علم وقلم کی کائنات کا شہنشاہ :قاری ابو الحسن اعظمی
(مولانا محمد اعجاز عرفی قاسمی, India)
قاری ابو الحسن اعظمی تجوید و قرأت کی دنیا
کا ایسا عظیم نام ہے، جس کے ارد گرد مختلف عظمتوں اور رفعتوں کا ہالہ بنا
ہوا ہے۔ قاری ابو الحسن اعظمی، یعنی علم و ادب کا کوہ ہمالہ، عظمتوں اور
رفعتوں کا نشان، فضائل و کمالات کا مخزن، علم وقلم کا دھنی،دیدہ وری اور
دانش وری کا عنوان،زہد و ورع اور تقوی و طہارت کا پیکر،یہ دو لفظی نام آتے
ہی محاسن و محامد کی ست رنگی قوس و قزح ذہن کے اسکرین پر گردش کرنے لگتی ہے۔
وہ ایک لمبے عرصے تک ایشیا کے عظیم اسلامی ادارے دار العلوم کی تاریخی
عمارت، احاطۂ مولسری کی دائیں جانب واقع ایک درس گاہ میں اپنی خوش الحانی
کا پرچم لہراتے رہے اور طالبان علوم قرآنی کے درمیان تجوید کا جام لنڈھاتے
رہے اور آج بھی جب کہ وہ رسمی طور پر دار العلوم سے منسلک نہیں ہیں،ہر جگہ
علم و فن کی روشنی تقسیم کرتے پھر رہے ہیں۔اور ’صلائے عام ہے یاران نکتہ
داں کے لیے‘ کی مجسم تصویر بنے ہوئے ہیں۔انھوں نے اپنی طویل تدریسی زندگی
میں کئی سنگ میل عبور کیے ہیں۔علم قرأت کی دنیا میں ہزاروں شاگرد تیار کیے،
تدریس کے ساتھ تصنیف و تالیف کا صبر آزماشغل بھی اپنائے رہے، علم تجوید اور
تفسیر و قرأت کی زلفیں سنوارنے کے ساتھ بیعت و اجازت اور رشد و ہدایت کی
محفل بھی سجائے رہے اور تصوف و سلوک کے رہرووں کی بھی دست گیری کرتے رہے کہ
یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر۔
ان کی خدمات، فتوحات اور کارناموں کا دارۂ بہت وسیع ہے۔ وہ مختلف صلاحیتوں
کے حامل عبقری انسان ہیں۔ان کا دل شاعر جیسا حساس ہے، قلم مؤرخ کا پایاہے،
دماغ عالم دین کا ہے، فکر بزرگان دین سے ودیعت پائی ہے۔ وہ شروع سے ہی قلم
و قرطاس کے شیدائی رہے ہیں،یہ کہنا چاہیے کہ انھیں دنیائے قلم کی صاحبقرانی
ملی ہے، انھوں نے تعلیم و تعلم اور درس و تدریس کے ساتھ نثری اور ادبی جوہر
کامظاہرہ بھی کیا ہے۔ وہ تقریبا ۱۵۰ ؍کتابوں کی تالیف و ترجمہ کا تاج زریں
اپنے سر پر سجائے ہوئے ہیں۔ ان کے موضوعات کی بھی تحدید نہیں ہے۔ وہ تجوید
و تفسیر کے ساتھ علم و ادب اور سیاست و سماج کے سلگتے موضوعات کو بھی اپنے
قلم سے زندگی بخشتے ہیں۔ امت مسلمہ ہندیہ کو خواب خرگوش سے بیدار کرنے اور
انھیں علم و ہنر کا سبق دینے کے لیے ہر وقت مستعد اور قلم بر دست رہتے ہیں۔
تجوید و قرأت اور قرآن فہمی تو خیر ان کا محبوب مشغلہ ہے، وہ اس کے علاوہ
بہت سے اسلامی، سماجی اور رفاہی کاموں میں بھی بڑھ چرھ کر حصہ لیتے ہیں۔ وہ
متعدد دانش گاہوں اور مدارس و مکاتب کے بانی و سرپرست ہیں۔ علی گڑھ مسلم
یونی ورسٹی کے ممتحن اور آل انڈیا ریڈیو کی اسکریننگ کمیٹی کے ممبر ہیں۔
وہ ایک جری اور بے باک عالم دین واقع ہوئے ہیں۔قد چھوٹا اور بات بڑی۔حق و
صداقت کا اظہاران کا ایمان ہے۔ وہ مصلحت پسند نہیں۔حالات ساز نہیں۔ تملق
اور خوشامد کا فن انھیں نہیں آتا۔ مداہنت انھیں گوارا نہیں۔ روباہی کیا چیز
ہوتی ہے، اس سے آشنا نہیں۔ انھوں نے کبھی زہر ہلاہل کو قند نہیں کہا۔
دارالعلوم میں صداقت کا علم بلند کرنے کی وجہ سے’ یار دوستوں‘ کی گھٹیا
سیاست کا نشانہ بنے۔ اور ایسا وقت بھی آیا کہ تیرے عہد میں دل زار کے سبھی
اختیار چلے گئے۔وہ علامہ اقبال کے اس شعر کی تصویر ہیں کہ:
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلۂ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
سقراط کو بھی سچ کے اظہار کی وجہ سے زہر کا پیالہ پینا پڑا تھا۔ انبیاء،
صحابہ، صلحا اور علماء کو ہر دور میں سچ کا اعلان کرنے کی وجہ سے صعوبت و
مشقت کے دریائے شور کو عبور کرنا پڑا ہے، انھیں بھی سچ کے اظہار اور حق کے
اعلان کی پاداش میں تعذیب کے خوف ناک اور دل آزار مرحلے سے گزرنا پڑا،
انھوں نے اپنی محبتوں کے مرکز دار العلوم سے برطرفی تو گورار کرلی کہ یہ
ہمارے اکابر و اسلاف کا بھی یادگار عمل رہا ہے،علامہ انور شاہ کشمیری کا
طرز زندگی اور ۱۹۸۰ء کا حادثۂ فاجعہ ان کے سامنے تھا، مگر انھوں نے دار
العلوم کے تقدس، اس کی عظمت اور اس کی شہرت پر حرف نہیں آنے دیا۔ انھوں نے
اپنے آپ کو قربان کردیا ، مگر دار العلوم کو قربان ہونے سے بچا لیا۔اور
حیرت ہوتی ہے کہ وہ دار العلوم کے باہر رہنے کے بعد بھی دیوبند کے تقدس
اوراس کی عظمت کا نشان اور پہچان بنے ہوئے ہیں۔ دیوبند میں بہت سوں نے نام
نہاد شہرت حاصل کی ہے، دوسرے کے کاندھوں پر سوار ہوکر شہرت و نام وری کا
سفر طے کیا ہے، مگر قاری ابو الحسن علم و فن کی دنیا کا وہ کوہ نور ہے، جس
کی عظمت و شہرت مانگے کا اجالا نہیں، بلکہ وہ ایسی شخصیت ہیں، جنھوں نے
اپنی شخصیت کی تعمیر بدست خود کی ہے۔ علم تجوید و قرأت کی ایک عظیم شخصیت،
جس نے تجوید و قرأت سے لے کر علم و فن کے ہر موضوع پر خامہ فرسائی کی،
صحافت و سیاست کے گیسو کو بھی سنوارا، ترجمہ و تالیف کے دشت میں بھی سیاحی
کی ہے اور آج جب کہ وہ ۷۰ کی عمر کا عرصہ پار کرچکے ہیں، اسی ہمت اور عزم و
حوصلہ کے ساتھ علم و فن کا نور پھیلانے کا کام کر رہے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ یہ کتاب ان کی رفعتوں کا عنوان بنے گا۔ ان کے حاسدین کے
لیے تازیانۂ عبرت ثابت ہوگا۔ اور اس سے یہ بھی ثابت ہوگا کہ ادارے کسی کی
عظمت کا نشان نہیں ہوتے، بڑے لوگ ہر پرچم اور ہر اسٹیج سے بے نیاز ہوتے
ہیں۔ وہ جہاں بھی رہتے ہیں، زندہ ، متحرک اورتوانا ہوتے ہیں، وہ کہیں گم
نام اور ناکام نہیں ہوتے۔ شہرت و عظمت ان کے پیچھے چلتی ہے۔ہر جگہ اپنے
کارناموں سے چراغاں کیے رہتے ہیں۔ دوسروں کی شخصیت کو زینہ بناکر ترقی کے
منازل طے کرنا ان کاشیوہ نہیں ہوتا، وہ خود دوسروں کی ترقی اور شہرت کی راہ
ہموار کرتے ہیں۔
قاری صاحب جیسی شخصیتیں ہمیشہ پیدا نہیں ہوتیں۔ایسی شخصیتیں اتفاقات زمانہ
کے تحت پیدا ہوتی ہیں۔ وہ عجوبۂ روگار اور سر زمین پر خدا کی نشانی ثابت
ہوتی ہیں۔بس یہی دعاء ہے کہ اﷲ تعالی ہمارے اوپر تادیر ان کا سایہ قائم
رکھے ، وہ اسی طرح علم و فن کے باب میں شمع روشن کرتے رہیں،اور علم و اداب
کے متلاشی ان کے دامن علم سے فیض یاب ہوتے رہیں۔اس شعر کے ساتھ میں رخصت
ہوتا ہوں کہ:
جلانے والے جلاتے ہی ہیں چراغ آخر
یہ کیا کہا کہ ہوا تیز ہے زمانے کی |
|