حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق
کا مقصد اور فرشتوں کے سامنے اس کے اظہار کا واقعہ قرآن کریم میں مذکور ہے۔
فرشتوں نے جب اس موقع پر اپنی رائے کا اظہار کیا کہ ’’ جس مخلوق کو آپ زمین
پر اپنا خلیفہ بنا رہے ہیں اس میں تو شر و فساد کا مادہ بھی ہے وہ دوسروں
کی اصلاح اور زمین میں امن و امان کا انتظام کیسے کر سکتا ہے جبکہ وہ خون
ریزی کو بھی مرتکب ہوگا اس کی بجائے آپ کے فرشتوں میں شر و فساد کا کوئی
مادہ نہیں وہ خطاؤں سے معصوم ہیں اور ہر وقت آپ کی تسبیح و تقدیس اور عبادت
و اطاعت میں لگے ہوئے ہیں وہ بظاہر اس خدمت کو اچھی طرح انجام دے سکتے
ہیں‘‘ اس کے جواب میں فرشتوں پر دلائل سے یہ بات واضح کی گئی کہ تمام
کائنات عالم کے نام اور ان کے خواص وآثار جن کے علم کی صلاحیت صرف حضرت آدم
علیہ السلام ہی میں ودیعت کی گئی ہے فرشتوں کی فطرت و جبلت اس کے مناسب نہ
تھی، مثلاً دنیا کی نافع و مضر چیزیں اور ان کے خواص و آثار، ہر جاندار اور
قوم کے مزاج و طبائع اور ان کے آثار، فرشتہ کیا جانے بھوک کیا ہوتی ہے،
پیاس کی تکلیف کیسی ہوتی ہے، نفسانی جذبات کا کیا اثر ہوتا ہے، کسی چیز سے
نشہ کس طرح پیدا ہوتا ہے، سانپ اور بچھو کا زہر کسی بدن پر کیا اثر کرتا
ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں علما کرام نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’حاکم کے لئے ضروری
ہے کہ اپنی محکوم رعایا کے مزاج و طبائع سے اور ان کے خواص و آثار سے پورا
واقف ہو، اس کے بغیر وہ اُن پر عدل و انصاف کے ساتھ حکمرانی نہیں کرسکتا،
جو شخص یہ نہیں جانتا کہ بھوک سے کیسی اور کتنی تکلیف ہوتی ہے، اگر اس کی
عدالت میں کوئی دعویٰ کسی کو بھوکا رکھنے کے متعلق پیش ہو تو وہ اس کا
فیصلہ کیا اور کس طرح کرے گا؟‘‘
چاروں طرف سے روشن مکمل ایئر کنڈیشنڈ پارلیمنٹ میں اجلاس جاری ہے، ملک کے
وزیر اعظم بھی موجود ہیں، صدر بھی موجود ہیں، وزرا اعلیٰ بھی موجود ہیں اور
وزرا بھی موجود ہیں، ارکان پارلیمنٹ بھی تشریف رکھتے ہیں، حکومتی ارکان بھی
موجود اور حزب اختلاف بھی شاملِ اجلاس ہیں۔ لیجئے آج پھر لوڈ شیڈنگ کے
مسئلے پر غور کیا جا رہا ہے، کہیں تجاویز پیش کی جارہی ہیں، کہیں سنی جارہی
ہیں، مشورے ہو رہے ہیں، مسائل پر تبادلہ خیالات کیا جارہا ہے، کچھ دیر بعد
اجلاس ختم ہوتا ہے تمام معزز ارکان اپنی ٹھنڈی ٹھنڈی گاڑیوں میں بیٹھ کر
اپنے ٹھنڈے ٹھنڈے گھروں میں جا کر آرام کی نیند سو جاتے ہیں اگر موبائل
ائیر کنڈیشنڈ میسر ہوتے تو گاڑی سے نکل کر گھر میں داخل ہونے تک کے چند قدم
بھی اس ٹھنڈک سے محروم نہ ہوتے۔
عوام بیچاری پھر اُس گرمی سے نڈھال ہے، غیر اعلانیہ میں لوڈ شیڈنگ میں چند
گھنٹوں کا اضافہ اور ہو جاتا ہے اور جوں جوں گرمی کا زور بڑھتا جاتا ہے لوڈ
شیڈنگ میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے اور اب تو حالت یہ ہے کہ اگر کبھی ایک
گھنٹہ بھی مسلسل بجلی رہے تو حیرت ہونے لگتی ہے۔ دن کے وقت اُٹھنا بیٹھنا
محال ہو چکا ہے رات کو سکون کی نیند میسر نہیں، اس لوڈ شیڈنگ کے باعث مرد
گھروں سے باہر گھومنے پھرنے اور سونے پر مجبور ہیں، عورتیں کیا کریں وہ
گھروں میں اذیت برداشت کر رہی ہیں بچے نڈھال ہیں کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ
ابھی دَم نکل جائے گا۔ عوام کیا کرے مجبور ہے، احتجاجوں اور دھرنوں کی ہمت
بھی نہیں رہی، زیادہ سے زیادہ کچھ لوگ غصے میں حکومت بد دعاؤں اور گالیوں
سے نوازتے رہتے ہیں۔ اور واپڈا والوں کو دن رات جن جن القابات سے نوازا
جاتا ہے وہ تحریر تو کیا کئے جائیں سننے کی ہمت بھی نہیں ہوتی۔
جب لوگوں نے زیادہ شور شرابہ مچایا اور کچھ میڈیا والوں نے بھی عوام کی
حالتِ زار کچھ حکومت والوں کو بتائی۔ چلیں کچھ وزرا صاحبان نے بیانات تو
دینا شروع کئے، اگر واپڈا والے ٹھیک نہ ہوئے تو حکومتی تحویل میں لے لیں گے
تو جناب پہلے خود کو تو ٹھیک کرلیں کیونکہ جب تک حکومت والے ٹھیک نہیں ہوں
گے کوئی محکمہ بھی ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ حکومت چاہتی ہے کہ ان بیانات پر ہی
لوگوں کو ٹرخاتے رہیں کہ فلاں تاریخ تک لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو جائے گا اور
ان لاروں میں یا تو اتنا ٹائم تو پاس ہو جائے گا کہ یا تو ہماری حکومت ختم
ہو جائے یا پھر عوام ہی تھک ہار کر چپ ہو جائے اور نہیں تو کم ازم کم
گرمیاں تو ختم ہو ہی جائیں گی۔
اور ان محکموں کی کارکردگیوں کا آپ کیا پوچھتے ہیں جس جس کا واسطہ پڑا ہے
وہ جانتا ہی ہے۔ اس سال ایک سروے کے مطابق دنیا میں پاکستانی سرکاری ادارے
کرپشن میں پہلے نمبر پر ہیں اور پاکستان میں کرپشن میں پہلے نمبر پر واپڈا
کا محکمہ ہے۔ اور تو اور بجلی والے میٹر ریڈنگ کی زحمت بھی گوارہ نہیں
کرتے، بندہ اس وقت جس مکان میں رہ رہا ہے وہ دو ماہ خالی رہا لیکن بجلی کا
بل اُتنا ہی آتا رہا اور تین ماہ سے جس ریڈنگ کا بل آتا ہے وہ اگلے مہینے
جاکر بھی پوری نہیں ہوتی۔ گیس کے میٹر کے لئے درخواست دئیے ہوئے دو سال سے
زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور سوئی گیس کے محکمے کے چکر لگا لگا کر کئی جوتے
گھِسانے کے بعد ابھی دو ماہ پہلے ڈیمانڈ نوٹس ملا اور اب محکمے والوں کا
فرمان ہے کہ ڈیمانڈ نوٹس کے ۹ ماہ بعد گیس کا کنکشن لگتا ہے، اللہ کرے یہ
فرمان بھی سچ ہو تو بھی غنیمت ہے۔
لوڈ شیڈنگ کے مسئلے کے حل کے لیے ایک تجویز پیش کرنا چاہتا ہوں شاید کہ اس
سے کچھ اثر ہو جائے۔ تجویز حاضرِ خدمت ہے کہ اب پارلیمنٹ میں لوڈ شیڈنگ کے
لئے مسئلے کے جو اجلاس ہو وہ کچھ اس طرح کیا جائے کہ پارلیمنٹ ہاؤس کی بجلی
مقطع کر دی جائے، ائیر کنڈیشنڈ اور پنکھے وغیرہ بند ہونے کے باعث جب معزز
ارکان اسمبلی پسینے میں شرابور ہوکر تبادلہ خیالات کریں گے تو انشا اللہ یہ
مسئلہ کھل کر سامنے آئے گا کھلے دل و دماغ سے سنا جائے گا اور کچھ عمل کا
جذبہ بھی پیدا ہوجائے گا۔ اجلاس کی کاروائی کم ازم کم تین گھنٹے ضرور جاری
رکھی جائے۔ اور نہیں تو کم ازکم پہلے اجلاس میں یہ فیصلہ ضرور کیا جائے کہ
جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا اسمبلی کا اجلاس اسی طرح ہوا کرے گا۔ اس میں
مزید اضافے کے لئے معزز اراکین کو ائیر کنڈیشنڈ گاڑیوں کی جگہ عام گاڑیاں
دی جائیں اور اگر ان کے گھروں میں بھی اُسی طرح لوڈ شیڈنگ کی جائے جس طرح
عوام کے ساتھ کی جاتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ جنریٹر پر بھی پابندی عائد کردی
جائے تو سونے پر سہاگہ والی بات ہوجائے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ ’’ذرالیول پر
آکر بات کریں ‘‘تو انشا اللہ ضرور سمجھ میں آئے گی۔
ہمارا یہی فارمولا باقی مسائل میں بھی آزمایا جا سکتا ہے مثلاً مہنگائی کے
مسئلے کے لئے معزز اراکین اسمبلی کو بھی چاہیے کہ گھر کا ماہانہ خرچ اتنا
ہی کرلیں جتنا کہ ایک عام آدمی کا ہے، پانچ سے دس ہزار کی تنخواہ میں ذرا
ایک مہینہ گزارہ کر کے دیکھیں، مہنگائی کا مسئلہ انشا اللہ سمجھ میں آجائے
گا اور جب مسئلہ سمجھ میں آجائے تو پھر حل کرنے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔
ان تجاویز پر عمل درآمد ہونے کی اگرچہ کوئی اُمید نہیں ہے اس لئے اتنی بات
ضرور عرض کرنا چاہتا ہوں جو حکمران اپنی عوام کے دکھ درد اور مسائل سے واقف
ہی نہ ہو وہ اُن کا مداوہ کس طرح کر سکتا ہے۔ جس کے صبح و شام اس گرمی کے
موسم میں ائیر کنڈیشنڈ میں گزرتے ہوں وہ گرمی سے تڑپتی ہوئی عوام کی تکلیف
کیا سمجھیں گے، جنہیں یہ علم ہی نہیں کہ لوڈ شیڈنگ سے عوام کو گھریلو اور
کاروباری کیا کیا نقصانات اور مسائل ہوتے ہیں وہ اس پر کیا قابو پائیں گے،
جو لوگ ایک وقت کے کھانے پر لاکھوں روپے خرچ کر دیں اور ہزاروں روپے چائے
کا بل ادا کریں اُنہیں کس طرح یہ احساس ہوگا کہ اس مہنگائی میں ایک غریب
آدمی کا چولہا کیسے جلتا ہے۔ جو لوگ پانچ ہزار ڈالر فی گھنٹہ کرایہ کی
گاڑیوں میں سفر کریں اُنہیں کیا پرواہ کہ پٹرول کتنا مہنگا ہو چکا ہے،
اُنہیں اس کا احساس کہاں کہ ایک غریب آدمی کو اس سے کتنا فرق پڑتا ہے جو
اپنے موٹر سائیکل میں ایک لیٹر پیٹرول ڈلوانے سے پہلے بھی دس بار سوچتا ہے۔
اور جن لوگوں کے استقبال میں ڈالروں کی بارش کی جائے اور جو رقاصاؤں پر
لاکھوں لُٹا دیں وہ کس طرح اندازہ کر سکتے ہیں کہ عوام کی اکثریت ہر ماہ
اپنے گھر کا خرچ کیسے پورا کرتی ہے۔
یہ سچ ہے کہ ’’حاکم کے لئے ضروری ہے کہ اپنی محکوم رعایا کے مزاج و طبائع
سے اور ان کے خواص و آثار سے پورا واقف ہو، اس کے بغیر وہ اُن پر عدل و
انصاف کے ساتھ حکمرانی نہیں کرسکتا، جو شخص یہ نہیں جانتا کہ بھوک سے کیسی
اور کتنی تکلیف ہوتی ہے، اگر اس کی عدالت میں کوئی دعویٰ کسی کو بھوکا
رکھنے کے متعلق پیش ہو تو وہ اس کا فیصلہ کیا اور کس طرح کرے گا؟‘‘
اللہ تعالیٰ ہماری شامت اعمال کو ہم سے دور فرمائے اور ہمیں ایسے حکمران
نصیب فرمائے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہوں اور عوام کا احساس رکھنے والے
ہوں۔ |