکانات ہیں ۔۔۔۔؟2015ء میں دنیا پہلے سے بڑھکر بد امنی کا شکار ہوئی اور عالم اسلام پہلے سے کہیں بڑھکر انتشار کی آماجگاہ بن گیا ،عالمی امن کے ٹھیکیداروں نے ’’عالمی سیاست‘‘اور علاقائی غلبے کے لئے جگہ جگہ جو ’’الاؤ ‘‘ روشن کئے تھے کہ اس کی آنچ اور حدت ان تک نہ پہنچے گی مگر وہ آنچ 2015ء میں پیرس اور یورپ میں دہشت گردی کی وارداتوں کی شکل میں وہاں پہنچ گئی ،2015ء میں داعش کا بڑا چرچہ رہا عال اسلام کے جید علماء اکرام نے بار بار بیانات دئیے کہ کبھی بے گناہ اور معصوم لوگوں کے گلے کاٹنے سے اسلامی خلافت قائم نہیں ہوتی،یورپی و امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ایسے شواہد ملے ہیں جنکے مطابق داعش نے امریکی و اسرائیلی اسلحہ استعمال کیا،2015ء کے اختتام پر مفتی اعظم سعودی عرب عبد العریز شیخ نے اپنے بیان میں واضح طور پر کہا کہ ’’داعش ‘‘ کو اسرائیل نے کھڑا کیا ہے ، علامہ محمد اقبال نے فرمایا تھا کہ ’’بڑی باریک ہیں واعظ کی چالیں ‘‘۔۔۔مگر امریکہ کی چالیں اتنی باریک نہیں ہوتیں، سینہ زوری کے انداز میں بری سر عام قسم کی چالیں ہوتی ہیں مگر نہ جانے عالم عرب اور عالم اسلام کے حکمرانوں نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے ،انہیں یہ چالیں دکھائی نہیں دیتیں،وہ فریب عکس کا شکار ہو کر آتش اسرائیل میں کود جانے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ،201۔۔۔۔۔ء کی در پردہ امریلی و اسرائیلی پالیسیوں کے نتیجے میں عراق ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہے بس اعلان باقی ہے ،2015ء کے دوران خوف و دہشت کے اس عالمی منظر نامے میں پاکستان میں آپریشن ضرب عضب پورے آئنی عزم و ارادے سے جاری و ساری رہا ،اس آپریشن کے نتیجے میں اگرچہ سو فیصد ’’دہشت گردی‘‘ تو ختم نہیں ہوئی مگر کراچی، پشاور،کوئٹہ اور بڑے شہروں میں دہشت گردی کم اور پہلے کی نسبت بہت زیادہ محفوظ ہوئے ،وہ کراچی جہاں نشانہ کش دندناتے پھرتے تھے وہاں اب غارگٹ کلرز منہ چھپاتے پھرتے ہیں ،وہ کراچی جہاں بھتہ خور کلاشنکوف اٹھائے پرچی دیا کرتے تھے اب وہ کہیں دکھائی نہیں دیتے ہیں ،وہ کراچی جہاں لوگ شام ہوتے ہی گھروں میں قید ہو جایا کرتے تھے وہ اب پارکوں ،ریستورانوں اور مارکیٹوں میں جوش و خروش سے نظر ااتے ہیں ،تاہم ہمارے حکمرانوں کو اچھی طرح یہ سمجھ لینا ہو گا کہ دہشت گردی کے خلاف بڑے سے بڑا آپریشن بھی حکرانی میں بہتری لائے بغیر مکمل کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا ہے ،اس کے لئے تعلیم جتنی عام ہو گی دہشت گردی اتنی کم ہو تی جائے گی ،عدل او انصاف کا حصول جتنا آسان ہو گا فتنہ و فساد اتنا کم ہو گا ،2015ء میں ملک بھر میں جنسی دہشت گردی کے لا تعداد واقعات ہوئے جس سے اچھی طرز حکمرانی نظر نہیں آتی ہے۔۔۔۔۔۔۔،2015ء کے اختتام پر ایک بار پھر دسمبر آیا ہے اور سانحہ پشاور اور سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے المناک اور خوفناک یادوں کا بارگراں ہمارے کندھوں پر ڈال کر اب رخصت ہو رہا ہے ،2015ء میں ہی بنگلہ دیش میں عدل و انصاف کے تقاضوں کو پاؤں تلے روندتے ہوئے پاکستان کے شہدائیوں کو ’’تختہ دار‘‘ پر لٹکایا گیا اور پاکستان اور عالم اسلام ’’ٹک ٹک یدم دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنا رہا۔۔۔۔۔؟25دسمبر2015ء کو بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی نے ساری دنیا کو سرپرائز دیا وہ شام کو کابل سے واپسی دہلی جاتے ہوئے لاہور ائیر پورٹ پر اترے ۔۔۔۔ایک مہمان کے طور پر ان کی تکریم ضروری تھی مگر ان کے اچانک آنے اور جانے سے ہمارا میدیا اور عوام جس خوش فہمی کا شکار ہوئے اس کے لئے ایک دلیل بھی موجود نہ ہے ،کیونکہ بھارت نے کشمیر پر قبضہ کیا ہوا ہے جب تک بھارت کی نیت نہیں بدلتی اس وقت تک برصغیر پاک و ہند کے حالات نہیں بدلیں گئے ۔۔۔۔۔۔اور جہاں تک پاکستان اور عالم اسلام کا تعلق ہے تو ’’ہے جرم ضعیفیی کی سزاء مرگ مفاجات‘‘ ۔۔۔۔۔۔2016ء کے آغاز پر ہی روایتی ایران و عرب جنگ سے نجات حاصل کریں اور ’’او آئی سی‘‘ کو حقیقی معنوں میں بحال کریں اور عالم اسلام کو دہشت گردی اور بدامنی سے نجات دالائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔2015ء کے آخری روز وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے ژوب کے مقام پر پاک چین اکنامک کویڈور کے مغربی روٹ کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے اس میں تقریبا تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ماسوائے پی پی پی اور پی ٹی آئی کو بھی شامل کرنا چائیے تھا تو ملکی رنگ اور نمایاں ہوتا۔۔۔۔۔2016 ء میں حکومت لورڈ شیڈنگ کا جن پوری طرح قابو نہیں کر سکے گی ہاں البتہ دو سے تین ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم میں آ جائے گی ۔۔۔۔۔پاکستان کے سول ملٹری تعلقات بھی مستحکم رہیں گے ،فوج امریکہ ،انڈیا اور افغانساتن سے متعلق خارجہ پالیسی خود مرتب کرنا چاہے گی اور نواز شریف بھی اس سے متفق نظر آئیں گئے ۔۔۔۔۔۔وزیر اعظم ان حالات میں فوج کے ساتھ مشکل حالات کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں ۔۔۔۔وزیر اعظم بھارت کے ساتھ تعلقات کے لئے جلد سے جلد کام شروع کرنا چاہتے ہیں لیکن فوج کہتی ہے کہ ابھی اتنی جلدی نہ کریں ،بہرھال وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اپنا امن ایجنڈا فوج کو اعتماد میں لیکر چلیں گے۔۔۔۔عمران کان اب حقیقت پسبدی کی طرف آئیں گئے اور کوئی نیا سیاسی بحران پیدا نہیں کریں گے البتہ اگر ان کو ایم کیو ایم اور پی پی پی کی حمایت حاصل ہو گئی تو سیاسی محاذ آرائی کے امکانات ہیں ۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔

Dr M Abdullah Tabasum
About the Author: Dr M Abdullah Tabasum Read More Articles by Dr M Abdullah Tabasum: 63 Articles with 43939 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.