ذوالفقارعلی بھٹو نے کبھی دعویٰ نہ کیا تھا
کہ وہ کوئی فرشتہ ہیں. شاید وہ پاکستان کے پہلے سیاستدان، پہلے رہنما اور
پہلے سربراہ حکومت تھے جو ڈنکے کی چوٹ پر اپنی گناہ گاری کا اعلان لاکھوں
کے مجمعے میں کرتے رہے. اسی لیے آج جب انکے مخالف انکی بڑی ، چھوٹی غلطیاں
مرچ مصالحے لگا کر دہراتے ہیں تو حیرت ہوتی ہےکہ انہیں ولی اللہ تو کبھی
کسی نے نہیں کہا تھا پھر غلطیاں دھرانے کے لیے اتنی نفرت انگیزی کی کیا
ضرورت ہے . یہ تو صرف اولیا اللہ ہی ہوتے ہیں جن سے ہم بے خطا ہونے کی امید
رکھتے ہیں.
آج تک تاریخ میں شاید ہی کو ئی ایسا حکمران گزرا ہو جس سے کسی کو شکایت نہ
ہو ، جسکے ہاتھوں کسی کی حق تلفی نہ ہوئی ہو، غلط فیصلے نہ ہوۓ ہوں اور ان
غلط فیصلوں کے بد اثرات نہ مرتب ہوۓ ہوں. اورتواور تاریخی طور پر ہم خلفا
راشدین کے ادوار میں بھی اکا دکا ایسے فیصلے ہوتےدیکھتے ہیں جن کے نتا ئیج
بعد میں آ نے والی نسلوں نے بھگتے.
سو ذوالفقارعلی بھٹو نے بھی بہت سی غلطیاں کیں، بلوچستان پر فوج کشی سے
لیکر احمدیوں کے مسلے کو پارلیمنٹ میں لے جانے تک اور نیپ کی حکومت برخواست
کرنے سے لےکر افغانستان میں اپنے اثر ؤ رسوخ کو استمال کرنے تک ایسے کئی
برے فیصلے ہوۓ جن کے پاکستان پربداثرات کا شاید بھٹو صاحب نے سوچا بھی نہ
ہوگامگر کیا یہ فیصلے صرف ایک فرد کے تھے؟ کیا ذوالفقارعلی بھٹو کے بعد آنے
والے اتنے کمزور تھے کہ آئین کا ناک کان تو اپنی مرضی سےمروڑلیں
مگربلوچستان میں بھٹو کے قتل کے پینتیس سال بعد بھی دھرتی کے بیٹوں کی مسخ
شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ نہ رکوا سکیں؟ احمدیوں کو تو ایک پارلیمنٹ نے اپنے
اکثریتی بلڈوزر کے ساتھ کافر بنا دیا اورآج تک انسانی حقوق پرایمان رکھنے
والےاس کلنک کے ٹیکے کو بھٹو صاحب کےماتھے پرلگاتےہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ
جونیجو نہ سہی، بے نظیر بھٹو نہ سہی، نواز شریف نہ سہی مگر" روشن خیال" اور
بااختیار پرویزمشرف نے بھی اس طرف توجہ کیوں نہ دی؟
یہ عدالتیں جنہوں نے پہلے ایک منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو مجرم
گردانتے ہوۓ انکا عدالتی قتل کیا تھا انہی عدالتوں نے ایک غاصب جرنیل پرویز
مشرف کو اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کے مقدر کا تین سال تک مالک بھی بنا دیا
اور آئین کو موم کی ناک بنا کر اپنی مرضی سے مروڑنے کا اختیار بھی دے دیا
لیکن ایک عدالتی "مجرم " بھٹو اور انکے قتل کا ڈرافٹ بنانے والے غاصب جرنیل
ضیا کی اسلامی ترامیم کو نہ " چھونے" کا حکم بھی ساتھ ھی دے دیا ، آخر کیوں
؟
افغانستان میں بھٹو صاحب پر مداخلت کا الزام لگانے والے یہ کیوں نہیں سوچتے
کہ بھٹو تو ١٩٧٩ میں قتل کر دیۓ گیۓ مگر کیا انکی روح ہے جوآج بھی سٹیٹیجک
ڈیپتھ کے نام پرافغانستان کی بچی کچھی ہڈیوں پر سے گوشت نوچ رہی ہے ؟
کیا کسی زندہ قوم کو یہ زیب دیتا ہے کہ ایک شخص پر اپنی تمام تر قومی
نااہلی کا ملبہ ڈال کر بہتر فیصلے کرنا یا حکومتوں سے کروانے کے لیے دباؤ
ڈالنا چھوڑ دے ؟
ذوالفقارعلی بھٹو کے برے فیصلے ان کے ساتھ دفن ہوجاتےاگر یہ صرف ایک شخص کے
فیصلے ہوتے مگر یہ فیصلے اکیلے ذوالفقارعلی بھٹو کے نہ تھے وہ اس گلے سڑے
بدبودار سسٹم کے فیصلے تھے جسکے زہریلے بیج قا یدا عظم کی وفات پر بوئے گیۓ
جنکو محلاتی سازشوں نے وقت پر پانی دیا، نگرانی کی اور جس کی زمین کو غیر
ملکی کھا د ڈال ڈال کر زرخیز بنا یا گیا ! وہ فیصلے بھٹو کے قتل کے بعد بھی
قائیم رہے، انہیں مضبوط کیا گیا اورانہیں بزورقوت عملی جامہ بھی پہنایا
گیا.
کہا جاتا ہے کہ کسی انسان کی زندگی نہیں بلکہ اسکا انجام ہی بتا سکتا ہے کہ
وہ ہیرو تھا یا زیرو. سطحی سیاسی سوچ کے ما لک اورکینہ ورلوگ پاکستان کو
پیش آنے والی ہر مصیبت اور مشکل کا الزام بھٹوصاحب پر لگا سکتے ہیں کیونکہ
جمہوریت میں راۓ کی آزادی بھی ہے اور حق بھی! مگر ذوالفقارعلی بھٹو کا
انجام اور پینتیس سال سے پاکستانی سیاست میں انکی حاکمیت یہ ثابت کرنے کے
لیے کافی ہے کہ وہ اس مٹی اور اسکے رہنے والوں کے ساتھ حد درجہ مخلص تھے
انہوں نے بہت سی غلطیاں کیں کبھی اصولی تو کبھی غیراصولی سیاست بھی کی
مگرپورے پاکستان میں گونجتا انکا نام یہی بتا تا ہے کہ انکی نیت میں کھوٹ
نہ تھا اورانکی وطن سے وفاداری غیرمشروط تھی.
آج سے پینتیس سال پہلے جنرلوں نے بھٹو کی قبر پر پہرہ لگا دیا تھا اور آج
سے سات سال پہلے سردار اکبر خان بگٹی کے کفن کو تالے ڈال کر یہ بات ثابت
کردی تھی کہ یہ منافق نظا م ہے جو کسی بھی عوامی آواز کو ایک ہی طرح قتل
کرتا ہے، عوامی رہنماؤں کے اچھے فیصلوں کو اپنے بھاری بوٹوں تلے روندتا ہے،
اپنے منافقانہ "اداریوں" اور سازشیکا لموں سے مشکوک کرتا ہے اور انکے برے
فیصلوں کے ڈھول انکی نسلوں کے گلے میں ڈال کر پیٹتا ہے. یہ بیمار نظا م
جھوٹے نمایندے پیدا کرتا ہے اور سچے رہنماؤں کی زندگی و موت دونوں سے
خوفزدہ رہتا ہے. سندھ کا بھٹو ہو کہ بلوچستان کا بگٹی ........
" مر کر بھی انکی قبر پر پہرہ لگا رہا
ہیبت انہی کی، دل پہ جلالت انہی کی تھی ".
اور یہ ہیبت ڈنڈوں،گولیوں، کوڑوں اور پھا نسیوں سے پیدا نہیں کی جاسکتی
بلکہ یہ جلالت ان مظالم کا دیوانہ وار مقابلہ
کرنے سے پیدا ہوتی ہے.
ذوالفقارعلی بھٹو نے جیل کی تاریک کوٹھری سے لکھا تھا "میں اپنی آخری آرام
گاہ سے اس ملک پر حکمرانی کروں گا" سو بھٹو نے اس طرح حکمرانی کی کہ جن کی
پیدایش ہی بھٹو دشمنی پر ہوئی تھی انہیں بھی گڑھی خدا بخش کے مزاروں پر
حاضری دینا پڑی ، فاتحہ خوانی کرنا پڑی اور ٢٠١٣ کے الیکشن میں یہ بھی کہنا
پڑا کہ " ہم بھٹو کا مشن پورا کریں گے ".
موت برحق ہے اور انسان فانی ! جسم نے مٹی میں ملنا ہی ہے صرف نام نے زندہ
رہنا ہےاور اگر کسی خطا کے پتلے کا نام اسکے دوستوں اور دشمنوں سب کی
زبانوں پر پینتیس سال بعد بھی تروتازہ ہے تو یقینن ذوالفقارعلی بھٹو نےاپنی
قیمتی جان دے کر نقصان کا سودا نہیں کیا .
" میں اس مٹی سے پیدا ہواہوں اور جب مروں گا تو آپ مجھے اسی مٹی میں
دفنائیں گے پھر میں اس مٹی سے غداری کیسے کر سکتا ہوں.بھلا میں آپکے ساتھ
کیسے فریب کر سکتا ہوں" ( ٣١ مارچ ١٩٧٢ ) |