ہمارا پاکستان

پاکستان کا مطلب کیا "لا الہ الا اﷲ" یہی وہ نعرہ ہے جو برصغیر کے ہر چھوٹے بڑے کی صرف زبان پر ہی نہیں بلکہ دل میں رچ بس گیا تھا۔اسی نعرے کی اساس پر مسلمانان ہند نے حصول پاکستان کے لیے جدوجہد کی جس میں بالآخر وہ کامیاب ہوئے۔

1857ء کے بعد مسلمان سیاسی طور پر کمزور ہوگئے۔ہندو سکھ اپنی فرقہ ورانہ شرارتوں سے مسلمانوں کو تنگ کرنے لگے۔اور ہر مذہبی تہوار پر فساد برپا کرنے لگے۔ اس وقت نبی صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی ولادت و وفات کے دن مسلمان چاند ستارے والا سبز رنگ کا جھنڈا پکڑ کر امرتسر کی گلیوں سے گزرتے۔ آج کے نوجوان کی طرح ناچ گانا نہیں کرتے تھے بلکہ نعرہ تکبیر کی آوازیں گونجا کرتی تھیں اور مسلمان اس طرح سینہ تان کر فخر سے چلتے کہ دشمنوں پر فتح پاکر آرہے ہیں۔ہندو مسانوں کی اپنے نبی(صلی اﷲ علیہ وسلم ) سے عقیدت دیکھ کر دب جاتے اور ان پر ہندو لڑکے چھپ کر پتھروں کی بارش کرتے تھے۔ بزدل قوم کھل کر سامنے نہیں آتی تھی۔انیسویں صدی کے آخر میں مسلمانوں کو جینا ہندوؤں اور سکھوں نے دشوار کردیا۔ہندوستان میں انتہا پسند تحریکیں پیدا ہوگئیں۔جن میں آریہ سماج خاص طور پر قابل ذکر ہے اس ہندو تحریک کا نعرہ تھا۔ "ہندوستان ہندوؤں کا ہے اس لیے مسلمان ہندو مت قبول کرلیں ورنہ ملک چھوڑ جائیں۔" وہ مسلمانوں کو ملیچھ یعنی "ناپاک" کہتے تھے۔کانگرس بظاہر تو ہندو مسلم اتحاد کے لیے تھی لیکن اندر خاطے مسلمانوں کی جڑیں کاٹی جا رہی تھیں۔ ہندوؤں کے مسلمانوں کو ہندو بنانے کی شدھی تحریک شروع کردی۔ لالہ ہردیال نے ایک بیان میں واضح طور پر یہ کہا کہ"ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا صرف ایک حل ہے کہ مسلمانوں کو شدھی کے ذریعے ہندو قوم میں شامل کرلیا جائے۔ چنانچہ مسلمانوں کے اپنے تحفظ کے لیے 1906ء میں مسلمانوں کی ایک سیاسی جماعت مسلم لیگ کا قیام کیا۔ اس جماعت نے ثابت کردیا کہ مسلمان اور ہندو الگ قوم ہیں اور کانگرس مسلمانوں کے مفادات کی نگہداشت نہیں کرسکتی۔ جلد ہی اس جماعت کو قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت 1913ء کو میسر آگئی۔ 1916ء میں قائداعظم کی کوششوں سے میثاق لکھنؤ کا معاہدہ طے پایا۔ جس میں پہلی بار مسلمانوں کو الگ قوم تسلیم کیا گیا۔

1929ء آپ نے مسلم لیگ کے اجلاس میں مسلمانوں کے تمام مطالبات کو وضاحت کے ساتھ یکجا کردیا۔ یہ قائداعظم کے مشہور چودہ نکات کہلاتے ہیں۔1930ء میں علامہ اقبال نے خطبہ آلہ آباد میں کہا:
"مجھے ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کو بالآخر ایک الگ ریاست قائم کرنا پڑے گی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام بحیثیت تمدنی اور زندہ رہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرے۔ میں صرف ہندوستان میں اسلام کی فلاح و بہبود کے خیال سے ایک منظم اسلامی ریاست کا مطالبہ کر رہا ہوں۔"

قائد اعظم نے دو میز گول کانفرسوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کی لیکن ہندوؤں کی تنگ نظری کی وجہ سے یہ بے نتیجہ رہی جس سے مایوس ہوکر آپ نے لندن میں قیام کا فیصلہ کیا۔ 1933ء میں یورنیورسٹی کے طالب علم چوہدری رحمت علی نے ایک پمفلٹ (Now or Never) شائع کیا جس کے اندر پاکستان کا نام تجویز کیا۔1934ء میں قائداعظم علامہ اقبال کے بلانے پر واپس آئے۔

آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے اجلاس اکتوبر 1939ء میں قائد اعظم نے فرمایا:
"مسلمانو! میں نے دنیا کو بہت دیکھا، دولت، شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے۔ اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ میں مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کو جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی۔ میں آپ کی داد اور شہادت کا طلب گار نہیں ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ کرتے ان میرا اپنا دل،ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے مدافعت اسلام کا حق ادا کردیا۔ جناح تم نے مسلمانوں کی حمایت کا فرض بجا لایا۔ میرا خدا یہ کہے کہ بیشک تم مسلمان پیدا ہوے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں علم اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے۔"دوسری جنگ عظیم کے آغاز میں کانگریسی وزارتوں نے احتجاج کے طور پر استعفی دیدیئے۔ تو مسلمانوں نے قائد اعظم کی اپیل پر 22 دسمبر 1939ء بروز جمعہ کو یوم نجات منایا اور ہندو راج سے نجات ملنے پر تمام مساجد میں شکرانے کی نماز ادا کی گئی۔ مسلمانان ہند میں یہ ایمان کا جذبہ تھا کہ اسی دن سجدہ شکر ادا کرنے کے لیے مساجد بھر گئیں۔قرارداد کو مسلم لیگ نے قرارداد لاہور کو نام دیا لیکن ہندو اخبارات نے طنزا اسے قرارداد پاکستان کا نام دیا۔مسلمانوں کو یہ کام بہت پسند آیا اور پھر اسی قرارداد کا قرارداد لاہور کی بجائے قرارداد پاکستان کے نام سے 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں منظور ہوئی۔ جس میں واضح کیا گیا کہ برصغیر کے مسائل کا واحد حل ہندوستان کی تقسیم اور مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے قیام میں ہے۔ جس پر گاندھی کے کہا کہ "ہندوستان ہماری ماتا ہے اور ہم اپنی ماتا کے ٹکڑے نہیں ہونے دیں گے۔مسلم علمائے اکرام مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا ظفر احمد انصاری نے قرارداد کا بھرپور ساتھ دیا۔ جب قرارداد پاکستان کو متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا تو قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے سیکرٹری مطلوب الحسن سید سے مخاطب ہوکر فرمایا:
"اقبال وفات پا چکے ہیں اگر آج وہ ذندہ ہوتے تو بہت خوش ہوتے کہ آج ہم نے انکی خواہش پوری کردی ہے۔"قائداعظم کے نزدیک اسلام اور اسلامی اقدار کی بہت قدر و قیمت تھی۔ وہ قوم کو اسلام کا اسلامی اقدار کے تحفظ کے ہمہ تن کرتے رہتے تھے۔ 10 مارچ 1941ء کو انجمن اتحاد طلبہ سے ایک جلسہ میں فرمایا کہ " عملی لحاظ سے پاکستان ہی آپ کا وہ واحد مقصد ہے جس کے ذریعے سے آپ اس ملک میں اسلام کو قطعََا فنا ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ اسی طرح 21 نومبر 1942ء کو ٹاون ہال لاہور میں خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے عدل و انصاف کے بارے میں فرمایا " ہم اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے علاقہ مانگتے ہیں جس میں ہم اسلامی عدل و انصاف کی تاریخ دہرائیں گے " غرض کہ قائد کے دل میں ہمیشہ یہ خواہش تھی کہ پاکستان میں حضرت عمر فاروق کے دور کا نظام حکومت قائم ہو۔یہ ستمبر 1944 کا ذکر ہے۔ ان دنوں تحریکِ پاکستان زوروں پر تھی۔ فرخ نگر کی ایک ہندو خاتون نے اسلام قبول کرلیا اور اس کا نکاح مسلمان مرد سے ہوگیا، پھر کیا ہونا تھا ہندو آبادی میں غیظ و غضب کی لہر دوڑ گئی۔ قلعہ فوجدار خاں میں ہندو پنچایت ہوئی اور فیصلہ ہوا کہ مسلمانوں کا سوشل بائیکاٹ کیا جائے اس وقت تجارت سازی ہندوؤں کے ہاتھ میں تھی۔ بائیکاٹ کا مطلب تھا کہ انہیں ضروریات زندگی سے محروم کردیا جائے۔ آخر کار میں خونریز تصادم ہوا اور چھ مسلمان شہید کردیئے گئے۔یہ پہلی خون ریزی تھی جو ہندو شدت پسندی کی وجہ سے ہوئی۔بعض لوگ ہمارے قائد کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اچھے انسان تھے لیکن اسلامی تعلیمات سے نابلد تھے۔ میں نے بانئی پاکستان کو کبھی نہیں دیکھا لیکن جتنا مشاہدہ کیا ہے اس سے یہ بات وثوق سے کہ سکتی ہوں کہ قائد اعظم پر اس سے بڑھ کر کوئی الزام نہیں ہوسکتا۔ 1945ء کو کلکتہ میں جمعیت علمائے پاکستان کے افتتاحی اجلاس میں قائد اعظم نے اسلامی ذندگی کے بارے میں اپنا نظریہ واضح الفاظ میں قرآن پاک کا انگریزی میں منتقل شدہ نسخہ نکال کر فرمایا :
"اس کتاب میں فوجی، انتظامی، معاشی غرض کہ زندگی کے ہر شعبہ کے بارے میں قوانین موجود ہیں۔ یہ ایک ایسا آئین ہے جو مکمل اور جامع ہے۔ میں ایک مثال دینا چاہوں گا اس میں کئی جگہ باری تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہر جرم کی سزا اس کی نوعیت کے مطابق ہونی چاہیے۔ یہ کس قدر عالی اور ابدی اصول ہے۔"مولانا غلام مرشد مرحوم فرماتے ہیں کہ اسلام سے قائد اعظم کے عشق کا تو میں پہلے ہی معترف تھا۔ اب میں انکی قرآن فہمی پر حیرت زدہ رہ گیا اور ساتھ ہی انکی دینی بصیرت بھی مجھ پر واضح ہوگئی۔

1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی جو کہ مسلمانوں کے لئے بہت بڑی کامیابی تھی۔

مسلمانان ہند کو 3 جون 1947ء کی شام کا جس بے چینی سے انتظار تھا۔ اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ ہر مسلمان نے اپنے اپنے گھروں میں ریڈیو سیٹ ٹھیک کروائے۔ ان کی خاطر خواہ مرمت کرائی ریڈیو کے ایریل درست کئے اور جن لوگوں کے گھروں میں ریڈیو نہیں تھے انہوں نے اپنے دوست احباب کے گھر ریڈیو پر پاکستان کے اعلان اور حضرت قائد اعظم کی جاں افروز تقریر سننے کے لئے انتظام کیا۔ بہت سی مسلم ایجنسیوں اور اداروں نے لائبریریوں اور بازاروں میں ریڈیو لگا دئیے تاکہ کوئی مسلمان یہ اعلان سننے سے محروم نہ رہے۔ مسلمانوں نے دن بھر مٹھائیاں تقسیم کیں۔ کھانے کی دیگیں پکائیں جو مستحق لوگوں میں باٹی گئیں اور ایک دوسرے کو گلے لگ کر مبارکباد دی۔ خدا خدا کرکے وہ گھڑی آئی جب مسلمانوں کے سیاسی اور محبوب ترین رہنما حضرت قائد اعظم کی تقریر کا وقت آیا اور ہر مسلمان کے کان ریڈیو کی آواز پر لگے ہوئے تھے۔ آخرکار قائد اعظم کی آواز گونجی۔گوکہ قائد اعظم کی تقریر انگریزی میں تھی لیکن ہر مسلمان ایک ایک لفظ غور اور انہماک سے سن رہا تھا۔ قائد اعظم نے اپنی ایمان افروز تقریر کے بعد "پاکستان ذندہ باد " کا نعرہ بلند کیا تو مجمع میں ہر مسلمان نے ان کی ہمنوائی کی اور "پاکستان ذندہ باد" اور "اﷲ اکبر" کے نعرے ہر مکان اور بازار میں گونجنے لگے۔جب 3 جون 1947ء کو لارڈ ماؤنٹ بینٹن اور قائد اعظم نے قیام پاکستان کا اعلان کیا اور یہ بھی اعلان کیا گیا کہ 14 اگست 1947ء کو پاکستان ایک اسلامی ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرے گا۔ مسلمانوں نے اس بات کو مسرت و انبساط کے ساتھ سنا مگر ہندوؤں اور سکھوں کے دلوں میں نفرت کی آگ بھڑک رہی تھی۔ سکھ لیڈر تارا سنگھ نے پنجاب اسمبلی کے سامنے کریان لہراتے ہوئے اعلان کیا کہ "پاکستان ہماری لاشوں پر بنے گا۔"پاکستان کے قیام کا خواب ایک بہت بڑا اور مثبت خواب تھا۔ ایک خواب کی قیادت ایک پر عزم، بے لوث ، دیندار مرد آہن کے ہاتھ میں تھی۔ جس نے کانگرس کے مکر و فریب کے پردے کو چاک کر کے اﷲ کے دین اسلام کا پرچم بلند کیا۔پاکستان کے قیام کے بعد قائد اعظم نے فرمایا کہ"ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔"مہاجر ٹرین ہندوستان سے پاکستان آتی تو راستے میں کوئی علاقے ایسے نہیں ہوتے تھے جہاں شہیدوں کی لاشیں یا ڈھانچے نہ پڑے ہوں۔ یہ آنکھیں کس کس مسلمان کی شہادت پر اشکبار ہوں۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو نیزوں پر اچھالا گیا۔ جوان لڑکیوں کے منہ پر کالک مل دی گئی تاکہ جان جائے تو چلی جائے لیکن عزت و عصمت نہ جائے۔ ماؤوں کے جوان جو ہندوستان کی گلیوں میں سینہ تان کر چلتے تھے ان کے سینوں میں گولیوں کی بوچھاڑ کردی گئی۔ ہندوستان میں خون کی نہریں بہ رہی تھیں۔ کٹے ہوئے سر پانی کے ساتھ بہتے ہوے کناروں پر آجاتے۔ ہر طرف فائروں کی آواز گونج رہی تھیں۔ فضا میں جلی ہوئی لاشوں کی بو تھی غرضیکہ ہر طرف مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی تھی۔ ہر طرف "پانی پانی" کی پکار تھی۔ بچے پیاسے تڑپ رہے تھے ، ہزاروں مسلمان پانی مانگتے مانگتے شہید ہوگئے۔ کئی نوجوانوں کی شہ رگ سے خون فوارے کی صورت نہ رہا تھا۔ سینکڑوں کنوے مسلمانوں کی لاشوں سے پاٹ دیے گئے۔کاش جو لوگ پاکستان کو ایک الگ اسلامی ریاست کے طور پر آج بھی دل سے تسلیم نہیں کر سکے وہ مسلمانان ہند کی قربانیاں دیکھ کر مسلمانوں کے جزبہ ایمانی کا اندازہ لگائیں کہ اﷲ اور اسکے رسول صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے دین اسلام کی شریعت کے نفاذ کی خاطر انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کردیا لیکن نیزے کی دھار دیکھ کر بھی کفریہ کلمہ نہ کہا۔بالآخر علامہ اقبال کا خواب پورا ہوگیا اور مسلمان ایک الگ اسلامی ریاست کو حاصل کرنے میں سرخرو ہوگئے۔ پاکستان کا مکمل نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دیا گیا۔ میرا پیارا وطن اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے۔ ہماری قومی زبان اردو ھے جو کئی زبانوں کے خوبصورت امتزاج سے وجود میں آئی۔ اس کے علاوہ پاکستان میں پنجابی، سرائیکی، سندھی، گجراتی، بلوچی، براہوی، پہاڑی، پشتو اور ہندکو زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ہمارا قومی کھیل ہاکی ہے۔ پاکستان چار دفعہ ہاکی ورلڈ کپ میچ جیت چکا ہے۔ ہمارا قومی پھول یاسمین ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ پاکستان کا قومی پرندہ چکور ہے اور مارخور قومی جانور ہے۔ اور حکیم الامت حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ہمارے قومی شاعر ہیں۔پاکستان ایک بہت ہی خوبصورت اسلامی ریاست ہے جس میں اﷲ کی قدرت سے چاروں موسم ایک ہی سال میں آتے ہیں۔ یہاں رنگ برنگے پھول کھلتے ہیں شمالی علاقہ جات میں تو لگتا ہے جیسے پھولوں کی شہزادی رہتی ہو، جب بھی جاو? ہر موسم استقبال کے لیے تیار ہوتا ہے۔ سر سبز لہلہاتے میدان ، بلند و بالا پہاڑ جو کہیں برف کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں اور کہیں اپنے اندر معدنیات کا دریا سموئے ہوئے ہیں۔ خوبصورت وادیاں وادی نیلم ، وادی سوات، ناران، کاغان، ہنزا، مری نتھیا گلی جن کے درمیاں دلکش جھیل بہتی ہیں۔ لوگ دور دور سے پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں صرف اﷲ کی قدرت کے دلکش مناظر دیکھنے آتے ہیں اور کچھ تو پاکستان کی خوبصورتی میں کھو کر سب کچھ چھوڑ کر ادھر ہی زندگی گزار دیتے ہیں۔ جب کے۔ٹو اور ننگا پربت کی برف سے ڈھکی ہوئی بلند چوٹیوں پر سورج کی کرنیں پڑتی ہیں تو ایسا دلکش منظر پیش کرتی ہیں کہ آنکھیں اﷲ کی قدرت پر حیران رہ جاتی ہیں۔ بلتستان میں زندگی پھولوں میں مسکراتی ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات کا کلچر سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہے۔پاکستانی مسلمان اپنی مذہبی کتاب"قرآن پاک" سے بہت زیادہ عقیدت رکھتے ہیں اسی لیے ہر زمانے میں قرآن پاک کی کتابت اور تحریر کو خوب سے خوب تر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستان میں بہت سی تاریخی جگہ ہیں جن کی تعمیرات سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو فن تعمیر منفرد ہے۔ قلعہ لاہور ، قلعہ اٹک، شالامار باغ، شاہی مسجد لاہور، مسجد وزیر خان، جامع مسجد ٹھٹھہ اور بھی بہت سی جگہ ہیں جو تاریخ میں اپنی اہمیت آ پ رکھتی ہیں۔پاکستانیوں کی اکثریت کھیتی باڑی کرتی ہے۔ پاکستانی معاشرت روایت پسند ہے، جس میں شرم و حیا بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستانی حیا دار لباس پہنتے ہیں۔ مرد اور عورت زیادہ تر شلوار قمیص پہنتے ہیں۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں عورتیں دوپٹہ پہنتی ہیں اور یہی ہماری پہچان ہے۔ شہروں میں مردوں کی اکثریت انگریزی لباس پہنتی ہے اور انگریزوں کی تقلید کرنے والے لوگ انگریزوں کے ہاتھوں ہی رسوا ہو رہے ہیں۔پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور اسے بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ اﷲ پاک نے ھمارے وطن کو بے پناہ وسائل سے نوازا ہے۔ لیکن ایک مدت گزرجانے کے باوجود پاکستان معاشی نظام کے میدان وہ ترقی نہیں کرسکا۔ قائد اعظم نے ہمیں اﷲ کی مدد سے یہ آزاد اسلامی ریاست اس لیے دی ہے تاکہ ہر مسلمان اس میں اسلامی شریعت کا نفاذ کرسکے۔ یکم جولائی 1948ء کو قائد اعظم نے سٹیٹ بینک کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا:-
"مغرب کا معاشی نظام انسان کے لیے ناقابل حل مسائل پیدا کر رہا ہے اور یہ لوگوں کے درمیان انصاف قائم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ہمیں دنیا کے سامنے ایک ایسا معاشی نظام پیش کرنا چاہئیے جو اسلام کے صحیح تصور مساوات اور سماجی انصاف کے اصولوں پر مبنی ہو۔" آج ہمارے پیارے وطن کے آئین تو اسلامی شریعت کے مطابق بن گئے لیکن وہ قوانین آج تک نافذ نہ ہو سکے۔ آج ہمارا معاشی نظام مغرب کے معاشی نظام کے مطابق رواں دواں ہے۔ہم نے یہ آزاد ریاست، یہ وطن لا الہ الا اﷲ کے نام پر حاصل کیا تھا۔ یہاں پر اﷲ کے دین اسلام کے قوانین ہی نافذ ہونے چاہئیے۔ قائد اعظم سے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ایک موقع پر سوال کیا گیا کہ پاکستان کا آئین کس طرح کا ہوگا؟ تو آپ نے جواب میں کہا کہ " میں کون ہوتا ہوں آپکو آئین دینے والا۔ ہمارا آئین ہمیں آج سے تیرہ سو سال پہلے ہی ہمارے عظیم پیغمبر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے دیدیا تھا۔ ہمیں تو صرف اس آئین کی پیروی کرتے ہوئے اسے نافذ کرنا ہے اور اس کی بنیاد پر اپنی مملکت میں اسلام کا عظیم نظام حکومت قائم کرنا ہے۔ اور یہ پاکستان ہے۔ہم اہل وطن مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں وہ وطن، وہ اسلامی ریاست ہر حال میں قائم کرنی چاہئیے جس کے حصول کے لیے مسلمانوں نے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ سوال ہے کہ کیوں کیا؟ کیا صرف ایک آزاد ریاست کے لیے؟ نہیں بلکہ اس لیے کہ ہم اپنی زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق گزار سکیں۔ قائد اعظم نے پاکستان کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ " ہمارا منشا اپنے لیے ایک آزاد مملکت کا حصول ہی نہیں تھا بلکہ اصل منشا ایک ایسی مملکت کا حصول تھا جہاں ہم اپنی روایات اور تمدنی خصوصیات کے مطابق ترقی کرسکیں۔ جہاں ہمیں معاشرتی عدل کے اسلامی اصولوں کے نفاذ کے آزادانہ مواقع حاصل ہوں۔ جہاں اسلام کے معاشرتی انصاف کے اصول جاری و ساری ہوں۔ ہمارے قائد نے ہر جگہ واضح طور پر یہ بات کہی ہے تو آج ہمارے حکمران اور سیاستدان کو اپنی فکر کیوں ہے؟ ہماری فوج کو فکر ہے کہ کوئی سرحد پر آکر حملہ نہ کردے۔ ہم غیر مسلم سے دفاع تو کرسکتے ہیں لیکن ان کو مکمل طور پر شکست نہیں دے سکتے کیونکہ جب تک ہم اﷲ اور اسکے رسول سے جنگ جو کہ سود کی صورت میں ہے بند نہیں کریں گیں اس وقت تک ہمارا وطن کبھی بھی ترقی کی راہوں پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ چند ہی مہینوں میں کتنی ہی دفعہ زمین ہل چکی ہے۔زمیں بھی التجا کر رہی کہ آزاد اسلامی ریاست میں اﷲ اور اسکے رسول سے جنگ نہ کرو۔ آج ہمارے جسٹس جن کی زمہ داری ہے قانون کی پاسداری کروانا کہتے ہیں "جس کو سود نہیں لینا وہ نہ لے اور جس کو سود لینا ہے وہ لے لے اﷲ خود پوچھ لے گا۔" آج آپکو گھر سے بے گھر کردیا جائے یا نعوذباﷲ آپکے بیٹے کو آپکے سامنے قتل کردیا جائے تو کیا آپ اس کو یہ کہ کر چھوڑ دیں گیں کہ اﷲ اسکو خود دیکھ لے گا؟ جب عوام کہہ رہی ہے کہ سود کو ختم کردو خدارا خدارا اﷲ اور اسکے حبیب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ بند کردو۔

کراچی میں ایک موقع پر قائد نے یہ بات وضاحت کے ساتھ بیان کردی کہ "اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیشے نظر دینا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کشی کا مرجع خدا کی ذات ہے۔ جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔اسلام میں اصلاََ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی، نہ کسی شخص اور ادارے کی۔ قرآن کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کرسکتے۔ دوسرے الفاظ میں اسلامی حکومت قرآن کے اصول و احکام کی حکومت ہے۔جب قائد اعظم نے وضاحت کردی کہ پاکستان میں وہی ہوگا جو دین اسلام نے، قرآن نے ہمیں درس دیا ہے۔ تو ہم لوگ کون ہوتے ہیں اونچی اونچی کرسیوں پر بیٹھ کر پاکستان کو اپنی مرضی سے چلانے والے۔ہمارے حکمران، سیاستدان جسٹس لوگ کہتے ہیں کہ اگر سود ختم کردیا تو ہمیں بہت معاشی نقصان ہوگا ہم دنیا سے بہت پیچھے رہ جائیں گے۔اسی حوالے سے فروری 1948ء میں قائد اعظم نے ایک امریکی نامہ نگار کو انٹرویو میں کہا تھا " کہ پاکستان کا دستور اسلامی اصولوں کی روشنی میں ترغیب دیا جائے گا۔ ان اسلامی اصولوں اطلاق آج کی عملی زندگی پر بھی اس طرح ھو سکتا ھے جیسے آج سے 13 سو سال پہلے ہوا تھا۔اسلام اور اسکے نظریات سے ہم نے جمہوریت کا سبق سیکھا ہے۔"میں اور آپ ہم سب چاہتے ہیں کی پاکستان کے حالات اچھے ہوجائیں۔ ہمارے تمام مسائل حل ہوجائیں تو ہمیں قائد اعظم کے 14 فروری 1947ء میں سبی بلوچستان کے شاہی دربار کو خطاب کرتے ہوئے الفاظ پر غور کرنا چاہئے جس میں آپنے کہا کہ " میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ حسنہ پر چلنے میں ہے، جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمارے لیے بنایا ہے۔"

اﷲ ہمارے پیارے وطن پاکستان کو دن دگنی رات چگنی دین اسلام کی راہ پر ترقی عطا کرے۔ آمین ثم آمین

بنت اسحاق
About the Author: بنت اسحاق Read More Articles by بنت اسحاق: 32 Articles with 29603 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.