ایک رخ یہ بھی ہے تصویر کا
(Rasheed Ahmed Naeem, Patoki)
حکمرانوں کی مفاد پرستانہ پالیسی کے باعث
وطن عزیز آج کل مہنگائی کے ایسے بدترین دور سے گزر رہا ہے جہاں غریب کے لیے
جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے اپنی اولاد کو اچھی تعلیم و
تربیت کے زیور سے آراستہ کرنے کا خواب پورا ہوتے دکھائی دینے کی بجائے ان
کے پیٹ کی آگ بجھانا دشوار ہو گیا ہے مگر ایسے حالات میں ہم صحافی برادری
تصویر کا ایک رخ واضح کرتے ہوے اپنے اپنے ادارے کو ایسی چٹ پٹی خبریں ارسال
کرتے ہیں کہ ’’دوکانداروں کی طرف سے خو د سا ختہ مہنگا ئی ۔۔غر یبو ں کی
زند گی بوجھ بن گئی
’’ریڑھی بان چھا گئے۔۔۔انتظامیہ چاروں شانے چت ‘‘ ریڑھی بان بے لگام من
مانی قیمتیں وصول کرنے لگے ۔۔۔’’انتظامیہ خاموش تماشائی ‘‘ ’’ریڑھی بانوں
نے تجاوزات کھڑی کر کے عوام کا جینا حرام کر دیا ۔۔۔اعلیٰ احکام نے چپ سادھ
لی ‘‘ مگر تصویر کا دوسرا رخ پیش نہیں کرتے کہ کیا گراں فروشی کا جرم صرف
ریڑھی بان ہی کرتیہیں ؟؟؟کیا بلند و بالا عمارات میں قائم چمکتے د مکتے
شیشوں سیمزین پلازوں میں قائم تجارتی مراکز ،مارٹ اور شاپنگ سنٹر 100روپے
کی چیز 600روپے میں فروخت کر کے قوم کی خدمت میں مصروف ہیں ؟انتظامیہ کا
کوئی افسر ان بااثر افراد پر ہاتھ نہیں ڈالتا۔جب بھی تلوار سے وار ہو تا ہے
تو معاشی قتل عام کی زد میں غریب ریڑھی بان یا چھابڑی فروش ہی آتا ہے
افسران کی طرف سے جرمانے کی صورت میں جب بجلی گرتی ہے تو صرف غریبچھا بڑی
فروش یا ریڑھی والوں پر گرتی ہے جو پہلے ہی غربت کی کند چھری سے صبح و شام
ذبح ہوتے ہیں جبکہ دوسری طرف شاپنگ سنٹر میں معیار کے نام پر گراں فروشی کا
بازار گرم ہے جسے لوٹ مار کہنے کی بحائے ڈاکوؤں کی آما جگاہ کہا جائے تو
زیادہ بہتر ہے ۔ کیونکہ وہاں سجاوٹ کے نام پر ہزاروں گنا زیادہ ریٹ وصول
کیا جاتا ہے مگر نہ جانے انتظامیہ نے وہ کون سی عینک لگا رکھی ہے جو ان
قومی مجرموں اور ظالموں کے جرائم کو نظر نہیں آنے دیتی ان مگرمچھوں کو کوئی
نہیں پوچھتا۔جبکہ ریڑھی بان دو روپے فی کلو ریٹ زیادہ وصول کر لیں توپوری
انتظامیہ حرکت میں آجاتی ہے مگر مصلحتوں کے شکار افسران کو شیشوں کے پیچھے
چھپے گراں فروشی کے ریکارڈ قائم کرنے والے گھناؤنے اوربد نما چہرے کیوں
دکھائی نہیں دیتے؟؟؟
حرف آخرکے طور پر عرض ہے کہ کہیں یہ حقیقت تو نہیں کہ ہم صحا فت کے نام پر
یکطرفہ قلم چلانیکے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں |
|