قومی اداروں کی رخصتی کا پروگرام ۔۔!

کبھی ٹھنڈے دماغ سے یہ بھی سوچ لیں کہ یہ جو حکمرانوں کے بڑے بڑے محلات لوگوں کو سجے نظر آتے ہیں وہ بھی تو سراسر خسارے میں چل رہے ہیں ، تو ان کے بارے میں کیا خیال ہے،کسی ایسی کمپنی جو مناسب بھائو دینے کے لئے آمادہ ہو تلاش شروع کرلینی چاہیے

پہلے قوم کو یہ نوید سنائی کہ پاکستانی معیشت مستحکم ہو چکی، ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیے کی قدر بڑھ چکی، ملکی زرً مبادلہ کے ذخائر بڑھ گئے ، پھر اچانک چالیس ارب روپیے کے ٹیکس کا بم بھی قوم کو داغ دیا۔ اور بڑی معصومیت سے فرمایا،" ان ٹیکسوں کا بوجھ غریبوں پر نہیں پڑیگا۔ صحیح فرمایا ، جب غریب سارے مہانگائی کے راکاس تلے کچل کر قیمہ ہوجائینگے تو نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری! پھر ہمارے درد دل رکھنے والے وزیر خزانہ کو اچانک خیال آیا کہ پی آئے اے جیسے سفید ہاتھی دن دہاڑے دنداتے پھر رہے ہیں تو "زندہ ہاتھی ایک لاکھ کا تو مردہ ہاتھی ڈیڑھ لاکھ کا" کے محاورے کو کیوں نہ آزماکر دیکھ لیا جائے! تو مردہ ہاتھی کو بیچنے کی تیاریاں شروع کردیں۔ویسے ہمارے وزیر خزانہ کا دماغ خاصا تیز ہے اور سیاسی و معاشی شطرنج کی چالیں بھی انہیں خوب کھیلنا آتی ہیں۔ پی آئی اے کے بعد پاکستانی لوہے کو پگھلاکر معیشت کی مضبوط بنیاد بھرنے یعنی اکلوتی اسٹیل مل کی رخصتی کا دعوت کارڈ چھاپا جا رہا ہے۔اس کے بعد پاور پیدا کرنے اور پاور بانٹنے والی دوشیزائوں کی باری ہے۔وزیر موصوف کے نزدیک ان دوشیزائوں کا کردار خاسا مشکوک ہو گیا ہے۔پھر مسمات ریلوے صاحبہ بھی کافی ناز نخرے دکھا چکی اب اس کے لئے بھی کسی شریف رشتے کی تلاش ہے۔ہم جیسی بدنصیب قوموں کے حصے میں ایسے ہونہار وزراء خزانہ بڑی مشکلوں سے آتے ہیں! جن کو ہر وقت قوم و ملک کا درد پیٹ میں وکڑ ڈالے رکھتا ہے۔ویسے ہمارے وزیر خزانہ کا سب سے بڑا سونہری اصول یہ ہے کہ " مخالفوں کو چھیڑو نہیں اور اپنا کام چھوڑو نہیں۔" سو تمام تر بحرانون اور بونچھالوں کے باوجود وہ اپنے کام میں لگے رہتے ہیں۔ داتا صاحب کے فقیر ہیں اور ان کی دربار پر خوب دھمالیں ڈالتے اور خیرخیرات کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں شاید ہی اور ایسا سیاسی لیڈر ہو جس نے بانیء پاکستان کے اس قول کہ " کام کام اور کام " پر صدق دل سے عمل کیا ہو! ابھی صاحب موصوف ایک اور عوام دوست منصوبے پر کام کررہے ہیں۔ وہ یہ کہ موجودہ بلدیاتی انتخابات پر حکومت بے چاری کا کافی پئسہ ضایع ہو چکا ہے جس کی وجہ سے قومی خزانے پر ناقابل برداشت بوجھ پڑا ہے۔تو کیونکہ یہ انتخابات صرف عام آدمی کا معیار زندگی بلند کرنے کے لئے ہی ہوئے ہیں تو ظاہر ہے کہ انتخابات پر ہونے والے ان اخراجات کا خرچہ بھی عوام کو ہی واپس کرنا ہے تو عوام کے ہمدرد وزیر خزانہ عوام پر مزید ٹیکسوں کے نفاذ کی صورت میں یہ پئسہ واپس لینے کا سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں! بجلی اور گئس کی قیمتیں بڑھانے کے لئے انہوں نے آپ کے کہنے کے بغیر ہی سمری آگے بڑھادی ہے۔ ادھر جناب صدر مملکت نے بھی عوام کو مفت دیانت کا سبق یاد دلاتے ہوئے فرما ہی دیا کہ " قرضہ لیا ہے تو واپس تو کرنا ہوگا!"صحیح فرماتے ہیں صدر صاحب بھی، کھانا کھایا ہے تو بل تو بھرنا ہی پڑیگا۔لیکن ایک مشکل ہے، وہ یہ کہ ہم اپنے حصے کا بل تو ایک وقت کے کھانے کا ناغہ کرکے بھرلیں مگر ان اشرافیہ کا بل بھی ہمیں سے بھروایا جا رہا ہے جو پورے قومی خزانے کو ایک ہی نوالے میں ہڑپ کرنے کے بعد بھی ھل من مزید کا نعرہ مستانہ لگائے عوام کے سامنے پڑے ہوئے نوالے کو گھور رہے ہیں!

پھر ہمارے بادشاہوں نے ارشاد فرمایا کہ قومی اداروں کی نجکاری کوئی جرم تو نہیں!ارے بھائی جرم وسزا کے فلسفوں کو تو آپ جانیں ،آپ کی حکومت جانے۔ہمیں تو یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ یہ تمام قومی ادارے بیچنے کے بعد بھی اگر معیشت مستحکم نہ ہوئ تو پھر کدھر جائیں گے۔ ہمارے وزیر خزانہ اتنا کردیں کہ جن اداروں کو نیلام کرنا ہے ان سب کی ایک فہرست اخبارات میں دے دیں تاکہ ان میں کام کرنے والے مزدور پہلے سے ہی اپنے کسی اور روزگار کی تلاش شروع کردیں! اور کبھی ٹھنڈے دماغ سے یہ بھی سوچ لیں کہ یہ جو حکمرانوں کے بڑے بڑے محلات لوگوں کو سجے نظر آتے ہیں وہ بھی تو سراسر خسارے میں چل رہے ہیں ، تو ان کے بارے میں کیا خیال ہے،کسی ایسی کمپنی جو مناسب بھائو دینے کے لئے آمادہ ہو تلاش شروع کرلینی چاہیے۔اورہاں ،جو پیسہ ہمارے کرم فرما تھیلیاں بھر بھر کر ملک سے باہر لے گئے ہیں اگر اس میں سے آدھا بھی واپس آجائے تو ہماری زندگی سنور جائےلیکن لوگ ان بیچارے حکمرانوںکی مجبوریاں سمجھتے ہیں اس لئے اس معاملے پر زیادہ ضد نہیں کرتے۔ اتنا تو بیچارے سیاستدانوں کا بھی تو حق بنتا ہے کہ وہ مشکل وقت کے لئے کچھ باہر بچا کر رکھیں ،حالات کا کیا بھروسہ،معلوم نہیں قوم کسی وقت جاگ جائےاور چور چور کا شور مچانا شروع کردے۔ویسے فی الحال تو یہاں چور ہی شور مچاتے آئے ہیں۔اس عظیم اصول پر عمل کرتے ہوئے کہ اتنا شور مچائیں کہ سچ جھوٹ اور جھوٹ سچ ثابت ہو جائے۔ اور پھر یہ جمہوریت کا لبادہ کس دن کام آنا ہے،جو کرنا ہے آرام سے کرلیں اور اس لبادہ میں چھپ جائیں۔آخر یہ لبادہ آسانی سے تو حاصل نہیں ہوا۔جان وجگر کھپایا ہے تو اس کو پایا ہے۔لیکن آپس کی بات ہے ،ہمارے ان جمہوری بادشاہوں کو ڈرنا چاہیے اس دن سے جس دن اس ملک میں واقعی حقیقی جمہوریت آگئی!

Shafique Shakir
About the Author: Shafique Shakir Read More Articles by Shafique Shakir: 8 Articles with 7496 views Work as an educator,write columns in regional dailies.Write poems in Urdu,Sindhi and English... View More