حکمران کب تک صحرائی ریت میں سر چھپائیں گے۔
۔ ۔ ۔
تعلیم کا شعبہ ہر معاشرے میں بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور دنیا کا ہر
معاشرہ اِس شعبے میں ترقی کو ترجیح دیتا ہے اور تعلیمی نظام کو بہترین
بنانے کی کوشش کرتا ہے، اِس کی اصل وجہ یہ ہے کہ تعلیم انسان کے کردار میں
ایسی نمایاں تبدیلیاں لاتی ہے، جس کا اثر براہ راست پورے معاشرے پر پڑتا ہے،
واضح رہے کہ علم ایک ایسا اعزاز ہے جس نے ابتدائے آفرینش ہی سے انسانیت کو
معزز اور قابل صد احترام بنایا ہے، علم ایک ایسا زیور ہے، جو انسانیت کو
سجا سنوار کر حسن کائنات بناتا ہے، تہذیب و تمدن، آداب معاشرت اور طرز
معیشت کے ایسے انداز سکھاتا ہے جس سے انسانیت کو معراج حاصل ہوتی ہے اور
معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جاتا ہے، علم کا سیکھنا اور اِس کے حصول
میں سرگرم عمل رہنا اسلامی تعلیمات کا بھی ایک اہم جز ہے، کیونکہ علم کے
بغیر انسان خود فراموشی کے ساتھ خدا فراموشی کا بھی مرتکب ہوتا ہے اور اپنے
مقصد تخلیق کی معرفت سے محروم رہتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ علم تہذیب و تمدن
اور معاشرے کی تعمیر و ترقی کا ضامن ہے، اِسی لیے اسلامی تعلیمات میں جہاں
حصول علم کیلئے بے شمار ترغیبی مضامین ملتے ہیں، وہیں اہل علم و دانش،
استاد اور ماہر تعلیم کی عزت و احترم اور توقیر کی بھی مثالیں ملتی ہیں، گو
کہ ایک استاد اور معلم کا احترام ہر معاشرے میں کیا جاتا ہے کیونکہ وہ
نسلوں کو علم و آگہی کی روشنی دیتا ہے، لیکن اسلام ایک استاد کو روحانی باپ
کا درجہ دے کر ایسا منفرد مقام عطا کرتا ہے، جس کی مثال شاید ہی آج کے کسی
جدید تعلیم یافتہ معاشرے میں ملتی ہو۔
بلوچستان میں کافی عرصے سے اہل علم و دانش اور اساتذہ کی ٹارگٹ کلنگ کا
سلسلہ جاری ہے، خود گورنر بلوچستان بارہا یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ صوبے میں
امن کہیں نظر نہیں آتا، سب سے زیادہ تشویشناک بات صوبہ بلوچستان میں شعبہ
تعلیم سے وابستہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ ہے، اب تک ممتاز ماہر تعلیم پروفیسر
فضل باری، بلوچستان یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر صفدر کیانی، پروفیسر
خورشید اختر انصاری، وزیر تعلیم شفیق احمد سمیت شعبہ تعلیم سے وابستہ 25 سے
زائد بے گناہ افراد اِس ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن چکے ہیں، جن کا قصور صرف یہ
تھا کہ وہ دوسرے صوبے سے آکر بلوچستان کے نوجوانوں میں علم و حکمت کی سوغات
بانٹ رہے تھے، گزشتہ دنوں بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کی
پروفیسر ناظمہ طالب کا بہیمانہ قتل بھی اِسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے،
ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والی مشہور افسانہ نگار، شاعرہ اور ادیبہ پروفیسر
ناظمہ طالب نے 1987ء میں بطور لیکچرار بلوچستان یونیورسٹی سے اپنے کیرئیر
کا آغاز کیا، انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی میں ماس کمیونی کیشن ڈیپارٹمنٹ
کے قیام میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا، جس کی وجہ سے اُن کا شمار اِس شعبے
کے بانی ارکان میں ہوتا تھا، چند روز قبل انہیں دہشت گردوں نے یونیورسٹی سے
گھر جاتے ہوئے راستے میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا، اطلاعات کے مطابق اُن
کے قتل کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کر لی ہے۔
اِس وقت صورتحال یہ ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردوں کی جانب سے اساتذہ کو
ٹارگٹ کلنگ اور نشانہ بنانے کے پے در پے واقعات اور خاتون پروفیسر کے قتل
کے بعد کوئٹہ میں واقع بلوچستان یونیورسٹی کے 100 سے زائد اساتذہ نے ہائر
ایجوکیشن کمیشن کو تبادلے کیلئے درخواستیں دے دی ہیں، جبکہ بلوچستان
یونیورسٹی کے کئی اساتذہ نے اسلام آباد، پنجاب اور کراچی کی جامعات میں
باقاعدہ تدریس بھی شروع کردی ہے،واضح رہے کہ بلوچستان یونیورسٹی میں 500 کے
قریب اساتذہ ہیں، جن میں 280 کے کا تعلق پنجاب، سندھ اور کراچی سے ہے مگر
وہ برسوں سے کوئٹہ میں مقیم ہیں، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل
ڈاکٹر سہیل نقوی کا کہنا ہے کہ بلوچستان یونیورسٹی کے اساتذہ کی جانب سے
درخواستیں موصول ہورہی ہیں جن میں انہوں نے اپنی پوسٹنگ بلوچستان سے باہر
کرنے کی درخواست دی ہے، اگر یہی حال رہا تو بلوچستان کے اعلیٰ تعلیمی ادارے
اساتذہ سے خالی ہوجائینگے۔
یوں تو پاکستان کے مختلف شہروں میں سیاسی کارکنوں کے ساتھ ساتھ اب اساتذہ
کو بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جارہا ہے، بالخصوص کوئٹہ، لاہور اور
کراچی میں اِس طرح کی وارداتیں رونما ہورہی ہیں، جس پر طلباء اور اساتذہ
اور محب وطن حلقے سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں، بلوچستان میں دہشت گردی،
بدامنی، سیاسی حقوق کے حصول کیلئے، عسکری اور نظریاتی مزاحمت کے نتیجے میں
انارکی اور ٹارگٹ کلنگ کی سے جو بدترین صورتحال پیدا ہوئی ہے، اسے جامعہ
بلوچستان کی ایک درمند، انسان دوست اور خلیق معلمہ پروفیسر ناظمہ طالب کے
وحشیانہ قتل کے پس منظر میں ایک درد انگیز سانحہ اور ناقابل بیان المیہ ہی
کہا جاسکتا ہے، جس سے اُن بلوچ سیاسی قوتوں کو جو وسائل کے جائز اور
معقولیت پر مبنی مطالبات کیلئے پرامن جدوجہد کررہے ہیں، شدید اور ناقابل
تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ اب شعلہ جوالہ بن چکی ہے، جسے بجھانے کی فوری
ضرورت ہے، دیکھا جائے تو مظلومیت اور محکومیت پورے ملک کی غریب عوام کی
مشترکہ میراث ہے، اسلیئے مسلح جدوجہد میں مصروف عناصر کو ہمارا دردمندانہ
مشورہ ہے کہ ٹارگٹ کلنگ اور بدامنی مسئلے کا حل نہیں ہے، حقوق کے حصول
کیلئے سیاسی جدوجہد کے آئینی و جمہوری راستے تلاش کرنے چاہیے جو ہمیشہ کھلے
رہتے ہیں، یاد رکھیں کہ معصوم اور بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے سے کوئی
تحریک اور عوامی جدوجہد کبھی بھی مقامی، قومی اور بین الاقوامی ہمددری کی
مستحق نہیں ٹھہرتی، یہ بات بلوچستان میں تمام متحارب قوتوں کو یاد رکھنی
چاہیے، اِس وقت بلوچستان صوبائی اور مرکزی حکومت کی انتہائی توجہ کا طالب
ہے، اسلئے کہ وہاں بیرونی اور اندرونی وطن دشمن عناصر کی پوری کوشش ہے کہ
بلوچستان کو محض بلوچوں کا مرکز بنا دیا جائے اور ایسے حالات پیدا کردیئے
جائیں کہ وہاں دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ نہ تو رہ سکیں اور نہ ہی
ملازمت کرسکیں، جبکہ پاکستان ایک ایسی وحدت ہے جس میں ہر پاکستانی جس صوبے
میں چاہے جائے، رہے اور وہاں ملازمت کرسکتا ہے، خیال رہے کہ صوبوں کی تقسیم
کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ جتنے صوبے اتنے پاکستان، مگر حکمرانوں کی
ناعاقبت اندیشی اور حالات و واقعات سے یوں لگتا ہے کہ ملک دشمن قوتیں
بلوچستان کو ایک ایسا صوبہ بنایا چاہتی ہیں جہاں کسی اور صوبے کے باشندے نہ
تو قیام کرسکیں اور نہ ہی ملازمت، لیکن اگر یہی حال رہا تو وہ وقت دور نہیں
جب ہر صوبے کا رہنے والا اپنے صوبے میں کسی اور صوبے کے فرد کا وجود برداشت
کرنے پر تیار نہیں ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ اساتذہ اور اہل علم و دانش قوموں کے بہترین مستقبل کے معمار
اور ضامن ہوتے ہیں، اِن کا یوں کھلے عام قتل، علم و حکمت اور فکر و شعور کا
قتل اور ملک و قوم کے مستقبل کو جہالت اور ذلت و گمراہی کے اندھیروں میں
دھکیلنے کی منظم سازش کا حصہ ہے، بلوچستان میں علم کے چراغوں کو بجھانے کا
جو عمل علم دشمن قوتوں نے شروع کیا ہے، وہ ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہے، آج
اگر یہ عمل نہیں رکا تو یاد رکھیں کہ مستقبل میں اہل نظر انسان دوست،
جمہوریت پسند اور بلوچستان کی آئندہ نسلیں جامعہ بلوچستان کے درودیوار سے
لپٹ کر روئیں گی، یہ امر معنی خیز ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت صرف
اُن لوگوں کو قتل کیا جارہا ہے جو مقامی نہیں ہیں، دوسرے لفظوں میں تمام
آباد کاروں کیلئے عدم تحفظ کی صورتحال پیداکی جارہی ہے، یہ صورتحال صوبے کی
ترقی و خوشحالی کے ساتھ ملک و قوم کیلئے بھی شدید نقصان دہ ہے، پروفیسر،
ڈاکٹر اور انجینئر جو اِس صوبے کے عوام کی برسہا برس سے خدمت کررہے ہیں، کا
صوبے کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ہے، اِن کی ہلاکتوں کا واضح مقصد
صوبے کی ترقی کے خلاف ایک منظم اور گھناؤنی سازش ہے، جو عناصر بھی اِن
مذموم کاروائیوں میں ملوث ہیں وہ کسی صورت بھی صوبے کی عوام کے دوست نہیں
ہیں اور انہیں کسی طور بھی بلوچوں اور پختونوں کا ہمددر قرار نہیں دیا
جاسکتا۔
اس وقت بلوچستان اپنی تاریخ کے انتہائی نازک ترین دور سے گزر رہا ہے، حکومت
کی جانب سے ساحلی علاقے گوادر سے لے کر تمپ، تربت، مند، خضدار، ڈیرہ بگٹی،
سبی، کوہلو، خاران، مستونگ اور صوبے کے دارلحکومت کوئٹہ تک، دہشت گردی کے
سدباب میں زمینی حقائق سے جڑے ہوئے انتظامی فیصلوں کی شدید کمی محسوس ہوتی
ہے، اِسی وجہ سے مستقبل قریب میں شورش اور دہشت گردی کے بنیادی تدارک اور
عوام کی جائز شکایات اور سیاسی قوتوں سے مکالمے اور دو طرفہ بات چیت کا
کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا، حکومت کی طرف سے محض وقت گزاری اور صوبے کے
سیاسی، سماجی اور زمینی حقائق سے اغماص برتنے کی جو بھاری قیمت اِس بدنصیب
صوبے کی دکھی عوام اور قوم کو ادا کرنا پڑ رہی ہے، کیا وہ ہمارے ارباب
اقتدار کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی نہیں ہے؟، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امن
و امان کے قیام کو اولین ترجع دی جاتی اور عوام کے تمام طبقات بالخصوص آباد
کاروں میں احساس تحفظ پیدا کیا جاتا، لیکن بلوچستان آج بھی بے معنی بیان
بازی، الزام تراشی اور نیم دلانہ سرکاری کوششوں اور بدامنی کے اعصاب شکن
اثرات و مضمرات کی لپیٹ میں ہے، لہٰذا ہم حکمرانوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ
نوشتہ دیوار پڑھیں اور بلوچستان کی صحرائی ریت کے اندر سر چھپا کر حالات کو
بہتر بنانے کے خواب دیکھنے کے بجائے، دیرپا مؤثر اور ایسے عملی اقدامات
کریں، جس سے صوبے کی عوام کا احساس محرومی دور ہوسکے اور وہ بھی قومی دھارے
میں شامل ہوکر ایک قوم ایک وحدت کا حصہ بن سکیں۔ |