دوہزار پندرہ بہت سے مسائل اور غم دے کر چلا گیا٬ کیسا ہوگا2016؟

دنیا بھر میں 2016کاسورج طلوع ہوچکا ہے۔ ہر زی شعور کی یہی دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ 2016دنیابھر میں امن ومحبت کا سال ثابت کریں۔2015میں بہت سے ایسے واقعات ہوئے جنہوں نے عالمی سیاست سمیت ملکی سیاست میں بھی بہت تبدیلی رونماکی ۔پاکستان سمیت دنیابھر میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ 2015میں دیکھنے کا ملا۔ یورپ ،فرانس میں دہشت گردی کے حملے ہوئے جس کی وجہ سے ایک دفعہ پھر یورپ اور مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے مصیبت اور تکلیف پیدا کردی۔داعش جیسے تنظیم نے القاعدہ اور طالبان کے نام کو بھولا دیا۔ سعودی عرب کے مفتی عظیم سمیت دنیا بھر کے معروف علما ئے کرام نے داعش کو اسلام دشمن تنظیم کہا اور ان کی کارروائی کو اسرائیل اور یہودیوں کی کارستانی قرار دیالیکن اس کے باوجود داعش کا خطرہ دنیابھر کے لئے بالعموم اور مسلم ممالک کے لئے بالخصوص موجود ہے جن میں اب افغانستان سمیت پاکستان میں بھی اس کا خطرہ محسوس کیا جارہاہے۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد خطے میں امن آنے کی جوامید پیدا ہوگئی تھی اس میں اب مایوسی پیدا ہورہی ہے کہ افغانستان میں داعش قدم جمانے میں مصروف ہے اور اس نہ ہو کہ عراق اور شام کے بعد داعش اس خطے میں بھی مضبوط قوت بن جائے ۔اس کے باوجود کہ افغانستان میں داعش کے مقامی سربراہ اور دوسرے اہم رہنماؤں کو 2015 میں ٹارکٹ کیا گیالیکن کچھ دن پہلے ہی پنجاب سے داعش کے لوگوں کا پکڑے جانا ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلا ف ا ب تک 60ہزار سے زائد قربانیا ں دی اور 110ارب ڈالر کا نقصان کیا ۔اب داعش کا خطرہ یقینی طور پر ہمارے لیے سب سے زیادہ تشویش کا باعث ہے کہ پاکستان کے لیے انہوں نے اپنا امیر بھی مقر کردیا ہے۔

ملک کے سکیورٹی اداروں اورحکومت نے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن ضرب عضب میں اگر سو فیصد نہیں تو کم ازکم بہت حدتک کامیابی ضرور حاصل کی ہے جس کی وجہ سے ملک میں مجموعی طور پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں کمی وقع ہوئی ہے خاص کر خیبر پختونخوا اور سندھ کراچی میں اب اس طرح دہشت گردی نہیں ہورہی ہے جس طرح پہلے ہوا کرتی تھی ۔ دہشت گردی کے خلاف Do or Dieوالی صورت حال پیدا ہوگئی ہے یعنی کرو یا مرو۔ اب پاک فوج کی جانب سے آپریشن ضرب عضب قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں اور دہشتگردوں کے خلاف اپنی آخری مراحل میں ہے جس میں سکیورٹی اداروں کے مطابق 90فی صد علاقہ کلیئر ہوچکا ہے اور تقریباً15سے20فی صد علاقہ مکین اپنے اپنے علاقوں میں جاچکے ہیں لیکن اکثریت اب بھی اس امید کے انتظار میں ہے کہ جلداز جلد آپریشن مکمل ہوجائے اور ہم اپنے علاقوں میں واپس چلے جائیں۔ حکومت کی جانب سے ان متاثرین کو اس طرح امداد بھی نہیں دی جارہی ہے جس طرح وعدیں کیے گئے تھے ۔

قبائلی علاقوں میں آپریشن ضرب عضب اور ملک بھر میں قومی ایکشن پلان کی وجہ سے بہت سے دہشتگرد اور شدت پسند افغانستان بھاگ چکے ہیں لیکن زیادہ تر اب بھی ملک بھر میں اور قبائلی علاقوں میں موجود ہے جو پاک فوج اور سکیورٹی اداروں کے ساتھ جنگ میں مصروف ہے۔ نہ صرف قبائلی علاقوں میں ان کی طرف سے پاک فوج کو مذاہمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ شہری علاقوں میں بھی وقتاً فوقتاًسکیورٹی اداروں کے اہلکاروں اور سنٹرز پر حملے کیے گئے ہیں جس میں بڑا حملہ پشاور ائر بیس کا بھی ایک تھا ۔جسے یہ لوگ باآور کرانا چاہتے ہیں کہ ہم میں اب بھی قوت ہے کہ ہم جہاں اور جب چاہے حملے کر سکتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان حملوں میں بیرونی طاقتیں بھی شامل رہی ہے اور ان ہی کی ایما پر یہ حملے ہوئے ہیں۔شدت پسندوں کی جانب سے ان حملوں کو آپریشن ضرب کا ردعمل بھی کہا جارہاہے۔اس آپر یشن کو عالمی سطح پر بھی سراہا گیا۔
قبائلی علاقوں میں آپریشن ضرب عضب اور قومی ایکشن پلان سمیت اپنے افواج کے ساتھ کھڑے ہونے اور ملک سے شدت پسندی اور دہشت گردی کے عزم کی وجہ سے ملک بھر سمیت عالمی سطح پر بھی آرمی چیف جنرل راحیل شریف مشہور و معروف کمانڈر کے طور پر عوام اور خواص میں شہرت حاصل کی اور ہرجگہ چھائے رہے۔
مجموعی طور پر دنیابھر کی طرح پاکستان پر بھی 2015کافی بھاری سال گزراجس میں 26اکتوبر کے زلزے نے ایک دفعہ پھر پرانی یادیں تاز کر دی اور زیادہ تر نقصان خیبرپختونخوا میں ہوا۔

2015میں جہاں پر دہشت گردی اور قدرتی آفات کا سامنا کرناپڑا وہاں پرملک کی سیاسی صورت حال میں بھی کافی نشیب وافراز سے دیکھنے کو ملے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اسلام آباد میں 126دن دھرنے کے نتیجے میں بننے والے جوڈیشل انکوائری کمیشن کی رپورٹ بھی سامنے آئی جس میں کمیشن نے اپنے رپورٹ میں دھاندلی کے حوالے سے کہا کیا کہ الیکشن کمیشن صاف اور شفاف انتخابات کرانے میں ناکام رہا،وہاں پر یہ بھی فرمایا کہ تحریک انصاف منظم دھاندلی ثابت نہ کر سکی جس پر کمیشن فیصلہ کرسکیں کہ شریف حکومت دھاندلی کرانے میں ملوث تھی۔عمران خان نے اس فیصلے کو تسلیم تو کر لیا لیکن ساتھ میں یہ بھی فرمایا کہ منظم دھاندلی کو ثابت کرناتحریک انصاف کاکام نہیں تھا بلکہ یہ کمیشن کا کام تھا ،ساتھ میں بھی فرمایا کہ 22سیاسی جماعتوں نے دھاندلی کا کہا ہے جس میں خود نون لیگ کی حکومت بھی شامل تھی۔ تحریک انصاف کے چیئرمین کے مواقف کو تقویت اس وقت ملی جب انہوں نے شروع دن سے نون لیگ حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ صرف چار حلقے کھلے جائیں جس میں تحقیقات سے معلوم ہو گا کہ دھاندلی ہوئی ہے یا نہیں۔ان چاروں حلقوں میں سے اب تک تین حلقوں کے فیصلے الیکشن ٹربیونلز نے دیے جس میں دھاندلی ثابت ہوئی اور ان حلقوں میں دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم دیا جس میں دو حلقوں الیکشن ہوئے اور ایک حلقے میں خواجہ سعد رفیق وفاقی وزیرریلوے نے سپریم کورٹ سے اسٹے آرڈر لیا۔ دوحلقوں میں سے ایک میں تحریک انصاف نے بہت بڑی مارجن سے نون لیگ کے امیدوار کو شکست دی جب کہ لاہور کے حلقے میں سپیکر آیاز صادق 25سوووٹوں سے جیتے جس پر تحریک انصاف نے ٹر بیونلز میں درخواست دی ہے کہ نون لیگ نے تقریباً25ہزارووٹ دوسرے حلقوں سے اس حلقے میں اپنیفائدے کے لئے منتقل کیے۔تحریک انصاف کا موقف ہے کہ ایک دفعہ پھر اس حلقے میں الیکشن ہوگا۔

چیئر مین تحریک انصاف عمران خان کے ذات کے لیے بھی یہ سال بہت بھاری رہا ۔ اسی سال میں ان کی دوسری شادی ہوئی جب کہ اسی سال میں ان کی شادی ناکام ہو کر طاق پر ختم بھی ہوئی جو سال بھر میں میڈیا کے لیے ہارٹ ایشو رہا۔

سال دوہزارپندرہ گزشتہ سالوں کی طرح دنیا بھر کی طرح پاکستانی میڈیا کے لیے بھی کوئی اچھا سال ثابت نہ ہوا ۔اس سال بھی میڈیا ہاؤسز اور کار کنوں پر کئی حملے ہوئے۔

ملکی سیاست کی بات کی جائے تو وہاں پر سب سے اہم کام بلدیاتی انتخابات کا منعقد ہونا ہے لیکن ان بلدیاتی نمائندوں کے پاس اختیارات موجود نہیں ۔ خیبر پختونخوا میں کاغذی اختیارات تو موجود ہے لیکن عملی طور پر نمائندے اپنے اختیارات کے لیے آج سڑکوں پر احتجاج کرنے میں مصروف ہے جبکہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان نے توان کو پہلے سے بے اختیار کر دیا ہے ۔عوام اور خواص میں یہ بات زدعام ہے کہ حکومت نے صرف خانہ پوری کے لیے الیکشن کرائیں۔

ملک بھر میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے کارروائیاں جاری ہے جس میں زیادہ تر عمل کراچی میں ہوا جہاں پر پہلے سے دہشت گردی جاری تھی ۔ بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کی روک تھام کے لیے رینجرز کی طرف سے بہت بڑی پیمانے پر پکڑ دھکڑ بھی ہوئی ۔ بہت سے ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کو گرفتار اور موت گھاٹ اتارا کیا ۔ ایم کیوایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپے پڑے ساتھ میں ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کی متنازعہ تقروں پران کو قومی میڈیا میں کوریج پر پابندی لگا دی کہ الطاف حسین کی تصویراور تقاریر نشر نہیں کی جائے جس پر عملدرآمد آج تک جاری ہے۔ 2015میں کراچی میں جاری رینجرز آپر یشن کا سب سے زیادہ نقصان ایم کیو ایم نے اٹھا یالیکن بلدیاتی انتخابات نے ان کو پھر زندہ کردیا ۔

کراچی میں دہشتگردی کاررئیوں کو روکنے اور نیشنل ایکشن پلان کے تحت پیپلز پارٹی کے رہنماڈاکٹر عاصم حسین اور آصف زرداری کے دست راز کو پکڑ جانے کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت اور رینجرز اختیارات میں تنازعہ کھڑا ہوا جس کا اب باقاعدہ آغاز ہمیں سخت بیانات کی شکل میں سندھ اور وفاقی حکومت کے درمیان آئی ۔ سندھ حکومت رینجرز کے اختیارات کو محدود کر نے کی کوشش میں ہے جب کہ و فاقی حکومت نے رینجرز کو دو ماہ کے اختیارات دیے۔عام لوگوں سمیت خواص کا بھی یہی خیال ہے کہ کراچی میں امن کے لیے ضروری ہے کہ رینجرز آپریشن جاری رکھی جائے۔ سندھ حکومت کی کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے بہت سے ممبران اسمبلی اور کار کنان بیرونی ممالک چلے گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی جو وفاقی پارٹی تھی، اپنی پالیسیوں کی وجہ سے اب سندھ کی پارٹی بن کر رہ گئی ہے۔سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اپنی پارٹی بنائی جس کو سیاسی تجزیہ کار ایک ناکام کوشش قرار دے رہے ہیں۔

خطے میں پاکستان کی اہمیت اور کردار 2015 میں کافی اہم رہا ۔ افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان عالمی ممالک کے تعاون اور مشورے سے مری میں مذاکرات ہوئے جو بعدازاں طالبان امیر ملاعمر کے وفات کی خبر آنے کے بعد تعطل کا شکا ہوئے ۔افغان طالبان نے اپنے قوت اور اتحاد کو ثابت کرنے کے لیے افغانستان میں کئی جگہوں پر قبضہ کیا اور بڑے بڑے حملے کیے ۔ افغان حکومت کو جہاں پر طالبان حملہ روکنا مشکل ہوا وہاں پر افغانستان میں داعش کے قدم جمانے کی ناکامی نے بھی مشکلات پیدا کیے۔

طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات ختم ہو نے کے بعد افغانستان اور پاکستان میں تعلقات کافی دفعہ اتار چڑھاؤ کے شکار رہے۔ اب آرمی چیف جنرل راحیل شریف ، ملکی ،علاقائی اور عالمی قوت کے تعاون سے ایک دفعہ پھر افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات شروع ہونے کی کوشش میں کامیاب ہوئے ۔ آرمی چیف نے افغان حکومت کو اپنا مکمل تعاون پیش کیا۔اب امید یہ پیدا ہوئی ہے اور یہ کہا جارہاہے کہ 2016کے اوائل میں مذاکرات شروع ہوجائیں گے اور دوہزار سولہ میں افغانستان مسئلہ کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔جس کے لئے پاکستان کی جانب سے کوشیش جاری ہے۔

اسلام آباد میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے انعقاد نے پاکستان اور بھارت کے درمیان برف پگھلا دی ، اسی طرح افغانستان اور پاکستان کے درمیان پایا جانے والا عدم اعتماد اور غلط فہمیوں میں کافی کمی واقع ہوئی ۔افغان صد ر اشرف غنی کو اعلیٰ شان استقبالیہ دیا گیا۔ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے انعقاد نے جہاں پر دونوں ممالک بھارت اور پاکستان کے درمیان رابطے قائم رکھنے میں اتفاق کیا وہا ں پر 25دسمبر کو بھارتی وزیر اعظم نریندری مودی کے اچانک دورے پاکستان نے بھی دونوں ممالک سمیت پوری دنیا کو حیران کر دیا کہ وہ وزیراعظم جوپاکستان اور مسلم دشمنی میں ثانی نہیں رکھتے، انہوں نے افغانستان سے دہلی جاتے ہوئے لاہور میں چند گھنٹے قیام کیسے کیا۔اس اچانک دورے نے دونوں ممالک کے میڈیا کو حیران ضرور کیا لیکن اس دورے سے بظاہر کوئی بریک تھرو نہیں ہوا۔سیاسی ماہر ین اس دورے کو اس حوالے سے مثبت قرار دے رہے ہیں کہ بھارتی وزیراعظم کے دورے پاکستان سے کم از کم جوکشیدہ ماحول پیدا ہوا تھا تھا یا خراب تعلقات تھے اس میں کمی آئی گی اور مسقتبل کے لیے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتر اورحل طلب مسائل پر بات چیت کا آغاز ہو جائیگا۔مودی کے دورے پاکستان ، جہاں پر اس کو نیم سرکاری دورہ کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم مودی صرف وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کو سالگرہ کے مبارکباد دینے اور وزیراعظم کے نواسی کی شادی میں شریک ہونے کے لیے آئے تھے۔دونوں رہنماؤں کے درمیان سیاسی گفتگو کم اور خاندانی تعلقات پر بات زیادہ ہوئی۔ دونوں ممالک کے میڈیا میں اس دورے پر تبصرے تاحال جاری ہے۔ مجموعی طور پر دونوں ممالک کی جانب سے اس دورے کا خیر مقدم کیا گیا۔

2015میں سیاسی اور عالمی حالات میں اتارچڑھاؤ اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہے لیکن اسی سال میڈیا کی زینت بننے والی سب سے مقبول خبر منی لانڈرنگ کیس میں ماڈل گرل آیان علی بھی رہی جو بیرونی ممالک تین کروڑ روپے لے جارہی تھی۔ اس کیس میں بالکل سائٹ لائن رکھنی والی خبر وہ ہے کہ جس پولیس انسپکٹر نے ڈالر گرل کو پکڑا تھا ان کو بعد ازاں گولی مار دی گئی لیکن کسی نے بھی اس پر ایکشن نہیں لیا ، جبکہ ڈالر گرل کا ناتاپیپلزپارٹی کے اعلیٰ حکام سے رہا اور پیپلزپارٹی قیادت نے اپنی ایڑی چوٹی کازور لگایا کہ کسی طرح اس کیس کو ختم کیا جائے اور آیان علی کو بیرونی ملک جانے دیا جائے جس میں تاحال وہ ناکام رہے۔

2015میں ملک کی معیشت میں بھی کوئی بہترئی نظر نہیں آئی ۔ نون لیگ حکومت اپنی روایاتی فیصلوں اور اقدام پر عملی پیرا رہی ۔ اسلام آباد اور راولپنڈی میٹرو بس کا آغاز تو کیا گیا لیکن تاحال میٹرو سے تباہ ہونے والے سٹرک تعمیر نہ ہوسکے۔ لاہور گرین ٹرین چلانے کا افتتاح بھی کیا گیا لیکن جہاں پر دنیا کی سب سے مہنگی میٹر و بنائی گئی وہاں پر صحت، تعلیم ، بجلی، گیس، پینے کاصاف پانی سمیت ہسپتالوں میں علاج معالجے کے لیے رکھی گئی رقم بھی ان ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہوئی ۔ عوام کی جان ومال کی حفاظت اور پولیس غنڈہ گردی کو روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ ڈالر کی قیمت بڑھتی جارہی ہے جس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا بھر میں پٹرولیم کی قیمت انتہائی کم سطح پر116سے کم ہو کر 35بیرل حساب پر آئی ہے لیکن حکومت نے گزشتہ پانچ ماہ سے کوئی قیمت کم نہیں کی ۔ اقتصادی ماہر ین کے مطابق پٹرول کی قیمت زیادہ سے زیادہ پچاس روپے ہونی چاہے۔دوسری طرف ملکی برآمدات میں انتہائی کمی واقع ہوئی ہے جبکہ درآمدات میں اضافہ ہواہے۔450ارب کے دنیا کی تاریخ میں مہنگے بانڈز خرید ے گئے جس پر دس سال میں صرف سود 500ارب ادا کرنا ہوگا۔

بے روزگاری میں کمی کے لیے اور مہنگائی کو کم کرنے کے لیے حکومت نے کوئی منصوبہ بندی شروع نہیں کی۔اداروں میں تباہی کو نہیں روکا کیا بلکہ اب بہت سے اداروں کو بیجنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔
2015جیسے ویسے بھی تھاگزر کیا ۔ اب 2016شروع ہوچکا ہے۔ سب لوگوں کے ذہنوں میں ایک ہی سوال ہے کہ کیا دو ہزار سولہ بھی اسی طرح گز ر جائے گا جس طرح 2015گزر گیا یا حکومت کی جانب سے کچھ ایسے ا قدامات ہوں گے جس سے عوام کی روزمرہ زندگی آسان ہوجائے گی ۔اﷲ تعالیٰ سے دعاگو ہے کہ 2016پوری دنیا میں امن وامان کا سال رہے ۔موجود حالات کے مطابق اس سال کے بارے میں کافی حدشات پائے جارہے ہیں کہ اس سال خطے میں نئی گیم شروع نہ ہوجائے۔ دعا تو پوری قوم کی ہے کہ ہمارے ملک سمیت پورے خطے اور دنیا سے دہشت گردی اور فرقہ پرستی کا خاتمہ ہوجائے۔ اﷲ تعالیٰ قدرتی آفات سے بھی بچائے اور ملک کے حکمرانوں کو صحیح فیصلے کرنے کی توفیق بھی دیں۔عوام کے ذہنوں میں جوسوال ہے کہ کیسا ہوگا2016وہ بہتر ،کامیاب اور کامرنی کا سال ثابت ہوجائے۔ سیاستدان ملکی بقا کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سیاست کر یں ۔ وفاقی حکومت کی جانب سے صرف پنجاب کو نہیں بلکہ پورے ملک کو سپورٹ ملنی چاہیے، خاص کر خیبر پختونخوا کو اپنے حقوق دی جائے اور محازآرائی کی سیاست سے گریز کی جائے۔ملک کی تاریخ میں اقتصادی رہداری روٹ کا افتتاح تو کیا گیا ہے لیکن خیبر پختونخوا کے تحفظات دور نہ کیے گئے ۔اصل روٹ کو چھوڑکر صرف سڑک بنانے پر اکتفاکیا گیا ہے جس سے محاذ آرائی میں اضافہ ہوگا۔ میاں نواز شریف کو پنجاب کا نہیں بلکہ پورے ملک کاوزیر اعظم ہونے کا ثبوت دینا چاہیے۔تب ملک ترقی کر سکتا ہے اور 2016ہمارے لئے بہتر ہو سکتا ہے کہ جب تمام فیصلے اتفاق رائے سے کی جائے اور اسمبلیوں کو اہمیت دی جائے۔

Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 226343 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More