کراچی میں جاری آپریشن کی وجہ سے یہاں ہونے والی دہشت
گردی ، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان ا ور بھتہ خوری کی وارداتوں میں
نمایاں حد تک کمی آئی ہے تاہم اسٹریٹ کرائم میں گزشتہ ڈیڑھ برس میں غیر
معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک نجی ٹی وی سے نشر ہونے والی رپورٹ کے
مطابق اسٹریٹ کرائم کے حوالے سے سب سے زیادہ وارداتیں موبائیل فون چھینے کی
ہو رہی ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر نقدی اور زیورات چھینے کی وارداتیں ہیں۔
گھروں اور دکانوں میں ڈکیتیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ برس یعنی 2015
کے اعداد شمار کے مطابق گزشتہ برس موبائل فون چھینے کی مجموعی طور پر 37
ہزار 230 وارداتیں رپورٹ کی گئیں۔ جو یومیہ اعتبار سے 102 وارداتیں بنتی
ہیں یعنی ہر گھنٹے میں کم از کم 4.25 واردتیں۔ گزشتہ برس کراچی میں نقدی
اور زیورات چھینے کی 25ہزار550 وارداتیں ہوئیں جو یومیہ اعتبار سے 70بنتی
ہیں یعنی ہر گھنٹے میں کم از کم 2.91 وارداتیں ۔سال 2015 کے دوران
20ہزار75موٹرسائیکلیں چوری ہوئیں یا چھینی گئیں یعنی یومیہ اعتبار سے
55موٹر سائیکلیں یا تو چوری ہوئیں یا چھینی گئیں یعنی ہر گھنٹے میں کم از
کم 2.29 وارداتیں جبکہ گزشتہ برس کراچی میں 2ہزار 175گاڑیاں چوری ہوئیں یا
چھینی گئیں جس کا یومیہ حساب 6گاڑیاں روزانہ بنتا ہے یعنی ہر4گھنٹے میں ایک
واردات ۔ گویا اگر کراچی میں ہونے والی اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں کی فی
گھنٹہ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو مجموعی طور پر ہر ایک گھنٹے میں مختلف
قسم کی کم از کم 8.89وارداتیں ہو رہی ہیں۔ظاہر ہے کہ پولیس رویوں اور کورٹ
کچہری کے چکروں سے بچنے کے لئے عوام کی ایک بڑی تعداد موبائیل فون اور نقدی
یا زیورات کے چھینے جانے کی وارداتوں کو رپورٹ ہی نہیں کرتے لہذا اس طرح کی
چالیس فیصد سے زیادہ وارداتیں رپورٹ ہی نہیں ہوتیں تاہم موٹر سائیکلوں یا
گاڑیاں کی چوری یا چھینے جانے کی وارداتیں رپورٹ تو ہوتی ہیں لیکن اس میں
بھی 60فیصد سے زیادہ ایس ایچ او تھانہ واقعہ کی ایف آر درج نہیں کرتا اور
صرف روزنامچے میں انٹری ہی سے کام چلا لیتا ہے۔لیکن سی پی ایل سی کی وجہ سے
موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کی چوری یا چھینے جانے کی یہ وارداتیں ریکارڈ کا
حصہ ضرور بن جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کراچی میں جب بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ،
اغوا برائے تاوان اور دہشتگردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے تو پھر
اسٹریٹ کرائم میں کیوں اضافہ ہوا ہے اور اضافہ بھی 30 سے 40فیصد کا۔ اس میں
ایک بات تو بالکل واضح ہے کہ اسٹریٹ کرائم کی شرح میں اضافہ پولیس کی مایوس
کن کارکردگی ہے اور اس کی پرفارمنس پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ظاہر ہے کہ
اسٹریٹ کرائم کو کنٹرول کرنا پولیس کا کام ہے نہ کہ رینجرز کا۔لیکن یہ بھی
ایک تلخ حقیقت ہے کہ اسٹریٹ کرائم کے بڑھنے سے کراچی میں جاری آپریشن پر
بھی ایک سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں کا دورانیہ 40 سے
50سیکنڈ سے زیادہ نہیں ہوتا اور بعض وارداتیں اس سے بھی کم وقت میں مکمل کر
کے ملزمان راہ فرار اختیار کر لیتے ہیں۔ یہاں یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ وہ
بھتہ خور کہ جو ’’ایزی منی‘‘ کے عادی ہو چکے تھے اب وہ آسانی سے بھتہ خوری
نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے اس طرح کے بیشتر گینگ جو بھتہ خوری کی چھوٹی
چھوٹی وارداتیں کرتے تھے اب انھوں نے اپنا طریقہ واردات بدل لیا ہے اب وہ
چند لمحوں میں سڑکوں اور گلیوں میں لوٹ مار کی واردات کر کے غائب ہو جاتے
ہیں اور ایک ایک گروپ ایک ایک دن میں کئی کئی وارداتیں کرتا ہے۔ اس حوالے
سے پولیس کا موقف تو وہی روایتی ہے کہ ان کی پاس موبائلیں (پولیس وین) کی
کمی ہے جبکہ پولیس اس حوالے سے نفری کی کمی کا رونا بھی روتی ہے۔ لیکن
شہریوں کی طرف سے یہ شکایتں بھی عام ہیں کہ لوٹ مار کی بہت سی وارداتوں میں
پولیس والے یا تو براہ راست خود ملوث ہوتے ہیں یا پھر وہ اپنے ’’پنٹروں‘‘
سے اس طرح کی وارداتیں کرواتے ہیں۔ دوسری طرف سی پی ایل سی کا کہنا ہے کہ
شہر میں سی سی ٹی وی کیمرے لگائے جا رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ سی سی ٹی
وی کیمروں کے نا ہونے کی وجہ سے یہ وارداتیں ہو رہی ہیں۔ سی پی ایل سی کا
حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ شہر کے اہم مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب
کروائے۔یہ منطق بھی اس لئے نا قابل فہم نظر آتی ہے کہ ایک تو پورے شہر میں
سی سی ٹی وی کیمرے نصب کروانا اربوں روپے کا پروجیکٹ ہے اور بعد میں ان کی
دیکھ بھال بھی لاکھوں روپے کا ماہانہ نسخہ ہے ۔ یہاں یہ بات بہت زیادہ
اہمیت کی حامل ہے کہ بینکوں کی اے ٹی ایم مشین میں ڈکیتی کرنے والے ملزمان
جن کی سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہوتی ہے، ان میں سے 60 سے 70فیصد ملزمان
پکڑے ہی نہیں جاتے۔ لہذا یہ بات کہ شہر میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہونے کے
بعد صورت حال تبدیل ہو جائے گی، اتنی زیادہ موثر نظر نہیں آتی۔ اسٹر یٹ
کرائم میں کمی صرف اور صرف ایماندار اور فرض شناس پولیس ہی کی موجودگی میں
ممکن ہے لیکن یہ ایک بہت بڑا اور اہم ترین سوال ہے کہ ایماندار اور فرض
شناس پولیس کہاں سے لائی جائے ؟ |