جسٹس پارٹی

 یہ حقیقت ہمیں مانی پڑے گی کہ عمران خان کے لئے خیبرپختونخوا میں مخلص نمائندوں کی کمی ہے جو عمران خان کے سوچ کے مطابق فیصلوں پر عملدارآمد کریں اور پارٹی منشور کو آگے بڑھاتے ہوئے حقیقی معنوں میں تبدیل لائیں۔میرے اندازے کے مطابق صوبے میں وزارت اعلیٰ کے منصب پر پرویز خٹک کو بٹھانا عمران خان کی مجبوری ہے کہ پارٹی میں کوئی دوسرا ایسا شخص نہیں جو عمران خان کی سوچ اورخواہش کے مطابق کام کریں۔پرویز خٹک پرانا سیاسی کھلاڑی ہے وہ روایاتی سیاست کوکبھی بھی نہیں چھوڑ سکتا۔ انہوں نے عمران خان کو اپنے چال میں پھنسا دیا ہے۔ عمران خان جو اعلان کرتا ہے ،وزیراعلیٰ بھی وقتی طور پر اس کی تاعیت کر تا ہے جبکہ بعدازاں وہ اپنی سیاسی روایت کو برقرار رکھتا ہے۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے بہت سے ایسے فیصلے کیے جس نے عمران خان کی سوچ کی نفی کی اور خان صاحب بعدازاں میڈیا کو جوازپیش کرتا رہاہے۔ حالیہ دنوں میں عمران خان کے فیصلے کو دیکھے کہ انہوں نے صوبے میں وی آئی پی پروٹوکول کوختم کرنے کا اعلان کیا، بہت دفعہ اس کا ذکرجلسوں اور میڈیا میں بھی کیا جب کہ اب بھی کرہاہے ۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے بھی خانہ پوری کے لیے ایک نوٹیفکیشن جاری کیاجس پر عمل درآمد تاحال نہیں ہوا ۔شایدصرف عمران خان کے لیے ہوجائے۔ حقیقت میں وزیراعلیٰ صاحب پروٹوکول کو ختم نہیں کرنا چاہتے اور اب اس پروٹوکول کو سکیورٹی کانام دیا ۔ گزشتہ کچھ دنوں میں کئی دفعہ وزیراعلیٰ نے خود پروٹوکول کے ساتھ دورے کیے جس میں ایک دورہ انہوں نے مردان ہسپتال کا بھی کیا جہاں پر تمام گیٹ بند کیے گئے۔ اسی طرح جب صدر اور وزیراعظم پشاور یا صوبے کادورہ کریں گے تو وہ سڑک بند نہیں ہوں گے اور عوام ان کی دورے سے ذلیل ہوتے رہیں گے۔
 
بحرحال آج ہم بات کررہے ہیں نئی پارٹی کی جو سابق چیف جسٹس افتخار امحمد چوہدری نے بنائی ہے اس کا نام رکھا ہے ’’ جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی‘‘ یعنی یہ پارٹی ملک میں انصاف اور جمہوریت کی پارٹی ہو گی جس کا افتتاح ہی انہوں نے غیر جمہوری انداز سے کیا کہ خود کو پارٹی کا صدر بنایا بغیر کسی رائے شماری کے۔ویسے میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ شاید دنیا میں سب سے زیادہ پارٹیاں ہمارے ملک میں ہی ہوں گی۔ ہم نے دوسرے کسی چیز میں ریکارڈ بنایا ہو یا نہ ہولیکن پارٹی بنانے میں ضرور بنا یا ہے جو کوئی بھی آدمی کسی فیلڈ میں ناکام یا بعض کامیاب ہوجاتے ہیں اور عوام کی طرف سے ان کو تھوڑی بہت پذیرائی مل جاتی ہے تو وہ فوراً ہی سیاسی پارٹی بنا لیتا ہے یاکچھ لوگ اپنے فیلڈ سے ریٹائرڈ منٹ کے بعدپارٹی بنا لیتے ہیں۔ایسے لوگوں کی سوچ یہ ہوتی کہ عوام مجھ پر بھروسہ کرتے ہیں اور میں جوں ہی پارٹی بناؤں گا عوام کاجم غفیر میرے ساتھ شریک ہو جا ئیگی، مجھے کندھوں پر اٹھائیں گی لیکن بد قسمتی سے پارٹی بنانے کے بعد وہ پہلے والی عزت بھی کھو بیٹھتا ہے اور آخر کار مایوس ہوکر گھر بیٹھ جاتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ نئے لوگوں کو سیاست میں نہیں آنا چاہیے بلکہ سیاست میں آنا ہر آدمی کا بنیادی حق ہے اور پاکستانی سیاست میں اچھے اور پڑھے لکھے لوگوں کی بہت زیادہ کمی ہے۔ اس لئے ان وراثاتی خاندانوں کا خاتمہ نہیں ہوتا۔ نئی پارٹیاں بھی بنانی چاہیے لیکن ان سب کے لئے ایک وقت ہوتا ہے عمرکا بھی تقاضا ہوتا ہے جبکہ ضروری بھی نہیں کہ جو لوگ اپنے فیلڈ میں کامیاب یا ناکام ہوئے ہو وہ سیاست میں آکر کامیاب ہوجائیں گے۔ پاکستان میں سیاست کرنا ہر بندے کا کام نہیں بلکہ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو پاکستان کے سیاست میں محنت کرکے آپنا مقام بنا لیتے ہیں۔ عمران خان کی مثال ہمارے سامنے ہیں جو بیس سال سے ان روایاتی سیاستدانوں کے خلاف ہے۔ ہمارے ان ریٹائرڈ حضرات سے یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ جب آپ سروس میں تھے تو آپ نے کونسا تیر چلایا یا مار ا ہے جس سے اس ادارے میں کوئی بہتری آئی ہویا اپ نے ملک کی سیاسی نظام میں بہتری لانے کے لئے کوئی قدم اٹھایا ہو جسے ہماری نظام سیاست میں بہتر آئی ہوجس میں عام آدمی اور پڑ ھے لکھے لوگ آگے آسکتے ہو۔2007میں عوام نے اور ہم جیسے صحافیوں نے چیف جسٹس کی بحالی میں آواز اٹھائی تواس کامطلب یہ نہیں تھا کہ چیف جسٹس سے لوگو ں کو پیار تھا بلکہ لوگ پرویز مشرف سے تنگ آچکے تھے اس لئے انہوں نے چیف جسٹس کا ساتھ دیا ۔ مقصد یہ تھا کہ ملک میں عدلیہ آزاد ہو جائے اور عوام کو انصاف جلد اور سستا ملے ۔ خاندان پے خاندان ختم ہوجاتے ہیں لیکن ہمارے عدالتوں سے فیصلے نہیں ہوتے ۔ تو قع پیدا ہوئی تھی کہ شاید ملک میں عدالتی نظام بہتر ہوجائے لیکن کچھ بھی بہتر نہ ہوا۔ افتخار چوہدری نے بحیثیت چیف جسٹس عدالتی نظام میں کوئی خاص تبدیلی نہیں لائے۔ اب انہوں نے سوچا کہ میں ملک کا صد ر ، وزیراعظم بن کر عوام کو فوری انصاف مہیا کروں گا اور ملک میں جمہوریت کو پروان چڑھا دوں گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام اس جمہوری طرز حکمرانی سے تنگ ہے جس میں عام آدمی کبھی آگے نہیں آسکتا ہے، پھر اس پارلیمانی جمہوری نظام میں آگے آنا بہت مشکل کام ہے ۔افتخار چوہدری کے لیے بہتر یہ تھا کہ ملکی سطح پر تھنک ٹینک بناتے اور ملک کے جمہوری نظام کی بہتری کے لیے آواز اٹھاتے۔بہرحال انہوں نے نئی پارٹی بنا دی ہے جس کا مستقبل ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے پارٹی سے مختلف نہیں لگتا۔ بہت جلد چوہدری صاحب کو اپنی غلطی کا احساس ہوجائے گا۔بعض لوگوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ جس طرح پر ویز مشرف نے نو سال حکومت کی اور صدر ارت کے بعد ایک نئی پارٹی کو لانچ کیا اور نعرہ بلند کیا کہ میں اب ملک کا نظام تبدیل کروں گا، جمہوریت کے لیے کام کروں گا، ملک میں انصاف قائم کر وں گا وہی باتیں افتخارچورہدری بھی کہتا ہے۔ حالاں کہ پر ویزمشرف نے بھی نوسال حکومت کی اور افتخار چوہدری بھی دس سال سے زئدعرصے تک ملک کے سب سے بڑے آئینی ادارے کے سربراہ رہے۔

ویسے افتخار چوہدری نے ایک بات ٹھیک کی ہے کہ ملک میں پارلمانی نظام کے بجائے صدارتی نظام جمہوریت ہونی چاہیے جس کو قائداعظم نے بھی کہا تھا کہ پاکستان میں برطانیہ طرز کی پارلیمانی نظام نہیں بلکہ امریکی طرز کی صدراتی نظام جمہوریت کامیاب ہو سکتی ہے۔ وقت کا بھی تقاضا ہے کہ ہم صدراتی نظام جمہوریت کے لیے آواز بلند کریں۔
 
Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 226217 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More